محمد فاروق اعظمی
2014 کے عام انتخابات سے پہلے نریندر مودی نے ہندوستان کے عوام سے جو وعدے کیے تھے، ان میں بدعنوانی کا خاتمہ سب سے بڑا وعدہ تھا لیکن آج دس برس گزر جانے کے باوجود وعدہ وفا ہوناتو دور کی بات ہے، اس سمت میں کوئی عملی کارروائی بھی کہیں نظرنہیںآرہی ہے۔ نہ چوروں اور رشوت خوروںکو سزا یاب ہونے کی خبر سننے میں آتی ہے اور نہ ہی جرائم پیشہ افراد سے پاک پارلیمنٹ اور اسمبلی کا کوئی منظر ہی نظروں کے سامنے آیا ہے۔ حا ل کے دنوں میں جاری پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں بھی سیاسی جماعتوں نے جن افراد کو امیدوار بنایا ہے، ان میں ایک قابل لحاظ تعداد ایسے امیدواروں کی ہے جنہیں مجرمانہ مقدمات کا سامنا ہے یا ان پر سنگین قسم کے جرائم کے الزامات ہیں۔ان امیدواروں کے داخل کردہ حلف نامے خود اس بات کا ثبوت فراہم کررہے ہیں کہ سیاسی جماعتوں خاص کر بدعنوانی کو ملک کیلئے لعنت اور ناسور سمجھنے والی بھارتیہ جنتاپارٹی کے نزدیک امیدواروں کا تعلیم یافتہ، شریف اور ایماندار ہونا ضروری نہیں ہے۔چھتیس گڑھ میںبی جے پی کے امیدواروں میں سے25فیصد پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔ تلنگانہ میں 2290 امیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا جن میں سے بی جے پی اور کانگریس کے70فیصد امیدواروں پر مجرمانہ مقدمات چل رہے ہیں۔یہی صورتحال راجستھان اور مدھیہ پردیش کی بھی ہے۔ جن کاندھوں پر بدعنوانی ختم کرنے کی ذمہ داری ہے وہ خود مجرموں اور جرائم پیشہ افراد کا بوجھ اٹھائے ہوئے ہیں اور جن کے کاندھے اس سے آزاد ہیں، ان کی بھی یہی خواہش ہے کہ وہ ایوان میں اپنی عددی برتری ثابت کرنے کیلئے مجرموں اور جرائم پیشہ افراد کو بھی اپنی پناہ میں لیں۔ حالانکہ تمام سیاسی جماعتیں عوامی طور پر یہ اعلانات اور وعدے کرتی ہیں حتیٰ کہ عدالت میں حلف نامہ بھی داخل کرتی ہیںکہ وہ مقننہ سے جرائم پیشہ افراد کو دور رکھیں گی مگر جب انتخابات آتے ہیںتو وہ اعلانات، وعدے اور عدلیہ کو جمع کیے گئے حلف نامہ طاق نسیاں بن جاتے ہیں۔یہ سیاسی جماعتیں صحیح اور غلط میں امتیاز کیے بغیر اقتدار ہتھیانے کیلئے جس طرح مجرمانہ عناصر سے سازباز کرتی ہیں اور انتخابی نتائج متاثر کرنے کیلئے جس طرح ان کا استعمال کرتی ہیں، یہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔دھن، دھونس اور دھاندلی کا کھل کر استعمال کیا جاتا ہے اور یہ تینوں چیزیں مجرمانہ عناصر سے ہی مہیا ہوتی ہیں، اس لیے پارٹیاں بلا کسی ہچکچاہٹ کے مجرموں کو نہ صرف انتخابی ٹکٹ دیتی ہیں بلکہ انتخابی جلسوں میں ان کی شرافت اور نجابت کے قصیدے بھی پڑھے جاتے ہیں۔یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آج ایوان کی 233نشستوں پر ایسے عزت مآب ارکان براجمان ہیں جن کے خلاف مجرمانہ معاملات چل رہے ہیں۔سیاسی جماعتوں کے اس رجحان سے ایک جانب جہاں سیاست میں مجرموں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے، وہیں وہ قانون سازی جیسے متبرک اور مقدس امور میں بھی شامل ہوجاتے ہیں۔
