عبدالسلام عاصم
کہتے ہیں جب آپ کو پوری دنیا سے شکایت پیدا ہوجائے تو سمجھ لیں کہ اب آپ کو نظر اتروانے کی جگہ آئینہ خانے میں جا کر از خود اپنے احوال بالخصوص اعمال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ بصورت دیگر شاطر معالج آپ کی تکلیف کی حقیقی تشخیص کرنے کے بجائے آپ کا ذہن پڑھتا رہے گا اور اسی مناسبت سے دوا کم اور دارو زیادہ پلا تا رہے گا۔ ہتھیاروں کی تجارت کے نام پر نزاعی عارضوں کا علاج کرنے والے ممالک مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک اپنے مریضوں(گاہکوں) سے اسی طرح پیش آتے ہیں۔ایسا نہیں ہے کہ دوسری اقوام آزمائش کے اس مرحلے سے نہیں گزریں۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ہر عہد کو متاثر کرنے والی قوموں کو تجربہ گاہوں سے گزرنا پڑا ہے۔البتہ مغربی اقوام اور دنیا کو متاثر کرنے والی دوسری قوموں کی آزمائشوں کا دور آج کے مقابلے میں زیادہ مشکلات اور جد وجہد کا عہد تھا۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل/حماس نزاع میں بھی بظاہر ایک ہولناک مر حلہ سامنے آرہا ہے۔ یوکرین میں21ماہ سے جاری لڑائی میں جہاں اب تک دس ہزار سے کم عام شہری ہلاک ہوئے ہیں، وہیں اسرائیل اور غزہ میں عام ہلاکتیں10ہزار سے متجاوز ہو چکی ہیں اور بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ بدقسمتی سے آل ابراہیم بشمول ملت اسلامیہ کو بدترین فکری بحران کا سامنا ہے جو آپس میں بری طرح بٹے ہوئے ہیں۔
عالمی تقاضوں کے بدلے ہوئے منظر نامے میں دیکھا جائے تو ملت اسلامیہ کو جن آزمائشوں کا سامنا ہے، ان سے کامیابی کے ساتھ گزرنے کے لیے موجودہ عہد ماضی کے بر عکس زیادہ سازگار ہے کیونکہ ماضی میں ایسی آزمائشوں سے گزرنے والی قوموں کو اطلاعاتی تکنالوجی کی سہولتیں بہم نہیں تھیں۔ غلط اور صحیح کی تصدیق میں بہت وقت ضائع ہوتا تھا۔ تکنالوجیائی ترقی اور گلوبلائزیشن کی برکت سے حالیہ دہائیوں میں رفتار زمانہ کو وہ مہمیز لگی ہے کہ اب لمحوں کی خطا کی سزا صدیوں پر محیط نہیں ہوتی۔ ہر چند کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہوگیا، لیکن اتنا فرق ضرور پڑا ہے کہ جمہوری تہذیب میں کسی تنظیم کے کسی غلط فیصلے پر قائم کسی نظم کو اب استقلال حاصل نہیں ہے۔ باوجوداینکہ بعض فکری حلقے آج بھی دوسروں کی عصری ترقی سے انقلابی استفادہ کرنے کے بجائے اپنی محدود سوچ کی دیواریں اور اونچی کرنے کا فائدہ اٹھانے میں مصروف ہیں۔
بہر حال بات چل رہی تھی اسرائیل کے عزائم اور حماس کی ناعاقبت اندیشی کی تو اقوام متحدہ سمیت کسی عالمی، علاقائی، قومی مجلس میں اب تک ایسا نیا کچھ سامنے نہیں آیا کہ اندیشوں میں امکانات کے در وا ہوں۔ پرانی باتیں ہی دہرائی جا رہی ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچی جا رہی ہیں۔ترکی کے صدر طیب رجب اردگان ہوں یا سعودی شہزادہ محمد بن سلمان کسی نے اب تک کوئی ایسا موقف اختیار نہیں کیا کہ تازہ خوریز ایپی سوڈ پیش کرنے والوں کے بجائے دیکھنے والوں کے جانی خسارے کو روکا جاسکے۔ ابراہیمی معاہدے اور اس معاہدے پر تارپیڈو کے بعد کا ماحول متعلقہ خطے کے حق میں سازگار بنانے میں علاقے کے ممالک کے کردار کو دیکھ کر تو ایسا لگتا ہے کہ کسی نے بھی ہوش کے ناخن نہیں لیے۔ لیبیا میں غلطی کا امریکہ نے ماضی قریب میں دکھاوے کا ہی سہی اعتراف تو کر لیا تھا، لیکن مشرق وسطیٰ میں فلسطین کے محاذ پر اب تک ہر فریق نے دوسرے کی غلطی کی نشاندہی تک ہی اپنی ساری دلچسپی محدود رکھی ہے۔
اقتدار کے لیے تمام تر جمہوری سیاسی اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔ متاثرہ خطے کی حکومتوں اور فلسطینی نمائندگی کی دعویدار تنظیم حماس کے درمیان ایک طرح کی بے اعتمادی کا جو ماحول بنا ہواہے، اسے حکومتی اور معاشرتی سائنس دانوں کو بہر طور ختم کرنا ہو گا۔ اس سے ان میں سے کسی کے قومی نظریہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا بلکہ وہ زخم مندمل ہوں گے جنہیں محدود مفادات نے تازہ رکھا ہے اور بعض طاقتیں اس کی تازگی کو انسانی غارتگری کے لیے برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔
کوئی بھی بگڑی بات اس وقت بننی شروع ہوتی ہے جب مختلف الخیال حلقوں کی ایک دوسرے سے اشتراک کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ یہ کام کرنے کے لیے کسی اعلان کی ضرورت نہیں، بس ارادہ کافی ہے۔ صحتمند اختلاف رائے رکھنے اور کسی بات کو حقارت سے دو ٹوک مسترد کرنے میں نمایاں فرق ہے۔ اس فرق کو جب تک نہیں سمجھا جائے گا، بین فرقہ انسانی تہذیب کی پاسداری کی ہنگم گردان متعلقین میں سے کسی کو منزل سے آشنا نہیں کر سکے گی۔ مذاکرات پر یقین رکھنے والے اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سیکولر دنیا میں وہ آج بھی بین فرقہ انسانی تہذیب سے نابلد ہیں اور اپنے اندر موجود ان دیکھے دشمن سے نجات حاصل نہیں کر پارہے ہیں۔ نظر نہ آنے والے دشمن سے مقابلے کی بہتر صورت یہ ہے کہ اُس ماحول کو یکسر بدلا جائے جو ایسے دشمن کے لیے ساز گار ہے۔ بہ الفاظ دیگر رنگ اور نسل، ذات اور مذہب پر انسان کی برتری کا یقین عام کیا جائے۔ اس طرح ہم اس دشمن سے ازخود نجات حاصل کرنے کے متحمل ہو جائیں گے۔
(مضمون نگار یو این آئی اردو کے سابق ادارتی سربراہ ہیں)
[email protected]