شاہنواز احمد صدیقی
یوروپ کے کئی ممالک کی غزہ میں 15ہزار سے زائد افراد کی ہلاکت کے بعد اب آنکھیں کھلنی شروع ہورہی ہیں اور کئی ملکوں نے انسانی قوانین کی بنیادوں پر اسرائیل کے خلاف آواز بلند کرنی شروع کردی ہے۔ ان اہم ممالک میں اٹلی، اسپین، بلجیم اور حیرت انگیز طورپر فرانس شامل ہے۔ فرانس نے یوروپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف کارروائی کرنے پر غور کرے۔ خاص طور پر اگر وہ مغربی کنارے پر غیرقانونی بستیوں کی تعمیرات کے منصوبوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ اسرائیل غزہ کے علاوہ مغربی کنارے پر جو انسانیت سوز کارروائی کر رہا ہے اس کی بازگشت پوری دنیا میں سنائی دی رہی ہے اور امریکہ نے مسلسل اسرائیل کو اس علاقے میں انتہاپسند یہودیوںاور نیم فوجی رضاکاروں کی بڑھتی کارروائیوں پر تشویش کاا ظہار کیا ہے۔ اگرچہ امریکہ کے اعلیٰ افسران اوراعلیٰ ترین قیادت اس بابت اپنی توجہ دے چکی ہے مگرپوری دنیا میں مسئلہ فلسطین پر رائے عامہ بیدار ہوئی ہے اورخاص طورپر نئی نسل نے اسرائیلیوں کی بربریت پر آواز احتجاج بلند کی ہے۔ وہ غیرمعمولی ہے اور مغربی ملکوں کے ارباب اقتدار کو بھی محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیلی پرنس کی وجہ سے عالمی سطح پر ان کی معتبریت کم ہوئی ہے۔ اگرچہ میڈیا نے اس ضمن میں بہت منفی اورجانبدارانہ رول ادا کیا ہے، مگر سوشل میڈیا اور میڈیا کے دوسرے ذرائع ابلاغ میں انفرادی طورپر کئی آوازیں اس قدربلند ہوئی ہیں کہ انہوںنے عالمی سطح پر رائے عامہ کو متاثر کیا ہے۔
اب تک جو حلقے اس مسئلہ کو انتہائی پیچیدہ بناکر بات کرنے سے اجتناب کرتے تھے، ان کے دل ودماغ کی کھڑکیاں اور دروازہ کھل رہے ہیں۔ دراصل اسرائیل ہر سطح پر اپنی استبدادی کارروائیوں کے خلاف اٹھنے والی آواز کو کچلنے کی کوشش کر تا ہے، اس کا بھی منفی اثر ہوا ہے۔ اٹلی اور اسپین کی قیادت نے اسرائیل کے خلاف کھلے عام آواز اٹھائی ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کی سیکورٹی کونسل کے ویڈیوز نے اس ماحول کی ابتدا کی تھی۔ انہوںنے برملا کہا تھا کہ حماس کے ذریعہ بے گناہوں، معصوم بچوںاور عورتوں کو یرغمال بنانا قابل مذمت ہے، مگر 7؍اکتوبر کی دہشت گردانہ کارروائی کسی Vaccum میں نہیں ہوئی ہے اس کے پس پشت ایک طویل تاریخ ہے جو ستر سال کی طویل مدت پر محیط ہے۔ خیال رہے کہ مغربی کنارہ پر اسرائیل بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے۔ غزہ پر حملہ سے قبل اس کی تمام توجہ کا مرکز یہی مغربی کنارہ یا غرب اردن تھا، مگر بعدمیں اس کی توجہ کا مرکز بدل گیاہے۔ اس کے باوجود اسرائیل مغربی کنارے پر وہ تمام حرکتیں کر رہا ہے جو اک فوجی سامراج طاقت اپنی غلام رعایا پر کرتی ہے۔
بہرکیف مغربی کنارے کوعالمی برادری اور اقوام متحدہ کے قوانین اور سیکورٹی کونسل فلسطین کا حصہ سمجھتے ہیں اور ان علاقوں پر یہودی بستیوں کو بنانا صریحاً و قانوناً غلط ہے۔ غزہ کے مقابلے مغربی کنارہ بڑا قطع اراضی ہے اوراس وجہ سے صہیونی طاقت اس حصہ کو غصب کرنے پر اور فلسطینیوں کی زندگی مشکل سے مشکل تر بنانے پر بضد ہے۔ اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ یہودیوں کو وہاں آباد کرنا اور فلسطینیوںکو برباد کرنا ہے۔ 7؍اکتوبر سے قبل سے اسرائیل فلسطینی رفیوجی کیمپوں پر فوجی کارروائیاں کر رہاہے۔ جنین پر اس کی وحشیانہ کارروائی پرعالمی سطح پر ناراضگی ظاہر کی گئی ہے۔ فوجی کارروائی کے علاوہ فوج کے تربیت یافتہ یہودی نوآبادکار بھی ان فلسطینیوں پر حملہ کرتے ہیں۔ حالیہ تنازع میں مغربی کنارے پر ان علاقوںمیں 200 فلسطینیوں کو ان ہی یہودی نوآبادکاروں نے ہلاک کیا ہے۔ یہ ہلکاتیں فوجی کارروائی سے الگ ہیں جو بڑے پیمانے پر منصوبہ بندی کے ساتھ اچانک رات کی تاریکی میں کی جاتی ہیں۔
یہودی بڑی منصوبہ بندی اور طویل المدتی پلاننگ کے ساتھ فلسطینیوں کی نسل کشی کر رہے ہیںاور وہ ارض فلسطین میں جو فلسطینی بچ گئے ہیںان سے کسی بھی طور چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ چاہے مار کر یا بھگاکر، اب ان کے سامنے 7؍اکتوبر کو ایک اورجوابی حملہ آگیا ہے۔ اسی طرح وہ ’حماس‘ کے بہانے فلسطینیوں کے خلاف ظلم وتشدد کا نیا سلسلہ شروع کرنا چاہتا ہے۔ اس سے وہ مستقبل میں فلسطینی ریاست کے امکانات کو بالکل ختم کردینا چاہتاہے۔ خیال رہے کہ یہودیوں کی غالب اکثریت 1992-93 میں ہونے والے اوسلو سمجھوتے کے خلاف تھی۔ یہ صیہونی نہیں چاہتے تھے کہ کوئی فلسطینی ریاست قائم ہو۔تقریباً ایک سال قبل اقتدار میں آنے والی اسرائیل کی اب تک کی سب سے انتہاپسند حکومت کے سربراہ اور دیگر کئی وزیروں کی حرکات وسکنات، بیانات اور رویوںنے ثابت کردیا کہ وہ پورے علاقے سے فلسطینیوں کو بھکانا یا مار کر درگور کرنا چاہتا ہے۔
یوروپی یونین کے کچھ اعلیٰ عہدیداروںنے اگرچہ مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر تشدد کی بابت کچھ زیادہ کھلے عام نہیں کہا ہے، مگر کئی بندکمروں کے مذاکروں اور تبادلہ خیال میں بڑے پیمانے پر تبدیلی دکھائی دے رہی ہے۔ اسرائیل کے خلاف ناراضگی فرانس میں محدودپیمانہ پر ہے مگر فرانس نے پچھلے دنوں غزہ میں تعمیر نو کی شروعات پر ایک بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد کرکے اس کے نقطہ نظر کو واضح کردیا ہے کہ وہ غزہ پر اسرائیل کے حملے اوراس پر اپنا قبضہ برقراررکھنے والے موقف پر الگ رائے رکھتا ہے۔ اس کانفرنس کے انعقاد پر بھی ان معنی کو اہمیت حاصل ہے کہ وہ اس قطعہ اراضی پر اسرائیل کی فوج نہیں چاہتا ہے۔ امریکہ بھی اس سے قبل یہی رائے رکھتا ہے کہ غزہ میں اسرائیل کی فوج کا قبضہ مستقل نہیں ہونا چاہئے اور اس کو صرف اپنے مقاصد کو پورا کرکے انخلا پر توجہ دینی چاہئے۔ امریکہ اپنے طورپر فلسطینی اتھارٹی کے ’صدر‘ محمود عباس سے ملاقاتیں کر رہا تھا اورا ن کے انتظامیہ سے غزہ میں توسیع کا منصوبہ امریکہ کے زیرغورہے جبکہ اسرائیل کا ارادہ اس کے برخلاف ہے۔ وہ فلسطینی اتھارٹی کو بالکل بھی اہمیت دینے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کے پس پشت بھی وہ سازش کارفرما ہے کہ مستقبل قریب یا بعید میں آزاد فلسطینی مملکت کا قیام ممکن نہ ہو۔ ٭