چھتیس گڑھ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ووٹوں میں زبردست اضافہ ہوا اور اس اضافے کو وہ سیٹوں کے حصول میں بدلنے میں کامیاب رہی جبکہ کانگریس کے ووٹوں میں زیادہ کمی نہیں آئی لیکن اس کی سیٹیں کافی کم ہوگئیں اور وہ حکومت سازی کی پوزیشن میں نہیں رہ گئی۔ بھوپیش بگھیل کے ساتھ کانگریس لیڈر ٹی ایس سنگھ دیئو بھی وزیراعلیٰ کے امیدوار کے دعویدار تھے۔ کانگریس کی پچھلی حکومت میں وہ نائب وزیراعلیٰ تھے لیکن وہ بھی اس بار ہار گئے۔ یہ بات الگ ہے کہ صرف 94 ووٹوں سے انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا لیکن سب سے کم ووٹ سے ہارنے والے ایک ٹی ایس سنگھ دیئو ہی نہیں ہیں، ان سے بھی کم ووٹ سے ایک امیدوار ہارا ہے۔ کانکیر سے بی جے پی کے امیدوار نے صرف 16 ووٹوں سے جیت درج کی ہے۔ پتھل گاؤں اسمبلی حلقہ میں بھی مقابلہ کانٹے کا رہا۔ جیت ہار کا فیصلہ بہت کم ووٹوں سے ہوا۔ وہاں بی جے پی کی امیدوار نے کانگریس امیدوار کو صرف 255 ووٹوں سے شکست دی۔ پالی تاناکھر حلقہ اسمبلی میں گونڈوانا گن تنتر پارٹی اور کانگریس کے امیدواروں کے درمیان زبردست ٹکر رہی اور کانگریس امیدوار کو صرف 714 ووٹوں سے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ بندرانواگڑھ اسمبلی حلقہ میں بھی مقابلہ کانٹے کا تھا۔ اس کی امید زیادہ لوگوں کو نہیں رہی ہوگی کہ جیت ہار کا فیصلہ اتنے کم ووٹوں سے ہوگا لیکن وہاں کانگریس کے امیدوار نے بی جے پی امیدوار کو صرف 816 ووٹوں سے شکست دی۔ بھلائی نگر حلقہ اسمبلی میں کانگریس اور بی جے پی کے امیدواروں کے مابین مقابلہ نزدیک کا تھا اور کانگریس امیدوار بی جے پی امیدوار کو 1,264 ووٹوں سے شکست دینے میں کامیاب رہا۔ کونٹا ایک اور ایسا اسمبلی حلقہ تھا جہاں مقابلہ کانٹے کا ہوا۔ وہاں جیت ہار کا فیصلہ کتنے کم ووٹوں سے ہوا، اس کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ کانگریس کے امیدواربی جے پی کے امیدوار کو صرف 1,981ووٹوں سے ہرانے میں کامیاب ہوئے۔چھتیس گڑھ کی اسمبلی میں 90نشستیں ہیں۔ ان میں 7 امیدوار 2,000 ووٹوں سے کم سے ہارے۔ بقیہ امیدوار 2,000 سے زیادہ ووٹوں سے ہارے ۔ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس بار وہاں لوگوں نے ذہن بناکر رکھا تھا کہ جتانا کسے ہے یا ان کی ذہن سازی میں بی جے پی کامیاب رہی۔n
چھتیس گڑھ کئی سیٹوں پر مقابلہ کانٹے کا ہوا
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS