لبنان پر منڈلاتے تباہی کے بادل

0

غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا سب سے زیادہ اثر جس ملک پر پڑ سکتا ہے وہ لبنان ہے۔ لبنان کی اہم سیاسی اور فوجی طاقت حزب اللہ اسرائیل کے خلاف طویل عرصہ سے برسر پیکار ہے۔ 2006میں تو دونوں کے درمیان جنگ ہوئی جس کا نقصان لبنان کو ا ٹھانا پڑا۔ لبنان کا داخلی بحران غزہ کے موجودہ بحران سے اور سنگین ہوتا جارہا ہے۔ اسرائیل پر غزہ کی طرف سے کئی راکٹ داغے جا چکے ہیں اس کے جواب میں کئی مرتبہ حزب اللہ کے ٹھکانوں پر اس کارروائی میں حزب اللہ کے کئی فوجی مارے جاچکے ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ غزہ کی طرح لبنان پر جب بھی اسرائیل کارروائی کرتا ہے تو اس کا نشانہ عام آدمی، گھنی آبادیاں مفاد عامہ اور سہولیات کے مراکز ادارے اور دفاتر ہی ہوتے ہیں۔ یہ اس کا پرانا وطیرہ ہے جو وہ ہر ملک کے خلاف اختیار کرتا ہے۔
1982-83 سے لے کر اب تک اسرائیل کی بدبختانہ کارروائی کا نشانہ عام آدمی بنتا ہے۔ صیہونی ریاست کی اس کارروائی سے یہودیوں کے تئیں عام لوگوں کی نفرت بڑھتی ہے۔ یہ افسوسناک صورت حال خطے میں رقابت اور دشمنی کو فروغ دیتی ہے۔ مغربی ایشیا اسی نفرت اور رقابت کی وجہ سے ہمیشہ ابال میں رہتا ہے۔ معمولی تصادم کے بڑے تنازع میں تبدیل ہونے کا ہمیشہ خطرہ رہتاہے۔ موجودہ صورت حال اس سے بالکل نئی نہیں ہے۔ پچھلے دنوں فرانس کی مداخلت کی وجہ سے لبنان کے ارباب اقتدار نے اسرائیل کے ساتھ ایک تجارتی سمجھوتہ کیا تھا۔ اگرچہ دونوں ممالک یعنی لبنان اور اسرائیل حالت جنگ میں ہیں۔ وہاں عارضی جنگ بندی ہے اور اس جنگ بندی کی نگرانی اقوام متحدہ کی امن فورس کرتی ہے۔ پھر بھی فرانس کی مصالحت اور اس کی پرائیوٹ کمپنیوں کے تعاون سے سمندر سے تیل اور قدرتی گیس نکالنے کا معاہدہ ہوا تھا۔ اگرچہ لبنان کے کئی حلقوں میں اس کی مخالفت ہوئی تھی ۔ جیسا کہ اوپر سطروں میں بتایا گیا ہے کہ لبنان کے اندر سیاسی اقتصادی بحران کی وجہ سے کوئی بھی ایک سیاسی طاقت اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ وہ کوئی فیصلہ کن رول ادا کرسکے۔ ایسے حالات میں اسرائیل کے ساتھ خزب اللہ کی کشیدگی حالات کو مزیدخراب کرسکتی ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورت میں اسرائیل کے ساتھ اگرچہ جنگ چھڑتی ہے تو اس کا نقصان حزب اللہ کو کم اور لبنان کو زیادہ ہوگا۔ حالات اس قدر خراب ہیں کہ جنوبی لبنان کے جن علاقوں میں اسرائیلی فوجی کارروائی کا اندیشہ ہے ان علاقوں میں رضا کاروں کے پاس اتنے بھی وسائل نہیں ہیں کہ وہ اپنے کارکنان کے لیے جیکٹ اور ہیلمٹ کا انتظام بھی کرسکیں اور ان علاقوں میں کام کرنے والے ادارے صرف رضا کاروں پر منحصر ہے۔ ان کے پاس تربیت یافتہ کارکنان کو دینے کے لیے تنخواہیں اور ضروری سہولیات موجود نہیں ہیں۔ اس علاقے میں سرگرم ایک خاتون انیس ابلا کا کہنا ہے کہ ہم سرحد پر دفاعی پوزیشن میں کھڑے ہیں، مگر ہمارے پاس اپنے تحفظ تک کے لیے ساز وسامان نہیں ہے۔ ابلا کا دفتر اسرائیل کے کنٹرول والے بارڈر سے صرف 10کیلو میٹر دور ہے۔ انہوںنے حالات کی سنگینی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہاکہ اگر آج جنگ چھڑ جاتی ہے تو ہمارے پاس پینے کے لیے پانی اور غذائی اجناس تک میسر نہیں ہوگی۔ اسرائیل سے لگی ہوئی سرحد پر رہنے والوں کی زندگی مشکل ہوتی جار ہی ہے اور جب سے خزب اللہ کے ساتھ ٹکرائو بڑھا ہے۔ ان علاقوں میں خوف وہراس ہے۔ یہاں کے مکینوں کولگتا ہے کہ ان کے باغات میں زیتون کے درخت تباہ ہوسکتے ہیں۔
زیتون اور دیگر پھلوں کی کھیتی کرکے یہاں کے لوگ گزر بسر کرتے ہیں۔ جب سے سیاسی اور اقتصادی بحران شروع ہوا ہے تب سے یہاں کے لوگوں کو سرکار کی طرف سے کسی بھی قسم کا تعاون نہیں مل رہا ہے۔ اس پورے علاقے میں بجلی کی شدید قلت ہے۔ پورا نظام بجلی سپلائی نہ ہونے کی وجہ سے ٹھپ پڑا ہے۔ یہاں کا ٹریفک نظام بنیادی سہولیات سے عاری ہیں۔ 30-30سال پرانی گاڑیاں لوگ استعمال کرنے پر مجبور ہیں جن سے دھواں بہت زیادہ نکلتا ہے اور ایندھن بھی زیادہ خرچ ہوتا ہے۔ دفاعی ایجنسیوں کے رضا کاروں کا کہنا ہے کہ ان کے پاس رسد کا سامان منتقل کرنے اور لوگوں کو سہولت فراہم کرنے کے لیے موثر انتظامی ڈھانچہ نہیں ہے۔ ان کے ٹرک فرسودہ ہوچکے ہیں جو اکثر پنکچر ہوجاتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے بھی پیسے نہیں ہوتے کہ ہم ٹائیرو ںکو بدلوا لیں۔ جب سے اسرائیل کے ساتھ حالیہ تنازع شروع ہوا ہے اب تک لبنان میں 62لوگوں کی موت ہوچکی ہے۔ ان میں خزب اللہ کے فوجیوں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہیں۔ اقتصادی بحران کے درمیان غیر ملکی اداروں اور معاون ممالک مدد نہ ملنے کی وجہ سے لبنان کا عام شہری غربت کی زندگی بسر کررہا ہے۔ جب سے ملک پر جنگ کا خطرہ منڈلا رہا ہے۔ کچھ مالدار لوگ جنگ کے اندیشے پیش نظر ذخیرہ اندوزی کررہے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ جنگ شروع ہوگئی تو ملک میں غذائی اجناس کی شدید کمی ہوجائے گی۔ لبنان یوکرین میں جنگ چھڑنے کے بعد سے ہی غذائی اجناس کی قلت کا سامنا کررہا ہے۔ جب ترکی کی مداخلت سے یوکرین اور روس کے درمیان فوجی معاہدہ ہوا تو سب سے پہلے لبنان کو ہی گیہوں ، کھانے کے تیل، چینی وغیرہ فراہم کرایا گیا۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ افریقہ کے غریب اور فاقہ کشی کے شکار ممالک سے زیادہ حالات لبنان میں خراب ہیں۔
ان حالات کے مزید بگڑنے کا اندیشہ اس لیے بھی ہے کہ کیونکہ وہاں پر کوئی بھی سیاسی قوت انتظامیہ ایسا نہیںہے جو کہ بڑا فیصلہ لے سکے اور اپنے ملک کے عوام کے ایما پر بین الاقوانی برادری یا کسی تیسرے ملک کے ساتھ سمجھوتہ کرلے۔ حالات کے سنگینی کا اندازہ سے اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ لبنان کی فوج کے اخراجات قطر اٹھارہا ہے۔ ایسی صورت حال میں لبنان بحیثیت ایک ملک کے کتنے دن دنیا کے نقشے پر رہتا ہے۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں کا جاسکتا ہے۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS