سوڈان میں جنگ بندی کا امکان کتنا مستحکم؟

0

ایک طرف مغربی ایشیا میں اسرائیل کی غزہ پر فوج کشی جاری ہے اور تادم تحریر7اکتوبر کے حملے کے بعد اب تک غزہ میں مرنے والوں افراد کی تعداد تقریباً سات یا آٹھ ہزار ہوگئی ہے۔ دنیا بھر میں اپنی نوعیت کی یہ سب سے دلخراش فوجی کارروائی ہے جس میںہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ محض 24دن کی اسرائیلی فوج کی کارروائی نے اتنی بڑی تعداد میں عام لوگ مارے جاچکے ہیں۔یوگوصلاویہ میں سپربسرینکا میں جو قتل عام ہواتھا اس میں 8ہزار372لوگ نسلی تطہیر کا شکارہوئے تھے۔بہرکیف افریقہ میں ایک اور سنگین محاذ کھلا ہواہے اور وہ ہے سوڈان، جہاں گزشتہ چھ ماہ کی خانہ جنگی میں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں اور 5.7افراد بے گھر یا زخمی ہوگئے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ سوڈان ایک عرب اور مسلم اکثریتی ملک ہے جواحتیاتی طور پردریائے نیل کی وادی میں آتاہے۔ سوڈان میں گزشتہ چھ ماہ سے جو خانہ جنگی چل رہی ہے اس کے دواہم مرکزی کردار ہیں ، ایک سوڈان آرم فورسزکے سربراہ جنرل عبد الفتح البرہان ہیں جو کہ فوجی بغاوت کے بعد تقریباً مکمل اختیارات والے سربراہ مملکت کے طورپر کام کررہے ہیں۔ جنرل عبد الفتح البرہان 2019میں تختہ پلٹ کے بعد مورض وجود میں آئی ۔مقتدر کونسل Sovereige Councilکے صدر تھے اور وہ سابق صدر عمر البشیر کو اقتدار سے بے دخل کرکے برسراقتدار میںآئے تھے۔ اس تختہ پلٹ میں ان کا ساتھ ریپڈ سپوٹ فورسزکے سربراہ بھی ساتھ تھے۔ریپڈ سپوٹ فورس(آر ایس ایف)ایک نیم مسلح فوجی گروپ ہے جس کی ابتداسوڈان کے دار فور علاقے میں ہوئی تھی اور بنیادی طورپر یہ نیم مسلح فوج معزول صدرعمر البشیرکی فوج کی دارفور میں زیادتیوں اور مظالم کا مقابلہ کرنے کے لئے وجود میں آئی تھی۔ اس کے سربراہ محمد حمدان حمیدتی جو ایک سخت مزاج اور چھاپہ مار جنگ کے ماہر ہیں۔دراصل یہ دونوں فوجی سربراہان عمر البشیر کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لئے ہی ساتھ آئے تھے۔ بعد میں عوامی مظاہروں اور سیاستدانوں کے دبائو میں ان دونوں فوجی سربراہان نے ایک عبوری انتظامیہ بنائی تھی جس میں تمام نمائندہ ، اداروں کے نمائندے موجود تھے ،جب فوج اور غیر فوجی اداروں میں ایک سمجھوتہ ہونے ہی والاتھا کہ ان دونوں فوجی سربراہان جمہوری طور پرمنتخب حکومت میں آر ایس ایف کی حیثیت کو لے کر اختلاف رائے ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خرطوم کی سڑکوں پرخون خرابہ شروع ہوگیا اور گزشتہ 6ماہ کی عرصے سے زبردست جنگ چل رہی ہے ۔راجدھانی اگر چہ اس جنگ کا مرکز ہے مگر دار فور اور راجدھانی کے نواحی علاقوں میں دونوں فریقوں کے درمیان جنگ کی وجہ سے زبردست کشت خوں کا بازار گرم ہے۔کئی اندرونی اور بیرونی طاقتیں اس برادر کشی کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہیں مگر ایک دوسرے کو ختم کرنے پر آمادہ دونوں فوجی سربراہ کے سروں پر ایسا خون سوار ہے کہ وہ نہ امریکہ کی سن رہے ہیں اور نہ سعودی عرب کی۔اس وقت جبکہ پوری دنیا غزہ کی پٹی میں اسرائیل کی درندگی پر حیران ہے ، اس دوران جدہ سے یہ خبر آئی ہے کہ دونوں فریق یعنی سوڈانی فوج کے سربراہ عبد الفتح البرہان اورحمیدتی مذاکرات اور جنگ بندی کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔گزشتہ روزامریکہ اور سعودی عرب کی مصالحت سے یہ طے پایا ہے کہ دونوں فریق جنگ سے متاثر افراد کو راحت دینے کے لئے جنگ بندی کے لئے تیار ہوگئے ہیں۔ اقوام متحدہ نے سوڈان کے اندر جنگ کو انسانی المیہ قراردیاتھا جس کی وجہ سے سیکڑوں لوگ مارے جاچکے ہیں اور لاکھوں لوگ بے گھر ہوگئے ہیں۔یہ جنگ اتنی شدید ہے کہ سوڈان کے کئی لاکھ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑکر پڑوسی ممالک چاڈ ،ایتھوپیااور جنوبی سوڈان جاچکے ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معرکہ میں معزول صدر عمر البشیر البرہان کو جو کہ خرطوم کی ایک جیل میں بند تھے چھوڑدیاگیا،وہ کہاں ہے اور کیا کررہے ہیں یہ بھی صیغہ راز میں ہے۔ 2019میں البرہان کے زوال کے بعد فوج کے سربراہ عبد الفتح البرہان پوری دنیا میں بحیثیت سربراہ مملکت نمائندگی کررہے تھے ، جب کہ کئی مواقع پردیکھاگیاتھا کہ آر ایس ایف کے کئی لیڈران نائب بنے ہوئے تھے اور ان مواقع پر اپنی حیثیت کو لے کر حمیدتی کے چہرے پر تاثرات سے صاف دکھائی دے رہاتھا کہ اس پوزیشن سے وہ مطمئن نہیں ہیں اورانہیں ایسا کام کرنا پسند نہیں تھا، جس زمانے میں جمہوری نظام کی قیام کے لئے تحریک چلائی جارہی تھی تو یہ دونوں مل کر اس تحریک کو ناکام بنانے اور تحریک کو کچلنے کی کوشش کررہے تھے۔حمیدتی پر مظاہروں کو کچلنے کے لئے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کے الزامات ہیں۔سوڈان کے فوج کے سربراہ نے بھی کبھی نہیں چاہا کہ جمہوریت نواز تحریک کامیاب ہوجائے۔ وہ مستقل مختلف حیلوں اور بہانوں سے مذاکرات کو فیصلہ کن موڑپر لے جانے میں رکاوٹ بنتے رہے۔کبھی انہوں نے سیاسی پارٹیوں کے درمیان اختلافات کو ہوا دی تو کبھی سیاستدانوں ،پیشہ ور ماہرین اور مزدوریونین میں اختلافات کو بڑھاوا دیا۔جنرل بشیر کے ذہن میں وہی خاکہ تھا جو کہ ان کے پیش رو کا تھا ۔وہ اقتدار سے چپکے رہنا چاہتے تھے کہ وہ آر ایس ایف کو فوج کا حصہ بننے میں رکاوٹ بنے رہے۔آر ایس ایف سونے کی کھانوں پر کنٹرول رکھتے ہیں اوروہ سونے کے کاروبار میں مصروف ہیں۔ان کی فوج نے سعودی عرب کیلئے کئی معرکوں پر لڑا ہے۔کہاجاتاہے کہ انہوں نے یمن میں سعودی عرب اور یو اے ای کی فوج کے ساتھ لڑاتھا۔ان کی فوج میں مسلح ملیشیا ، قبائلی گروپ ہیں اور یہ فوج بہت بڑی طاقت بن گئی ہے۔ آر ایس ایف نے راجدھانی اور دیگرشہروں میں کنٹرول حاصل کرلیاہے،جس کی وجہ سے حمیدتی اقتدار حاصل کرنا چاہتے ہیں ، وہ سوڈان کی فوج کا حصہ بننا چاہتے تھے اور اس کے لئے نظام الاوقات وضع کرناچاہتے تھے۔ سوڈان فوج نے سربراہ البرہان اوراس عمل کی تکمیل میں کم از کم سال چاہتے تھے ، یعنی یہی اختلاف کی جڑتھی۔

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS