مراق مرزا
اس کرئہ ارض نے جنگ و جدال کے انگنت واقعات دیکھے ہیں۔ دوعالمی جنگوں کے تباہ کن نتائج کی روداد بھی عالمی تاریخ کے آرکائیو میں محفوظ ہے، تاہم ماضی کی کسی بھی جنگ کے دوران اتنی تعداد میں بزرگ، خواتین اور معصوم بچوں کے وحشیانہ قتل کے واقعات نہیں ملتے جتنی بڑی تعداد میں آج ہم غزہ میں دیکھ رہے ہیں۔7 اکتوبر، 2023 کو حماس نے اسرائیل کے وسطی و جنوبی شہروں بشمول یروشلم اور تل ابیب پرجو حملہ کیا تھا اور جس میں عام اسرائیلی شہریوں سمیت 1400 افراد کے مارے جانے کی تصدیق ہوئی ہے، اسے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن دنیا اس حقیقت سے بھی آنکھیں نہیں پھیر سکتی کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے فلسطین کے مظلوم لوگ صیہونی افواج کی وحشیانہ کارروائی برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔ حقوق انسانی کی تمام باتیں بے معنی نظرآتی ہیں۔ کمزوروں پر ہونے والے مظالم کا نظارہ دنیا کی بڑی طاقتیں ’جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘ کے چشمے سے دیکھ رہی ہیں۔ یہ نظریہ خطرناک ہے۔ یہ پالیسی دنیا کو تباہی کی طرف لے جاسکتی ہے۔
تاریخ پرنظر رکھنے والے لوگ یہ جانتے ہیں کہ 1948 سے قبل دنیا کے نقشے پر اسرائیل نام کا کوئی ملک نہیں تھا۔ انگریزوں نے جس طرح 1947 میں بھارت کے دوٹکڑے کیے اسی طرح 1948 میں فلسطین کا بٹوارہ کر کے ایک حصہ یہودیوں کے حوالے کر دیا اور اس طرح اسرائیل نام کا ایک ملک وجود میں آگیا۔ فلسطینیوں کا قصور یہ تھا کہ ہٹلر کے جرمنی سے بھاگے یا بھگائے گئے یہودی رفیوجیوں کو انسانیت کی بنیاد پر اپنی زمین کے ایک حصے میں سر چھپانے کی جگہ دے دی تھی۔ اس ہمدردی کی سزا وہ آج تک بھگت رہے ہیں۔ اسرائیل کی لڑائی حماس سے ہے اور حماس کے خلاف فوجی کارروائی کرنا اسرائیل کا جائزحق ہے، یہ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہناہے لیکن سوال یہ ہے کہ اسرائیل کر کیا رہا ہے؟ حماس کے بہانے فلسطین کے عام شہریوں پر بم برسا رہاہے۔ رہائشی عمارتوں، اسکولوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں، مساجد، کلیسا اور یہاں تک کہ قبرستانوں پر بموں کی بارش کر رہا ہے۔ کئی جگہوں پر فاسفورس بموں کے استعمال کی بھی خبریں آئی ہیں جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں بے قصور شہری روز ہی لقمہ اجل بن رہے ہیں اور انسانیت کو شرمسار کرنے والی بات یہ ہے کہ شہید ہونے والے فلسطینیوں میں معصوم بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ ہر 10 منٹ میں ایک بچہ شہید کر دیا جاتا ہے۔ سیکڑوں بچے ملبے میں دبے ہوئے ہیں۔ کیا 4,324 بچے جو صیہونی افواج کی بربریت کا شکار ہوکر موت کی آغوش میں سوگئے، وہ دہشت گردتھے؟ دنیا کے بڑے ممالک کے وہ لیڈران جو دہشت گردی سے لڑنے اور اسے جڑ سے مٹانے کی بات کرتے ہیں، ذرا گہرائی سے سوچیں کہ فلسطین کے وہ بچے جن کے ماں باپ اور بھائی بہن جنگ کی نذر ہوگئے، کل جب وہ بڑے ہوں گے تو ان کے دل و دماغ میں کتنی آگ ہوگی۔ اس وقت کیا وہ ڈاکٹر، انجینئر یا پروفیسر بننا چاہیں گے؟ ہرگز نہیں! انتقام قانون قدرت ہے۔ جن لوگوں نے ان کا گھر برباد کیا ہے، ان کی دنیا تباہ کرنے کے لیے ان کے ہتھیار اٹھانے اور لہو بہانے کا اندیشہ رہے گا۔ اگر انہوں نے ایسا کیا کیا تب انہیں دہشت گرد کہا جائے گا؟ وہ لوگ جو انسانی لاشوں کی سیڑھیاں چڑھ کر مسنداقتدار تک پہنچتے ہیں، دراصل وہی دہشت گردی نیز دیگر سنگین جرائم کے جنم داتا ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں آج جو سپاری میڈیا ہے، وہ بھی ایسے ہی لیڈروں اور حکمرانوں کی دین ہے۔ کیا اسرائیل کو مظلوم ثابت کرنے کا پروپیگنڈہ چلانے والے مغربی اور کچھ ایشیائی ملکوں کا میڈیا انصاف پسند ہے؟ ہم ایک ایسے دور میں جی رہے ہیں جس میں صحافت بڑی حد تک دم توڑ چکی ہے۔ مظلوم بچوں، بزرگوں اور خواتین کی لاشیں دیکھ کر جس صحافی کا دل نہ تڑپ اٹھتا ہو، اسے کچھ اور کہا جا سکتا ہے، صحافی نہیں کہا جا سکتا مگر آج کے حالات یہ ہیں کہ مظلوم کی لاشوں پر دھماکے دارخبریں بنائی جاتی ہیں اور ظالم کی حمایت میں مضامین لکھے جارہے ہیں اور ٹی وی پر رپورٹیں تیارکی جاتی ہیں۔
بچے کسی بھی ملک کامستقبل کہے جاتے ہیں۔ وہ جب تک بڑے نہیں ہو جاتے، ان کا کوئی مذہب یا سیاسی نظریہ نہیں ہوتا، اس لیے کچھ دھارمک کتابوں میں انہیں بھگوان کا روپ بھی کہا گیا ہے مگر وہ قوم جس نے فرعون جیسے ظالم و جابر بادشاہ کے ظلم و جور سے نجات دلانے والے اپنے نبی موسیٰؑ تک کودھوکادیا تھا، اسے کیاپتہ کہ بچوں کی معصومیت میں خدا کے وجود کی روشنی دکھائی دیتی ہے۔ ان پر تو دریائے نیل میں راستہ بن جانے کا معجزہ بھی اثر نہیں کر پایا تھا۔ افسوس کا مقام ہے کہ تمام جنگی اصول و ضوابط کو نظرانداز کرتے ہوئے فلسطین کے عام لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور اسرائیل اپنے خفیہ مشن کو آگے بڑھا رہاہے۔ بنیامن نیتن یاہو دراصل ایک خواب کے ساتھ جی رہے ہیں۔ وہ فلسطینیوں کی بچی کھچی زمین چھین کر اسرائیل کو ’گریٹر اسرائیل‘ بنانا چاہتے ہیں لیکن خواب خواب ہی ہوتا ہے۔ نیتن یاہو کا خواب شرمندئہ تعبیرہوگا یا آگے چل کر وہ خود اپنی سوچ پر شرمندہ ہوں گے، یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گالیکن فی الوقت غزہ کی جنگ کے پھیلنے کا خدشہ ہے، اس جنگ نے تیسری عالمی جنگ کے اندیشے کو اور پختہ کر دیا ہے۔ آج کے دورمیں بھی کانٹریکٹ میڈیا کو ہتھیار بنا کر جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ خبر یہ ہے کہ غزہ کی جنگ میں نیتن یاہو کا بھتیجا، جو کہ فوجی کمانڈر تھا، مارا جاچکا ہے۔ اس وقت کی حقیقت یہی ہے کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اسرائیل-حماس جنگ خطرناک رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔ دوسری جانب یوکرین اور روس کے درمیان بھی لڑائی جاری ہے مگر میڈیا کا فوکس ابھی پوری طرح فلسطین پر ہے۔
کچھ میڈیا رپورٹوں کے مطابق، غزہ فلسطین کے مظلوم شہیدوں کا قبرستان بن گیا ہے۔ تقریباً دو لاکھ عمارتیں زمیں بوس کر دی گئی ہیں۔ اسرائیل غزہ کو دو حصوں میں بانٹنے کی بات کر رہاہے، تاہم یہ نہیں کہا جا سکتا کہ دنیا یہ منظر نہیں دیکھ رہی ہے۔ کئی ملکوں نے اسرائیل سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے اور اسرائیل کے آس پاس کے کئی ملکوں میں غصے کا آتش فشاں بھڑکنے لگا ہے۔ اسی دوران روس نے 6 نیوکلیئر بموں سے لیس ایک آب دوز کو اپنے بحریہ میں شامل کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے نشانے پر تین ملک ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ تین ملک کون ہیں۔ ظاہر ہے، روس کا اشارہ امریکہ، یوکرین اور اسرائیل کی طرف ہے۔ غزہ پٹی کی تباہی کے مناظر توکانٹریکٹ میڈیا چینلوں پر خوب دکھائے جا رہے ہیں، ہر روز اسرائیل کی طرف سے ویڈیو جاری کیے جا رہے ہیں مگر اب حماس کی جانب سے بھی کچھ ویڈیو جاری کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ حماس کے لڑاکے سرنگوں میں آرام نہیں کر رہے ہیں۔ ان کا یٰسین راکٹ بھی کمال دکھا رہا ہے اور اسرائیلی ٹینک اور بختر بندگاڑیوں کے پرخچے اڑا رہا ہے۔ متعدد اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں جن کے بارے میں اسرائیل کھل کر بتا نہیں رہا ہے۔ حزب اللہ، حوثی اور شام کے لڑاکے بھی میدان میں اتر چکے ہیں۔ حملہ اسرائیلی شہروں پربھی ہو رہا ہے جس کی خبریں ہمارے ملک کے نیشنل میڈیا نے کچھ حد تک دکھائی ہیں۔ عراق میں امریکہ کے جو فوجی ٹھکانے ہیں، ان پر عراقی باغی گروہ نے حملہ شروع کر دیا ہے۔ صیہونی افواج نے غزہ پٹی کو محصور کر لیا ہے اور آس پاس کے ملکوں کے جنگجو گروہوں نے اسرائیل کی گھیرابندی کرلی ہے۔ مجموعی طور پر صورتحال یہ ہے کہ ہر طرف بارود بچھائی جاچکی ہے۔ ہلکی سی چنگاری گرنے کی دیر ہے۔ زمین دھماکوں سے کانپ اٹھے گی۔ ایران اگراس جنگ میں کود پڑا تو منظرنامہ بالکل بدل سکتاہے۔ پھر چین، روس اور شمالی کوریا کس کی حمایت میں ہتھیار اٹھائیں گے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ دوسری طرف ترکی، اردن، یمن، بحرین اور دیگرخلیجی ممالک بھی تیار بیٹھے ہیں۔ خلیجی ممالک یہ چاہتے ہیں کہ خطے میں امن قائم ہو مگر ان کی اس چاہت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ فلسطینیوں پرگرائے جانے والے بموں کے خلاف ان میں غم و غصہ نہیں ہے۔ کچھ عالمی سیاسی مبصرین کا کہناہے کہ امریکہ کی پشت پناہی اسرائیل کو ٹھیک اسی طرح لے ڈوبے گی جیسے فرعون کے اپنے خداہونے کی غلط فہمی نے اسے دریائے نیل میں ڈبو دیاتھا لیکن ہم تو چاہیں گے کہ جو بائیڈن اورنیتن یاہو وٹیکن کے پوپ فرانسس کے دو ریاستی کے مشورے پرعمل کرنے کی سوچیں۔ اس سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
جنگ اور امن کے تعلق سے مہاتماگاندھی نے قابل غور بات کہی ہے۔ اپنی کتاب میں وہ ایک جگہ لکھتے ہیں، ’اگرہم دنیا کو امن کی تعلیم دینا چاہتے ہیں اور بارودی جنگ کے خلاف پرامن جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں بچوں سے شروعات کرنی چاہیے۔ بچوں کی اچھی تعلیم و تربیت اور پرامن ماحول میں ان کی پرورش سے ہی آگے چل کر ایک تشدد سے خالی سماج یا ملک وجود میں آسکتاہے۔‘ معروف امریکی ناول نگار ارنسٹ ہیمنگوے کا مانناہے کہ ’اس کی ضرورت اور اس کے جائز ہونے کے باوجود یہ مت سمجھو کہ جنگ جرم نہیں ہے۔ پہل چاہے کسی بھی جانب سے ہو، جنگ اپنے آپ میں ایک سنگین جرم ہے۔ جنگ میں ہارنے والوں کے ساتھ ساتھ جیتنے والوں کی بھی ہارہی ہوتی ہے، کیونکہ میدان جنگ میں صرف ہارنے والوں کے فوجی ہی نہیں مرتے بلکہ جیتنے والوں کے بھی مرتے ہیں۔ مرنے والوں کا تعلق آیا کسی بھی مذہب سے ہو، ہیں تو سبھی ایک خدا کے بندے۔‘n