پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس جاری ہے۔حسب توقع حکمراں جماعت اپنی کامیابی کے ڈھنڈورے پیٹ رہی ہے اور حزب اختلاف سے سوال کررہی ہے کہ اگر ملک میں مہنگائی، بے روزگاری اور غربت ہے تو پھر بھارتیہ جنتاپارٹی کو لوگ ووٹ کیوں دے رہے ہیں؟ حالیہ ریاستی اسمبلی انتخابا ت میں بھارتیہ جنتاپارٹی کی کامیابی کی مثال دیتے ہوئے حکمراں طبقہ حزب اختلاف کو دیوار سے لگانے میں کامیاب بھی ہوگیا ہے۔ دو دنوں قبل راجیہ سبھا میں ملک کی اقتصادی صورتحال پر بحث کے دوران بھی یہ منظر نامہ دیکھاگیا۔جب حزب اختلاف کی تنقید کا جوا ب دیتے ہوئے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سدھانشو ترویدی نے ہندوستان کے بڑھتے ہوئے معاشی نظام کو اپوزیشن کیلئے آئینہ قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان دنیا کی پانچویں تیزی سے ترقی کرنے والی معیشت ہے۔ دنیا میں اس کا ڈنکا بج رہا ہے۔ اسے رام مندر سے جوڑتے ہوئے ترویدی نے کہا کہ ملک کی آزادی کے ساتھ ہی ملک کی معیشت بھی لاک ڈاؤن کی زد میں تھی۔ جیسے ہی رام مندر تحریک شروع ہوئی، معیشت میں تبدیلی آنے لگی۔ ترویدی نے ہندوستان کے معاشی حالات پر عالمی بینک، مورگن اسٹینلے، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) اور نوبل انعام یافتہ افراد کے تبصروں کا حوالہ دیا اور کہا کہ مہنگائی کنٹرول میں ہے اور نریندر مودی حکومت میں غربت میں کمی آئی ہے۔سدھانشو ترویدی نے رواں مالی سال کی دوسری سہ ماہی کی جی ڈی پی کی شرح نمو 7.6 فیصد کو زیادہ متاثر کن اعداد و شمار کے طور پربھی پیش کیا۔بی جے پی کے ایم پی مہیش جیٹھ ملانی نے بھی سدھانشو ترویدی کی ہی باتوں کا اعادہ کیا اور کہا کہ اگر معیشت کو بے روزگاری اور مہنگائی کے دو پیمانوں پر پرکھا جائے تو اس کی حالت اچھی ہے اور اسمبلی انتخابات کے نتائج اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔
لیکن اعداد و شمار اور دعوئوں کے درمیان حزب اختلاف کی جانب سے اٹھائے گئے سنگین مسائل پر کوئی واضح جواب نہیں ملا۔نہ یہ بتایا کہ گزشتہ 9 برسوں میں چاول کی قیمتوں میں 56 فیصد، گندم کی قیمت میں 59 فیصد، دودھ کی قیمت میں 61 فیصد، دالوں کی قیمتوں میں 120 فیصد اضافہ کیوں ہوا ہے۔ روزگار کی حالت ناگفتہ بہ کیوں ہے، اجرت کی شرح انتہائی کم کیوں ہے، ملک کی کل آبادی کا ایک چوتھائی سے بھی زیادہ حصہ بغیر کسی روزگار کے کیوں ہے؟مزدور 12 سے 16گھنٹے روزانہ مشقت کرنے کے باوجود پیٹ بھر کے روٹی کیوں نہیں کھاپارہاہے ؟زندگی کی بنیادی ضروریات سے بھی محرومی کیوں مقدر بنی ہوئی ہے؟مہنگائی نے زندگی گزارنے کے اخراجات میں اضافہ کیوں کررکھا ہے ؟گھریلو بچت 50برسوں سے سب سے کم کیوں ہوگئی ہے ؟ قوت خرید میں کمی کیوں آئی ہے ؟جبری قرضوں میں اضافہ کیوں ہورہاہے؟آج بھی دنیا میں غریبوں کی سب سے زیادہ تعداد ہندوستان میںکیوں ہے ؟اگر بے روزگاری،مہنگائی میں کمی آئی ہے تو پھر 80کروڑ ہندوستانیوں کو 5کلو اناج مفت میں کیوں دیاجارہاہے؟
یہ وہ حقیقی اور زمینی سوالات ہیں جن کا جواب دیا جانا حکومت پر فرض ہے۔مگر کامیابی کے نشہ میں چور حکمراں لوگوں کو اعداد و شمار کے گورکھ دھندوں میں پھنساکر زمینی حقیقت کو آنکھوں سے اوجھل رکھناچاہتے ہیں۔ بی جے پی کا یہ دعویٰ کہ ہندوستان دنیا کی 10ویں معیشت سے ترقی کرکے اس کے دوراقتدار میں آج پانچویں بڑی معیشت بن گیا ہے، حقیقتاً ایک ایسا ڈھول ہے جسے صرف بجایاجاسکتا ہے ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ہندوستان کی معیشت اپنے حجم کے اعتبار سے بڑھتی آبادی اور دیوہیکل مہنگائی کے آگے بونی نظرآتی ہے۔ فی کس آمدنی میں اضافہ ضرور ہوا ہے مگر مہنگائی نے اس آمدنی کو صفر بنا دیا ہے۔ لوگوں کی ضرورتیں پوری نہیں ہورہی ہیں۔
کسی ملک اور اس کے باشندوں کی ترقی کا پیمانہ شرح نمو نہیں ہوتا ہے بلکہ ترقی مجموعی گھریلو پیداوار کی تقسیم سے حاصل ہونے والا مقسوم ہے،جس سے ہندوستان کے عام لوگ محروم ہیں۔مالی عدم مساوات کے معاملے میں ہندوستان اپنے پڑوسی ممالک بنگلہ دیش اور نیپال سے بھی بدتر حالت میں ہے۔ بالائی طبقہ کی آمدنی میں بے تحاشااضافہ ہورہاہے اور مزدوروں ومحنت کشوں کی زندگی نار جہنم میں گزررہی ہے۔دنیا کی پانچویں، چوتھی، تیسری، دوسری اور پہلی بڑی معیشت بن جانے کے باوجود اگر اس کے ثمرات مزدوروں، محنت کشوں اور عام آدمی تک نہیں پہنچ رہے ہیںتو ایسی ترقی پر چار حرف بھیجنا ہی بہتر ہے۔
[email protected]
ایسی ترقی پر چار حرف
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS