پُراسرار بیماری سے حفاظت کیلئے حفظ ما تقدم واحد راستہ: ایم اے کنول جعفری

0

ایم اے کنول جعفری

وبائی مرض’ کورونا وائرس ‘کی دہشت کے حصار سے کئی ممالک ابھی مکمل طور پر نکل بھی نہیں پائے تھے کہ چین میں ایک مرتبہ پھر سے اپنے پیر پسار رہی ایک نئی اور پُر اسرار بیماری نے دنیا کو خوف زدہ کر دیا ہے ۔ چین سے سرحد ملنے اور مرض کے کبھی بھی چوری چھپے ملک میں داخل ہونے کے امکانات و خطرات کو محسوس کرتے ہوئے ہندوستان کی وزارت صحت نے چین کی نئی بیماری سے حفاظت کے لیے سبھی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ایک ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے صحت عامہ کے نظام کو چست و درست رکھنے کے احکام صادر کیے ہیں۔ ایڈوائزری میں اسپتالوں کو کسی بھی بڑے مرض کی افزائش کی روک تھام کے لیے اسپتالوں کے عملے،بستروں،ضروری ادویات، آکسیجن،اینٹی بایوٹکس ، پی پی ای کٹس اور ٹیسٹنگ کٹس کی دستیابی کو یقینی بنانے کے ساتھ اسپتالوں کی تیاریوں کے اقدامات کا جائزہ لینے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ ان کے علاوہ آکسیجن پلانٹس اور وینٹی لیٹرس کی کارکردگی کی جانچ کرنے اور ممکنہ خامیوں کو دور کرنے کا مشورہ بھی دیا گیا ہے۔ اتنا ہی نہیں مرض سے متعلق انفیکشن کے پھیلاؤ پر قدغن لگانے کے لیے اسپتالوں میں بنائے گئے ’انفیکشن کنٹرول پروٹوکال‘ کا جائزہ بھی لیا جارہا ہے۔
دراصل 23نومبر2023کو چین کے میڈیا نے ملک کے اسکولوں میں پڑھ رہے بچوں میں ایک قسم کی پُراسرار بیماری کے پھیلنے کا انکشاف کیا تھا۔ اس کے بعد فوری طور پر اسکولوں کوبند کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔ مرض کی دہشت کا اندازہ اسی سے لگایا جا سکتا ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے چین کے دارالخلافہ بیجنگ اور تقریباً800کلومیٹر فاصلے کے دائرے میں موجود اسپتالوں کے سبھی بستر مریضوں سے بھر گئے۔ اس پُراسرار بیماری سے متاثر ہونے والے اسکولی بچوں کے پھیپھڑوں میں جلن، تیز بخار،کھانسی اور نزلہ جیسی علامات پائی جا رہی ہیں۔نمونیا بیکٹیریل ،وائرل یا فنگس انفیکشن کی وجہ سے پھیپھڑے متاثر ہوتے ہیں۔عام طور پر یہ انفیکشن چھوٹے بچوں اور بزرگوں کو زیادہ متاثر کرنے کے ساتھ موت کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مرض میں چھاتی میں درد، کھانسی،بخار اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔’ پرو- میڈ‘ نام کے ایک سرویلانس پلیٹ فارم نے چین میں خطرناک شکل اختیار کر رہے نمونیا کے حوالے سے دنیا بھر میں الرٹ جاری کیا ہے۔ یہ پلیٹ فارم عام انسانوں کے ساتھ جانوروں میںپھیلنے والے امراض کے بارے میں معلومات مہیا کراتا ہے۔ ’پرو- میڈ‘ وہی تنظیم ہے جس نے دسمبر2019میں خطرناک وبائی مرض’ کورونا‘ کے حوالے سے الرٹ جاری کیا تھا۔’پرو-میڈ‘ تنظیم کے ذریعہ جاری کردہ خصوصی رپورٹ میں مرض پھیلنے کی شروعات کا انکشاف نہیں کیا جاسکا۔ چینی میڈیا کے انکشاف اور’ پرو-میڈ‘ پلیٹ فارم کی رپورٹ منظرعام پر آنے کے بعد ہندوستان نے اسے کافی سنجیدگی سے لیا ہے۔ ملک کی وزارت صحت نے 24نومبر 2023کو اس پُراسرار مرض کی بابت وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ چین میں پھیل رہی بیماری سے چینی بچوں میں ’ایچ19-این2‘ کے معاملوں اور سانس سے متعلق امراض کی افزائش پر پینی نگاہ رکھی جا رہی ہے۔ صحت عامہ کے مراکز اور اسپتالوں کی تیاریوں کے مدنظر ملک کے کسی بھی حصے میںکسی قسم کی تشویش کی ضرورت نہیں ہے،لیکن ، حفظ ماتقدم کے طور پر کچھ اقدامات کی پابندی یقینی طور پر سودمند ثابت ہوگی۔ وبا کی صورت حال پر گہری نظر رکھنے والی وزارت صحت کا فرمان ہے کہ ملک کے تمام تر صوبوں اور مرکز کے زیرانتظام آنے والے علاقوں کو ’کووڈ19-‘ کے تناظر میں نظر ثانی شدہ نگرانی حکمت عملی کے لیے ’آپریشنل گائیڈ لائنز‘ کا نفاذلازمی طور پر عمل میں لائیں۔اس کے تحت ضلع اور صوبائی سطح پر انفلوئنزا اور شدید سانس کے انفیکشن کے معاملات پرقریب سے نظر رکھی جائے۔ ایسا اس لیے کیا جانا ضروری ہے کہ عام وجوہات کی بنا پر سانس سے متعلق امراض میں خاص طور پر انفلوئنزا، مائیکو پلازما نمونیا SARS-COV-2 جیسی وجوہات سے اضافہ ہوتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق شمالی چین میں بچوں میں سانس کی بیماریوں کے معاملات سامنے آنے کی معلومات دی گئی۔ اس کے بعد چین میں گزشتہ کچھ ہفتوں میں سانس کے امراض کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھا گیا۔ بچوں میں سانس کی بیماریوں کی عام وجوہات کی نشاندہی تو کی گئی ،لیکن کسی غیر معمولی پیتھو جینز یا کسی غیرمتوقع طبی نمونوں کی نشاندہی نہیں کی گئی۔
سانس کے مرض کی بنا پر وجود میں آنے والے ایک نئے وائرس نے چین کے عوام کو تو شدید دہشت میں مبتلا کر دیا ہے، کورونا وائرس کا قہر دیکھ چکے دیگر ممالک بھی خوف و ہراس میں ہیں۔ بچوں میں تیزی سے پھیل رہی اس پُراسرار بیماری کے مدنظراعلیٰ حکام اور انتظامیہ نے طبی سہولیات کو مزید بہتر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ غورطلب ہے کہ قریب دو ہفتے پہلے چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کی جانب سے اس کے ترجمان می فینگ کے ذریعہ نمونیا کے جن معاملات کی اطلاعات منظرعام پر آئی تھیں،اُن میں زیادہ تعداد بچوں کی تھی۔ اس بیماری سے ایک مرتبہ پھر لوگوں میں 2019میں پھیلے وبائی مرض’کورونا وائرس‘ کی تکالیف و اموات کی دردناک یاد تازہ ہوگئی ہے۔ می فینگ نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ سانس کی شدید بیماریوں میں تیزی سے اضافہ متعدد قسم کے پیتھوجینز کی بیک وقت گردش سے منسوب ہے۔ ان میں انفلوئنزا سب سے نمایاں ہے۔ مریض میں بخارکا آنا، کھانسی کے بغیر پھیپھڑوں کی سوزش کا ہونا اور پھیپھڑوں پر گانٹھوں کا نمودار ہونا اس مرض کی علامات میں شامل ہے۔ حالانکہ اس بیماری سے ابھی تک کسی کی موت واقع نہیں ہوئی،لیکن مرض کی شدت کو دیکھتے ہوئے متعلقہ کلینکس،اسپتالوں اور علاج کی سہولیات کی تعداد کے ساتھ کام کاج کے اوقات بڑھانے اور ادویات کی فراہمی کو یقینی بنانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ طبی ماہرین کا خیال ہے کہ کووڈ19- کے دوران سخت ترین لاک ڈاؤن میں نرمی کے بعد یہ چین کا پہلا موسم سرما ہے۔انہوں نے کووڈ19-میں نرمی، قوت مدافعت میں کمزوری،سرد موسم کی شروعات،کورونا وائرس کی پابندیوں کا خاتمہ اور بچوں میں پہلے جیسی قوت مدافعت کے نہیں ہونے کو نئی بیماری کی اہم وجہ قرار دیا ہے۔ عالمی صحت تنظیم نے 13نومبر 2023کو پریس کانفرنس کے دوران سانس کی بیماریوں کے معاملات میں اضافے کی اطلاع دی تھی۔19نومبرکو آن لائن میڈیکل کمیونٹی پروگرام فار مانیٹرنگ ایمر جنگ ڈیزیزز کی جانب سے شمالی چین کے علاقوں میں کئی بچوں میں نمونیا کے ایک قسم کی اطلاع دی گئی تھی، لیکن فی الحال ڈاکٹر اس کی شناخت کرنے میں ناکام ثابت ہوئے۔ بیجنگ اور شمال مشرقی چین کے شہر لیاؤننگ میں کئی افراد میں انفیکشن تیزی سے پھیلنے کی تصدیق ہوئی ہے ۔ حالانکہ اُسے ابھی تک چین کی نئی بیماری میں کسی نئے یا غیر معمولی پیتھو جینز کی موجودگی کے شواہد نہیں ملے۔ اس کے باوجودعالمی صحت تنظیم نے 22نومبر کو چین سے حالیہ وبا ’ پُراسرار نمونیا‘ سے کتنے لوگ متاثر ہوئے؟ مرض کی علامات کیا ہیں؟ لیب ٹیسٹ کے نتائج سے متعلق تفصیلات او مائیکروپلازما کے حالیہ نمونوں کی اضافی معلومات طلب کی ہیں۔ اُدھر، چین کی جانب سے ابھی تک سرکاری اعدادوشمار جاری نہیں کیے گئے،لیکن ایک بڑے اسپتال نے ایک جیسی علامات میں مبتلا ایمرجنسی وارڈ میں روزانہ تقریباً1200مریض بغرض علاج آنے کی بات کہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت اور چین کے طبی ماہرین نے مشترکہ طور پر چینی شہریوں کو کووڈ19- کی طرح موجودہ پُر اسرار بیماری سے تحفظ کے لیے حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے کا مشورہ دیا ہے۔اس کے تحت وبائی مرض کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ایک مرتبہ پھر سے چہرے پر ماسک لگانے، سماجی دوری اختیار کرنے اور اچھی طرح ہاتھ دھونے کی ضرورت ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی اور ادیب ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS