صبیح احمد
حالیہ اسمبلی انتخابات نے کئی پیغامات دیے ہیں۔ ان انتخابات نے جہاں کانگریس پارٹی کو اپنی انتخابی حکمت عملی میں تبدیلی لانے کا اشارہ دیا ہے، وہیں یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ وزیراعظم مودی کسی بھی طرح کے حالات میں ہوا کو اپنے مطابق بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انہیں حالات کو اپنے موافق کرنے کا فن آتا ہے۔ در اصل ہماچل پردیش اور کرناٹک جیسی ریاستوں میں اپنی متواتر فتوحات کے سبب حد سے زیادہ پراعتماد کانگریس نے مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ، راجستھان، تلنگانہ اور میزروم میں بھی اپنی پرانی حکمت عملی پر ہی بھروسہ کرنے کو ترجیح دی لیکن مودی منتر نے کانگریس کی تمام تدبیریں الٹی کر دیں۔ خصوصاًچھتیس گڑھ میں کانگریس کی خود اعتمادی کا یہ عالم تھا کہ وہ خود کے ناقابل شکست ہونے کا تاثر دینے لگی تھی اور انتخابی گارنٹیوں کو ہی اپنی جیت کی گارنٹی سمجھنے لگی تھی۔ شاید وہ بھول گئی تھی کہ اس کے مد مقابل کوئی اور نہیں، بلکہ وزیراعظم نریندر مودی ہیں جو ہاری ہوئی بازی جیتنے کے بے تاج بادشاہ ہیں۔ جہاں تک تلنگانہ کی بات ہے، وہاں پڑوسی ریاست کرناٹک کی اقتدار مخالف لہر پہلے ہی پہنچ گئی تھی۔ وہاں کے عوام مسلسل دو بار کے بعد کے سی آر کو تیسری بار موقع دینے کے موڈ میں نہیں تھے۔ سدارمیا حکومت بنتے ہی تمام گارنٹیوں پر عمل درآمد نے تلنگانہ کے لوگوں کے درمیان کانگریس کے حق میں ماحول تیار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ کے سی آر کے مقابلے وہاں کے ووٹروں کے سامنے کانگریس سے بہتر کوئی اور متبادل نہیں تھا، کیونکہ جنوبی ہندوستان نے ابھی تک خود سے بھگوا سیاست کو دور رکھا ہے۔ فی الحال اس بات کا امکان نہیں لگتا کہ مستقبل قریب میں نظریاتی طور پر جنوبی ہندوستان کے لوگوں کو بھگوا سیاست متاثر کر پائے گی۔
درحقیقت ہندی بیلٹ کی 3 اہم ریاستوں میں کانگریس کی شکست اور بی جے پی کی شاندار کامیابی کے پیچھے کارفرما کئی عوامل میں سے ایک نام نہاد اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ میں شامل علاقائی پارٹیوں کی احمقانہ اولوالعزمی بھی ہے۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش، راجستھان اور چھتیس گڑھ میں سماجوادی پارٹی، بہو جن سماج پارٹی اور عام آدمی پارٹی کی بے جا اچھل کود نے کانگریس کو کافی نقصان پہنچایا۔ ان پارٹیوں نے بی جے پی کی جیت میں کافی اہم کردار ادا کیا۔ حالانکہ کانگریس کی سیٹوں میں نمایاں کمی آئی اور بی جے پی کی سیٹوں میں اچھا خاصا اضافہ ہوا لیکن جہاں تک ووٹ شیئر کا سوال ہے، کانگریس کو کوئی خاص نقصان نہیں اٹھانا پڑا ہے۔ اس کے ووٹروں میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ روایتی ووٹر اب بھی اس کے ساتھ ہیں۔ سیٹوں میں نمایاں اضافہ کے باوجود بی جے پی کو کانگریس کے روایتی ووٹروں کو اپنی جانب مائل کرنے میں کامیابی نہیں مل پائی ہے۔ بی جے پی کو درحقیقت علاقائی جماعتوں کے ووٹوں کا فائدہ ملا ہے۔ ان علاقائی پارٹیوں نے کانگریس کو سبق سکھانے کی کوشش کی اور کچھ حد تک کامیاب بھی ہوگئیں لیکن اس چکر میں خود ان کا ہی وجود دائو پر لگ گیا ہے۔ یعنی ’چاہ کن را چاہ در پیش‘۔
ان اسمبلی انتخابات کے نتائج نے نہ صرف بڑی سیاسی پارٹیوں پر اثر ڈالا بلکہ ان چھوٹی پارٹیوں کی حالت اور سمت بھی بدل دی جنہوں نے بڑی سیاسی اتھل پتھل کا دعویٰ کیا تھا۔ سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، عام آدمی پارٹی اور کئی دوسری پارٹیاں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں بڑی سیاسی الٹ پھیر کا دعویٰ کر رہی تھیں۔ سیاسی حلقوں میں یہ قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ اگر یہ سیاسی جماعتیں کسی بھی طرح اہم سیٹیں جیتنے یا ہارنے جیسے بڑے اپ سیٹ کرنے میں کامیاب ہوجائیں گی تو آئندہ لوک سبھا انتخابات میں اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد میں ان کی اہمیت کافی بڑھ جائے گی۔ لیکن انتخابی نتائج کے بعد جو تصویر ابھر کرسامنے آئی ہے، اس نے سب کچھ واضح کر دیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے اعداد و شمار کے مطابق مدھیہ پردیش میں سماج وادی پارٹی کو 0.46 فیصد ، راجستھان میں صرف 0.01 فیصد، وہیں چھتیس گڑھ میں 0.04 فیصد ووٹ ملے ہیں۔ مدھیہ پردیش میں بہوجن سماج پارٹی کو 3.40 فیصد اور راجستھان میں صرف 1.82 فیصد ووٹ ملے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں عام آدمی پارٹی کو 0.54 فیصد، راجستھان میں 0.38 فیصد اور چھتیس گڑھ میں 0.93 فیصد ووٹ ملے۔ اے آئی ایم آئی ایم کو مدھیہ پردیش میں صرف 0.09 فیصد ووٹ ملے جبکہ راجستھان میں اویسی کی پارٹی کا یہ فیصد صرف 0.01 فیصد تھا۔
جس طرح سے اویسی کی پارٹی کے ساتھ ساتھ سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور عام آدمی پارٹی نے بڑا ماحول بنا کر انتخابی میدان میں اترنے کی تیاری کی تھی، وہ انتخابی نتائج آنے کے بعد پوری طرح تباہ ہوگیا۔ مدھیہ پردیش میں اب تک لڑے گئے انتخابات میں سماجوادی پارٹی کی کارکردگی سب سے خراب رہی ہے۔ وہ بھی اس وقت جب پارٹی کے تمام بڑے لیڈروں نے مدھیہ پردیش میں لگاتار ڈیرے ڈالے اور اس بار انہوں نے گزشتہ انتخابات کے مقابلے سب سے زیادہ جارحانہ حکمت عملی اپنائی۔ اس تباہی کے پیچھے سب سے بڑی وجہ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان سیٹوں کی تقسیم کو لے کر لفظوں کی جنگ اور سیاسی کشیدگی تھی۔ جس وجہ سے سماجوادی پارٹی نے مدھیہ پردیش میں اپنی جارحانہ پالیسی اختیار کی، انتخابی نتائج اور ووٹ فیصد اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ حکمت عملی اس کی مکمل ناکامی تھی۔ اسی طرح بہوجن سماج پارٹی نے بھی ان 4 بڑی ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں اپنی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ 2018 کے راجستھان اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی کے پاس 4 فیصد ووٹوں کے ساتھ اسمبلی کی 6 سیٹیں تھیں جبکہ اس الیکشن میں اس کے حصے میں صرف 2 سیٹیں آئی ہیں اور ووٹ فیصد گر کر 1.82 رہ گیا ہے۔ اسی طرح مدھیہ پردیش میں بھی 2018 کے اسمبلی انتخابات میں بی ایس پی 5 فیصد سے زیادہ ووٹ لے کر 2 سیٹیں جیتنے میں کامیاب ہوئی تھیں۔ اس بار بی ایس پی کا ووٹ بینک 3.40 فیصد تک گر گیا اور اسے ایک بھی سیٹ نہیں ملی۔ چھتیس گڑھ میں بھی بی ایس پی کو گزشتہ انتخابات میں 2 سیٹیں ملی تھیں اور اس کا ووٹ فیصد بھی 3.9 فیصد تھا، لیکن اس بار کوئی سیٹ نہیں ملی اور ووٹ فیصد بھی گھٹ کر 2.2 پر آگیا۔ تلنگانہ میں بھی بہوجن سماج پارٹی کو اس بار کوئی سیٹ نہیں ملی اور گزشتہ انتخابات میں بھی اسے کوئی سیٹ نہیں ملی تھی۔ دلتوں کے ووٹ بینک کو اپنی بنیاد بنانے والی مایاوتی اس بار تلنگانہ اسمبلی انتخابات میںگزشتہ انتخابات کے 3 فیصد کے بجائے 1.37 فیصد تک محدود رہیں۔
بہرحال جس طرح سے عام آدمی پارٹی، سماجوادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی اور اے آئی ایم آئی ایم نے کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے، اس سے ایک بات تو واضح ہو گئی ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے طوفان میں کوئی بھی پارٹی ٹک نہیں سکی۔ سماج وادی پارٹی کو اندازہ تھا کہ وہ اترپردیش کی سرحد سے متصل مدھیہ پردیش کے علاقے میں کئی بڑی سیٹوں پر اپنا اثر ڈالے گی، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ مدھیہ پردیش جیسی ریاست میں بہوجن سماج پارٹی نے مقامی گونڈوانا گنتنتر پارٹی کے ساتھ مل کر قبائلیوں اور دلتوں کے سیاسی جوڑ توڑ کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بھی بی جے پی کے طوفان میں اڑ گئی۔ ان ریاستوں کے حاصل ووٹ فیصد سے عام آدمی پارٹی کی صورتحال بھی واضح ہو گئی کہ وہاں ان کا اثر و رسوخ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسے حالات میں اگر یہ تمام پارٹیاں پوری طاقت اور ایمانداری کے ساتھ اپنے نو ساختہ اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ سے وابستہ رہیں تو آئندہ لوک سبھا انتخابات میں ان کے زندہ رہنے کے امکانات بن سکتے ہیں۔
[email protected]