زین شمسی
جنگ جاری ہے ، اموات جاری ہیں، معصوم بچے توپ خانے کے دہانے پر ہیں۔ انسانیت سوزی اپنے عروج پر ہے۔ امریکہ اورآسٹریلیا اوریوروپ اپنی بیٹی اسرائیل کے دکھ میں شریک ہیں اور دنیا صرف کف افسوس مل رہی ہے۔ اسرائیل کا ظلم حد سے بڑھ چکا ہے۔ فلسطین کا وجود تنگ دائرے میں قید ہے۔ جنگ بندی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ کچھ لوگ یوں کہہ رہے ہیں کہ کہیں یہ جنگ عالمی جنگ میں تبدیل نہ ہو جائے۔ یہ صرف کہی جانے والی بات ہے۔ اس کا کوئی اشارہ اب تک نہیں ملا ہے ، کیونکہ اسرائیل کی جس طرح کھلی حمایت ہوتی ہے فلسطین کی خاموش حمایت میں بھی اتنے ممالک نہیں ہیں۔
دراصل اب وہ دور نہیں ہے جب باتیں انسانیت کی ہوا کرتی تھیں، اب بات وہاں سے آگے بڑھ کر تجارت کی ہوگئی ہے۔ دنیا میں جہاں بھی اس طرح کے حالات سامنے آتے ہیں تمام ممالک اپنا حساب کتاب درست کرنے لگتے ہیں کہ اس لڑائی میں ان کا کون سا رول ان کی تجارت کے لیے منافع بخش ہوگا۔ چونکہ امریکہ کی دنیا میں دادا گری قائم ہوئے چار دہائیاں ہوچکی ہیں، اس لیے کوئی بھی ملک امریکہ کے موقف کے خلاف جانے کی ہمت نہیں کرسکتا۔ اس لیے لڑائی ایک ملک کی ہو یا ایک مذہب کی ہو، نگاہیں تجارت پر ہی رہتی ہیں، انسانیت پر نہیں۔ فلسطین-اسرائیل تنازع آج کا تو ہے نہیں اور یہ لڑائی آج ہی تو شروع ہوئی نہیں ہے۔ ظلم و جبر کی یہ داستان80سال پرانی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے اس لڑائی میں اخلاقی طور پر دنیا فلسطین کے ساتھ ہوتی تھی اور سیاسی طور پر اسرائیل کے ساتھ۔ مطلب اسرائیل کی مذمت تو ضرور کی جاتی تھی لیکن فلسطین کے حق میں کوئی فیصلہ نہیں لیا جاتا تھا ورنہ اتنے برسوں سے چلے آرہے اس تنازع میں فلسطین کی زمین سکڑتی نہیں جاتی اور مسلم ممالک کے اڈے میں اسرائیل دنیا کا طاقتور ملک نہ بن جاتا۔ اسی لیے اس لڑائی کو مسلمانوں اور یہودیوں کی روایتی لڑائی سے جوڑ کر دیکھنا بے وقوفی ہے۔اب چونکہ پوری دنیا اسلامو فوبیا کی لپیٹ میں ہے اور مسلم دنیا مسلکوفوبیاکی چپیٹ میں ہے، اس لیے اس جنگ کو اخلاقیات کے ترازو میں تولنا کم فہمی ہے، اسے تجارت اور معاشی نقطہ نظر سے ہی پرکھاجانا چاہیے۔
اگر بھارت کی ہی بات کریں تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسرائیل اور فلسطین کے مابین تنازع میں ہمارا دیش اسرائیل کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہو۔ بھارت کا ہمیشہ سے یہ موقف رہا کہ فلسطینیوں کی زمین پر قابض اسرائیل اپنی جگہ چھوڑ دے، مجھے یاد ہے کہ جب اندرا گاندھی کاجسد خاکی آخری رسوم کا انتظار کر رہا تھا، اس وقت اگر اس کے سرہانے جو عالمی رہنما سب سے زیادہ رو رہا تھا، وہ اور کوئی نہیں اندراگاندھی کو اپنی بہن کی طرح ماننے والے یاسر عرفات تھے۔ ہندوستان اور فلسطین کی دوستی جگ ظاہر ہے، مگر آج جب ہندوستانی میڈیا اور بھارت کے ہونہار واٹس ایپ یونیورسٹی کے طلبا کو اسرائیل جا جاکر فلسطین کو صفحۂ ہستی سے مٹادینے کے لیے بے تاب دیکھتا ہوں تو یہی سوچتا ہوں کہ دنیا کا موقف جو بھی ہو، ہمارے دیش کو کیا ہوگیا ہے۔ حماس کی لڑائی اور فلسطین کے بچوں کی شہادت کو ایک جیسا سمجھنے والے لوگ انسان کیسے ہوسکتے ہیں۔ قومی میڈیا کی ہیڈلائن نفرت کے اس عروج پر پہنچ چکی ہے ، جہاں وہ یہ دیکھ ہی نہیں پا رہا ہے کہ بھارت کے مسلمانوں کی مخالفت میں وہ کس کا ساتھ دینے نکلا ہے۔کیا ٹی وی اینکر بالکل ہی جاہل ہیں یا پھر اتنے زیادہ پیسے کے بھوکے ہیں کہ وہ یہ بھی نہیں سوچ رہے ہیں کہ ان کی حرکتوں کو ان کا بیٹا اور ان کے خاندان والے بھی دیکھ رہے ہیں اور تاریخ انہیں کس نام سے یاد رکھے گی۔
وزیراعظم نے جیسے ہی حماس کی مخالفت کی، آر ایس ایس، اندھ بھکت اور گودی میڈیا سب کے سب فلسطین کے دشمن ہوگئے۔ ٹی آر پی بٹورنے کے چکر میں کئی میڈیا والے اسرائیل جیسے محفوظ مقام پر چلے گئے اور غزہ جیسے خونیں میدان پر اپنے الفاظ کی بوچھار شروع کرنے لگے۔ کہنے والے یہ کہنے لگے کہ منی پور ایسی بری جگہ نہیں تھی جہاں روبیکا لیاقت نہیں جا سکتی تھی۔ دراصل یہ اسلاموفوبیا کے شکار لوگ ہیں، جنہیں یہودی اس لیے پسند آگئے کہ وہ فلسطین کو نیست و نابود کر رہے ہیں۔ انہیں اس سے مطلب نہیں کہ یہود ی گائے کا گوشت بھی کھاتے ہیں اور بت پرستی کے سخت مخالف ہیں۔
جنگ بندی کی قرار داد کے وقت بھارت کا واک آئوٹ کر جانا بھی حیران کن ہے۔وشو گرو بننے جارہے بھارت کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ ہاں میں بھی رہے اور نہ میںبھی رہے۔ اگر ہم جنگ بندی کی مخالفت میں ہی رہتے تو کوئی کیا کر لیتا اور اس کی حمایت میں رہ لیتے تو کیا بگڑ جاتا، مگر بھارت کی خارجہ پالیسی امریکہ جیسی مستحکم تو ہے نہیں۔ امریکہ میں ٹرمپ جیسا سخت گیر صدر ہو یا روادار بائیڈن ہو، اس کی خارجہ پالیسی نہیں بدلتی، مگر بھارت کی امریکہ کے قریب آنے کی چاہت خارجہ پالیسی کو استحکام نہیں بخش پاتی۔ اسی لیے کہیں امریکہ ناراض نہ ہو جائے بھارت نے واک آئوٹ کا فیصلہ لیا۔جبکہ دنیا بھر میں بھارت کا جلوہ ہونے کے شور کے ناطے بھارت کو اٹل فیصلہ لینا چاہیے، میڈیا نے ہی ہمیں بتایا تھا کہ روس اور یوکرین کی لڑائی کچھ دن کے لیے ہمارے پرائم منسٹر کے ایک فون سے روک دی گئی تھی تو کیا فلسطین اوراسرائیل کی لڑائی ہمارے پرائم منسٹر کی کوششوں سے روکی یا جاری نہیں رکھی جا سکتی تھی۔ اگر بھارت کھل کر سامنے آجاتا دنیا کے تمام رہنما اپنے دوست کے ساتھ کھڑے نظر نہیں آتے، ضرور آتے، مگر وقت صحیح نہیں ہے۔
بھارت میں الیکشن سر پر ہے۔پردھان سیوک اوران کی ٹیم کو پتہ نہیں کہاں سے یہ اطلاع مل گئی ہے کہ لوک سبھا الیکشن سے پہلے پانچ ریاستوں کے اسمبلی الیکشن میں بی جے پی کی حالت پتلی ہے۔ سارے نسخے فیل ثابت ہورہے ہیں۔ ترقی اور نیا بھارت کا جملہ بھاری پڑرہا ہے۔ ایسے میں بس مسلمان ہی ایک سہارا ہے اور فلسطین میں اتفاق سے مسلمان ہیں۔اس لیے فلسطین بھارت کے لیے اہم ہو یا نہیں بی جے پی کے لیے بہت کارآمد ہے۔ چنانچہ جنگ ہوتی رہے یا جنگ ختم ہو بی جے پی کے کارکنان یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ پہلے کشمیر کو قبضہ میں لیا اور اب فلسطین سے مسلمانوں کو بھگایا۔ اتنا ہی کافی ہے الیکشن جیتنے کے لیے۔ تاہم اس الیکشن میں پاکستان تو نہیں ، مگر پاکستانی کرکٹ ٹیم بھی کہیں نہ کہیں سے مددگار ثابت ہوئی۔ کرکٹ شائقین تو اسے بھارت سے ہارتا دیکھنا چاہتے تھے، مگر وہ اتنا نرو س ہوگئی کہ بنگلہ دیش سے بھی ہار بیٹھی۔ بیچارے ان کے فین پاکستان زندہ باد کے نعرے لگانے کی کوشش بھی نہیں کر پائے، ایک جگہ لگایا بھی تو پولیس نے انہیں روک دیا۔
جمہوریت میں سماج سیاست پر حاوی ہوتا ہے تاکہ حکمرانی میں نکھار پیدا ہو۔ بی جے پی کا ایک کمال تو ماننا ہی پڑے گاکہ ہندوستانی جمہوری نظام میں پہلی بار سیاست سماج پر حاوی ہوئی ہے جو جمہوریت پر ہی نہیں سماج پر بھی منفی اثرات ڈال رہی ہے۔
(مضمون نگار سینئر صحافی ہیں)
[email protected]