یہ کسی بھی جمہوری ملک کیلئے شرم ناک ہونا چاہیے کہ عوام پر حکومت کرنے والے طبقہ میں مجرم بھی شامل ہوں۔ لیکن حکمرانوں کو جمہوریت، اخلاقیات اور عوامی مفاد سے کہیں زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے۔ اسی وجہ سے ملکی سیاست میں جرائم ایک لاعلاج مرض بن چکا ہے۔2019میں ہوئے لوک سبھا انتخاب میں کامیاب ہونے والے539ارکان میں 233افراد مجرمانہ پس منظر رکھتے ہیں۔ یہ بھی طرفہ تماشا ہے کہ سیاست کو جرائم سے پاک کرنے کی جتنی زیادہ باتیں ہوتی ہیں، اتنے ہی کثرت سے مجرمانہ شبیہ والے افراد سیاست میں داخل ہوجاتے ہیں۔ 2009 کے لوک سبھا انتخاب کے مقابلہ 2019 میں مجرمانہ پس منظررکھنے والے لیڈروں کی تعداد میں 44 فیصد کا اضافہ ہوا۔ان لیڈروں میں سے تقریباً29فیصدپر زنا، آبروریزی، قتل اور قتل کرنے جیسے سنگین معاملات درج ہیں۔ 2009 کے پارلیمانی انتخاب میں ایسے افراد کی تعداد 162تھی جو 2014میں بڑھ کر185ہوگئی اوربدعنوانی سے پاک ’تبدیلی‘ کی دوسری حکومت میں یہ تعداد 233 ہوگئی۔ ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر )اور نیشنل الیکشن واچ (این ای ڈبلیو) کی تازہ ترین رپورٹس سے پتہ چلا ہے کہ ملک کی اعلیٰ ترین مقننہ (لوک سبھا اور راجیہ سبھا پر مشتمل پارلیمنٹ) میں شامل 763افراد میں سے 306 افراد سنگین قسم کے مجرمانہ مقدمات میں ماخوذہیں۔ مجرمانہ ریکارڈ رکھنے والے ممبران پارلیمنٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے 385 میں سے 139 (36 فیصد)، کانگریس کے 81 میں سے 43(53 فیصد)، ترنمول کانگریس کے 36 میں سے 14 (39 فیصد)، راشٹریہ جنتا دل کے 6 میں سے5(83 فیصد) ، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) 8 میں سے 6 (75 فیصد)،عام آدمی پارٹی کے 11 میں سے 3 (27 فیصد)، وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے31 میں سے 13(42فیصد) اور نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے8میں سے 3 (36 فیصد) شامل ہیں۔
پانچ ریاستوں کے جاریہ اسمبلی انتخابات اور اگلے سال ہونے والے عام انتخابات کے بعد یہ تعداد کتنی ہوجائے گی، اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے۔اوریہ سب اس لیے ہورہا ہے کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کا بنیادی مقصد اقتدار میںرہنا ہے۔ ملک و سماج اور عوام کی خدمت صرف اعلانات اور وعدے تک ہی محدود ہے۔ ایسے میں وشو گرو اور سپرپاور بننا تو دور کی بات ہے، ایک مستحکم اور تعمیری معاشرہ بھی ہم قائم کرنے کے اہل نہیں ہوسکتے ہیں۔
کسی بھی جمہوریت کی ساکھ اس کی مقننہ ہوتی ہے۔ ایوان میں بیٹھنے والے لیڈروں کا کردار وعمل، اس کی خوبیاں اور خامیاں جمہوریت کو متاثر کرتی ہیں۔ لیکن آج پارلیمنٹ اور اسمبلیاںاپنے ہی لیڈروں کی بداعمالیوں سے داغدار ہوچکی ہیں۔حیرت تو یہ بھی ہے کہ یہ سب دیکھنے، سننے اور سمجھنے کے باوجود ملک کے عوام ایسے ہی داغدار لوگوں کے فریب میں بار بارآجاتے ہیں۔2014میں فریب کھانے کے بعد امید تھی کہ 2019 میںکچھ احساس زیاں ابھرے گا لیکن یہ امید بھی نقش برآب ثابت ہوئی۔ اب پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے نتائج کا انتظار ہے، دیکھیں اس میں دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں پانچ ریاستوں کے عوام نے کس طرح کے لوگوں کو اپنے لیڈر کے طور پر منتخب کیا ہے۔آیا جرائم پیشہ افراد کو حق قانون سازی دیا ہے یاپھر 10برسوں کے احساس زیاں کوبصورت ووٹ استعمال کیا ہے ؟
[email protected]