ہندوستان میں آزادیٔ صحافت آج جس بھنور میں ڈبکیاں کھارہی ہے، اس کا سبب ڈھونڈنے کیلئے بہت دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔حکمرانوں کے تیور، ان کے طور طریقے اور اندازحکمرانی کا ہلکا ساجائزہ سارے اسباب سامنے لادیتا ہے۔ حکمرانوں پرتنقید کو ملک کی تنقید سمجھا جارہا ہے اور حکومت کے نامہ اعمال کی سیاہی سامنے لانے والے پابند زنداں کیے جارہے ہیں۔ آج ہر وہ زبان خاموش کردی جارہی ہے جو غلط پالیسیوں پر تنقیدکیلئے کھلے،قلم تھامنے والے ہر اس ہاتھ کو ہتھکڑی کا زیور پہنادیاجارہا ہے جوحکمرانوں کا نامہ اعمال لکھتے ہیں۔یہ سارے ننگ جمہوریت کام ملک کی سلامتی کے نام پر ہورہے ہیں۔ ایسے ہی ’ کام ‘ کا بخیہ ادھیڑتے ہوئے گزشتہ دنوں جموں و کشمیر کے ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ حکومت پر تنقید کرنے والے صحافیوں کو جیل میں نہیں ڈالاجاسکتاہے، نہ نظر بند کیا جاسکتا ہے۔اس کے ساتھ ہی عدالت نے ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے الزام میں گرفتار کیے گئے دوکشمیری صحافیوں کی ضمانت منظورکرلی۔ اس کے ساتھ ہی عدالت نے کہاکہ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والوں یا انتظامیہ کے کام پر تنقید کرنے والوں یا کام میں غلطیوںکی نشاندہی کرنے والوں کو گرفتار کرنا جرائم کی روک تھام کیلئے بنائے گئے قوانین کا غلط استعمال ہے۔
یوں تو پورے ملک میں بھنور میں پھنسی ہوئی صحافت اپنے کھیون ہار کا انتظار کررہی ہے لیکن جموں و کشمیر میں صورتحال انتہائی دگرگوں ہے۔ آج سے چار سال پہلے 5 اگست 2019 کو جموں وکشمیر سے دفعہ370کا خاتمہ اور اس مکمل ریاست کو سہ لخت کیے جانے کے بعد سے ہی جموں و کشمیرمیں ’ پریس اور صحافت‘ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہے۔ بہت سے کشمیری صحافی ریاست یا پھرملک ہی چھوڑچکے ہیں، کئی میڈیا ادارے بند ہوچکے ہیں۔ کشمیر میں آزادیٔ اظہار کے ہم نوائوں اور صحافیوں پر پولیس بربریت کی مسلسل شکایتیں آرہی ہیں۔عدالت سے ضمانت پانے والے دو صحافیوں سجاد احمد ڈار اور فہد پاشا بھی ایسے ہی صحافیوں میں شامل ہیں،جنہیں پولیس نے فرائض کی ادائیگی کے ’جرم‘ کا مرتکب پایا۔ سجاد احمد ڈارکو پولیس نے جنوری 2022 میں اس ’جرم‘میں گرفتار کیا تھا کہ اس نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو پوسٹ کی جس میں ایک مقتول شدت پسند کے اہل خانہ کو ہندوستان مخالف نعرے لگاتے ہوئے دیکھا گیا۔ گرفتاری کے بعد سجادڈار کوسلامتی عامہ کے قانون( پبلک سیفٹی ایکٹ ) کے تحت جیل بھیج دیاگیا۔عدالت نے ڈار کو حراست میں رکھنے کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس کے خلاف پولیس کے لگائے ہوئے الزامات میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ اس کی کسی بھی سرگرمی سے ملک کی سلامتی کو نقصان پہنچ سکتا ہے، بلکہ گرفتار کرنے والے حکام نے اعتراف کیا ہے کہ ڈار ایک صحافی ہے۔ اس کا کام اپنے علاقے میں ہونے والے واقعات و سانحات کی اطلاع دینا ہے۔ اس میں فوج اور شدت پسند عناصر کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں۔ ’کشمیر والا‘ نیوزویب سائٹ کے ایڈیٹر فہد شاہ کی گرفتاری پر بھی عدالت نے انتظامیہ کی سرزنش کی اور کہا کہ جس خبر کی بنیاد پر فہدشاہ کو یو اے پی اے کے تحت گرفتار کیا گیا تھا، وہ گیارہ سال پہلے شائع ہوئی تھی۔ تفتیشی ایجنسی عدالت کو کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکی کہ اگر شاہ آزاد ہوں گے تو ریاست کی سیکورٹی کیسے خراب ہو گی۔
جموں وکشمیر ہائی کورٹ کا فیصلہ اور اس کے ساتھ کیاجانے والا تبصرہ بظاہر دو کشمیری صحافیوں کے ساتھ ہونے والے پولیس انتظامیہ کے سلوک کی بابت ہے لیکن اس کا اطلاق پورے ملک پر کیاجاسکتا ہے۔پولیس اوردوسرے ادارے قانون کے نفاذ یا جرائم کی روک تھام کے بجائے حکمرانوں کے ناقدین کو پابند سلاسل کررہے ہیں۔بلا امتیاز ہر ریاست کی پولیس اپنے اپنے حکمرانوں کے اشارے پر ناقدین کو گرفتار کررہی ہے۔ عدالت جیسے ہی انہیں ضمانت دیتی ہے، سلامتی عامہ کے غیرضمانتی دفعات کے تحت انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جاتا ہے۔اس قانون کے تحت بغیر کسی مقدمے کے دو سال تک حراست میں رکھنے کے ظالمانہ اختیار کا بھی بے دریغ استعمال کیاجارہا ہے۔
ہندوستان میں صحت مند اور مستحکم جمہوریت کیلئے ضروری ہے کہ حکمرانوں اور اداروں کا احتساب ہوتا رہے اور یہ احتساب آزاد میڈیا ہی کرسکتا ہے۔حکمرانوں کے دبائواورا شارے پر صحافتی اداروں اور صحافیوں کے خلاف انتظامی حکام کی کارروائی کسی بھی حال میں برداشت نہیں کی جانی چاہیے۔اب وقت آگیا ہے کہ یہ صورتحال مکمل طور پر بدلی جائے۔ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے فیصلے اور تبصرے کے بعد اس معاملے میں اب صحافتی اداروں کوآگے آنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]
جموں و کشمیر ہائی کورٹ اور آزادیٔ صحافت
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS