تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے مضبوط قوت ارادی کے ساتھ حکمت عملی بھی ضروری ہے جو ہمیں اپنی منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ قوتِ ارادی ہمیں اپنے مقصد کو پانے کے دوران سامنے آنے والے مسائل سے بچاتی ہے اور اپنے مقصد پر قائم رہنے کی طاقت دیتی ہے۔کیا آپ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں آپ کے لیے آسان اور معمول کی چیزیں کرنا مشکل ہو رہا ہو اور آپ کی فیصلہ کرنے کی صلاحیت متاثر ہو رہی ہو۔
کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا لکھنو کی رہنے والی ایلویا (فرضی نام) کو جنھوں نے بہت چھوٹی عمر سے ہی ٹینس کھیلنا شروع کر دیا تھا۔ مسلسل اچھا کھیلتے ہوئے انھوں نے ریاستی سطح پر کئی مقابلے جیتے جبکہ قومی سطح پر ان کا رینک بھی اچھا آیا۔پھر اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ ایسا لگا کہ وہ ٹورنامنٹ جیتنے کی طاقت کھو بیٹھیں اور سیمی فائنل یا فائنل میں پہنچ کر ہارنے لگیں۔شروع میں ان کے والدین اور کوچ کا خیال تھا کہ یہ کسی تکنیکی خرابی کی وجہ سے ہو رہا ہے لیکن جب تمام پہلوؤں پر غور کیا گیا اور سینئر کوچز سے بھی مشورہ کیا گیا تو انھوں نے ایلویا کو کسی اچھے ماہر نفسیات سے رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ایلویا کے والدین نے انھیں پہلے لکھنؤ میں دکھایا اور پھرمزید بہتری کے لیے دلی لے گئے۔شروع میں ایلویا کی مہینے میں دو بار کاؤنسلنگ کی جاتی تھی اور پھر کچھ ہی عرصے میں ایلویا نے ایک بار پھر ٹورنامنٹ جیتنا شروع کیا۔ اب ان کی قومی رینکنگ ٹاپ 40 میں ہے۔
ہارنے کی صورتحال سے چھٹکارا:ایلویا کی کونسلنگ کرنے والے ماہر نفسیات اروند موریہ نے بتایا کہ ’ہم لوگوں کو اس طرح ترغیب دیتے ہیں تاکہ وہ اپنے نقطہ نظر میں معمولی تبدیلی لا سکیں۔ ‘’ایک سائیکو تھراپسٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے، ہم ان کی سوچ پر مزید کام کرتے ہیں۔‘دلی کے ماہر نفسیات اروندموریہ کہتے ہیں کہ ’نوجوان ایلویا سے بات کرنے میں ہمیں اس بات کا بھی خیال رکھنا تھا کہ ایک کھلاڑی کے طور پر کاؤنسلنگ کے باعث ان کی ذہنی حالت میں تبدیلی نہ آئے اور یوں ہارنے کی صورتحال پھر پیدا نہیں ہوئی۔‘
’دوبارہ ناکام ہوں تو بھی پہلے سے بہتر‘:ٹینس پلیئر واورینکا کے ہاتھ پر ٹیٹومیں لکھا ہے کہ کوشش کی، ناکام ہوئے، کوئی بات نہیں دوبارہ کوشش کریں۔ دوبارہ ناکام بھی ہوں مگر پہلے سے بہتر‘۔تین بار گرینڈ سلیم کا ٹائٹل جیتنے والےپلیئر واورینکا کے ہاتھوں پر یہ ٹیٹو لکھا ہے۔اس کا مطلب ہے کہ اگر آپ نے اپنے مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے تو اس راستے کی ناکامی سے نہ گھبرائیں اور کوشش جاری رکھیں۔ ہر بار ناکامی بھی ہو تو پہلے سے بہتری آتی جائے گی اور بلآخر کامیابی مل جائے گی۔اپنے اس یقین کی بدولت 38 سالہ واورینکا کئی ناکامیوں کے بعد بالآخر ایک بار نہیں بلکہ تین بار ٹینس کا سب سے باوقار گرینڈ سلیم ٹورنامنٹ جیتنے میں کامیاب ہو گئے۔واورینکا کی اس کامیابی کے پیچھے جو چیز کارفرما رہی وہ ہے ان کی ’مضبوط قوت ارادی۔‘اور اپنے ارادوں میں مضبوطی ہی وہ سب سے ’مضبوط ہتھیار‘ ہے جس کی وجہ سے کھیل کی دنیا سمیت دیگر تمام شعبوں میں ایسی بے شمار مثالیں ملتی ہیں جہاں لوگ ناکامی کے بعد دوبارہ بلندیوں پر پہنچتے دیکھے گئے ہیں۔
شطرنج کی کھلاڑی کونیرو ہمپی کہتی ہیں کہ وہ برسوں جیتتی رہیں کیونکہ ان کے پاس قوت ارادی اور اعتماد ہے۔اسی طرح شطرنج کی گرینڈ ماسٹر کونیرو ہمپی نے بھی بی بی سی انڈین اسپورٹس وومن آف دی ایئر کا ایوارڈ جیتنے کے بعد کہا، ’میں برسوں جیتتی رہی کیونکہ میرے پاس قوت ارادی اور اعتماد ہے۔‘بی بی سی انڈین اسپورٹس وومنز لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ حاصل کرنے کے بعد ایتھلیٹ انجو بوبی جارج نے کہا تھا کہ انھوں نے نامساعد حالات کا سامنا کیا اور اس سے باہر آنے کی وجہ مسلسل محنت اور لگن تھی۔انجو بوبی جارج نےتب کہا تھا، ’درست حوصلہ افزائی اور مضبوط قوت ارادی سے سب کچھ ممکن ہے۔‘
خود پر قابو پانے کا امتحان:بعض اوقات ہمیں ایسے حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو ہمیں اپنے ضبط کا امتحان لیتے محسوس ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر فرض کریں کہ آپ ڈائیٹنگ پر ہیں تاکہ آپ اپنا وزن کنٹرول کر سکیں۔ ایسی حالت میں کھانے کے لیے اپنی پسندیدہ چیز (جو میٹھی بھی ہو) سامنے رکھیں۔ وہ بات آپ کے کان میں سرگوشی کرے گی کہ چلو ایک بار کھانا کھاتے ہیں۔ لیکن اسے دیکھ کر بھی آپ خود پر قابو رکھیں گے اور نہیں کھائیں گے۔یہ تبھی ہو گا جب آپ کے اندر کی قوت ارادی آپ کو ایسا کرنے کی طاقت دے گی۔ قوتِ ارادی ہمیں ایسے فتنوں سے بچاتی ہے اور اپنے مقصد پر قائم رہنے کی طاقت دیتی ہے۔ایسے ہر موقع پر، آپ کی قوتِ ارادی آپ کو اپنے اندر بڑھنے والے ناپسندیدہ خیالات، جذبات اور تحریکوں پر قابو پانے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے، جس سے آپ کو اپنے آپ پر قابو پانے، کسی بھی کام میں تاخیر کرنے اور اپنے مقصد پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد ملتی ہے۔ماہر نفسیات اروند موریا کا کہنا ہے کہ ہر مریض کی ذہنی کیفیت مختلف ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں، ’ایسی صورتحال میں جب ہم کسی سے بات کرتے ہیں تو ہم مستقل مزاجی کو برقرار رکھنے پر توجہ دیتے ہیں۔ ہم ارتکاز پر بھی زور دیتے ہیں اور اس کا مثبت اثر دیکھنے کو ملتا ہے۔‘
زیادہ قوت ارادی کا ہونا:قوت ارادی کچھ لوگوں میں دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کچھ لوگ دن بھر محنت کرنے کے بعد بھی جم میں ورزش کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنا فٹنس مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، جبکہ آپ کی توجہ فٹنس پر نہیں بلکہ جنک فوڈ کے ساتھ ٹی وی کے سامنے وقت گزارنے پر ہوتی ہے۔بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ اگر ان کے پاس ایک پراسرار طاقت ہے جسے ول پاور کہتے ہیں تو وہ اپنی زندگی کو بہتر بنا سکتے ہیں۔اپنے آپ پر زیادہ کنٹرول رکھنے سے ہمیں ہر چھوٹے اور بڑے مقصد کو حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے، جیسا کہ متوازن اور صحت بخش کھانا، روزانہ ورزش کرنا، منشیات اور الکحل سے پرہیز کرنا، اپنی ریٹائرمنٹ کے لیے بچت کرنا، اورکاموں کو ٹالتے رہنے سے بچنا۔
دباؤ میں آ کر خود اعتماد افراد کا کمزور پڑنا:کچھ عرصہ پہلے تک، نفسیات کے علم میں سمجھا جاتا تھا کہ قوت ارادی ایک بیٹری کی طرح ہے۔ یہ پوری طاقت کے ساتھ شروع ہوتی ہے، لیکن آپ صرف اپنے خیالات، جذبات اور رویے کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر کے اس بیٹری کی توانائی کو ختم کر دیتے ہیں۔اس نظریہ کے مطابق بیٹری کی طرح اگر آپ کو دوبارہ چارج کرنے کے لیے آرام نہیں ملتا ہے، تو آپ کی قوتِ ارادی خطرناک حد تک کمزور ہو جاتی ہے اور صبر کو برقرار رکھنا اور آسان آزمائشوں سے بچنا مشکل ہو جاتا ہے۔فرائیڈین نفسیاتی تجزیہ میں اسے ’انا کی کمی‘ کے تناظر میں جانا جاتا ہے۔
جن لوگوں میں خود اعتمادی زیادہ ہوتا ہے ان میں ابتدائی مرحلے میں قوت ارادی زیادہ ہوتی ہے لیکن جب وہ دباؤ میں آجاتے ہیں تو کمزور پڑ جاتے ہیں۔
قوت ارادی کا سوچ سے تعلق:قوتِ ارادی اور اسے برقرار رکھنے کے لیے ارتکاز ایک شخص کی ذہن کیفیت پر منحصر ہے۔تاہم، 2010 میں، ماہر نفسیات ویرونیکا جاب نے اپنی تحقیق کے نتائج میں کچھ دلچسپ شواہد فراہم کیے جو اس نظریہ پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں کہ کم قوت ارادی لوگوں کے بنیادی عقائد پر منحصر ہے۔نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ کامیابی حاصل کرنے کے لیے مضبوط قوت ارادی کے ساتھ حکمت عملی بھی ضروری ہے جو ہمیں اپنی منزل کی طرف لے جاتی ہے۔ویرونیکا جاب نے پایا کہ محدود ذہنیت والے لوگ بالکل ’کمی انا‘ تھیوری والے لوگوں کی طرح برتاؤ کرتے ہیں۔ انھیں ایک کام کے بعد بہت زیادہ ارتکاز کی ضرورت تھی۔جیسے کچھ بورنگ مواد میں ترمیم کرنا۔ لیکن اس اصول کے آثار ان لوگوں میں نظر نہیں آئے جو لامحدود نقطہ نظر رکھتے تھے۔ ذہنی ارتکاز کی کوئی کمی نہیں تھی۔
کیا انڈین طلبہ قوت ارادی میں امریکی طلبہ سے آگے ہیں؟
رونیکا جاب نے اس نتیجے کا دوسرے سیاق و سباق میں بھی جائزہ لیا۔ مثال کے طور پر، نارائنا ٹیکنولوجیکل یونیورسٹی، سنگاپور میں کرشنا ساہنی کے ساتھ کام کرتے ہوئے انھوں نے پایا کہ قوت ارادی کا تصور ہر ملک میں مختلف ہوتا ہے۔ان کے مطابق انڈین طلباء امریکی طلباء سے زیادہ لامحدود ذہنیت رکھتے ہیں اور لوگوں کی قوت ارادی ذہنیت حقیقی زندگی کے نتائج سے منسلک ہے۔اپنی تحقیق میں، انھوں نے یونیورسٹی کے طلباء سے کہا کہ وہ دو غیر متواتر ہفتہ وار کلاسوں کے دوران سرگرمیاں مکمل کریں۔اس میں لامحدود قوت ارادی اور کم قوت ارادی کے حامل طلبہ کا مطالعہ کیا گیا۔سرگرمی کے اگلے دن زیادہ کام ہونے کے باوجود، لامحدود قوت ارادی کے حامل طلباء کی کام کرنے کی صلاحیت میں اضافہ دیکھا گیا۔ان کی تحقیق یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ موجودہ کتابوں کے ذریعے جدید سائنس کے بارے میں سیکھنے سے عارضی طور پر لوگوں کے عقائدبھی بدل سکتے ہیں۔
حال ہی میں پنسلوانیا کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے پری اسکول کے بچوں کو یہ سکھانے کے لیے ایک سٹوری بک تیار کی ہے کہ قوت ارادی کی ورزش تھکاوٹ کے بجائے توانائی بخش ہوسکتی ہے اور یہ کہ ہم جتنا زیادہ اس پر عمل کریں گے اتنا ہی ہماری خود اعتمادی بڑھے گی۔آپ اپنے خود اعتمادی سے متعلق چھوٹے ٹیسٹوں کے ساتھ بھی شروعات کر سکتے ہیں۔ یہ آپ کی زندگی میں آپ کی خواہش کے مطابق تبدیلیاں لائے گا۔ جیسے کہ سوشل میڈیا سے چند ہفتوں تک دور رہنا یا خاندان کے کسی چڑچڑے فرد کے ساتھ زیادہ سے زیادہ صبر کا مظاہرہ کرنا۔اگر آپ اس عزم کو برقرار رکھتے ہیں تو یقین کریں آپ کی موجودہ قوت ارادی مزید بڑھ سکتی ہے۔ماہر نفسیات اروند کا کہنا ہے کہ ’اس طرح کا رشتہ بہت سے مریضوں کے ساتھ ہوتا ہے اور وہ طویل عرصے تک ہم سے رابطے میں رہتے ہیں۔ ان کی مضبوط قوت ارادی کی وجہ سے، آج ان میں سے ذیادہ تر اپنے اپنے شعبوں میں ترقی کر رہے ہیں۔‘ll