آج کی دنیاکو ڈیٹا کی دنیا کہا جاتا ہے۔ ڈیٹاکسی بھی معلومات کو حاصل کرنے کیلئے جمع کیا جانے والا مواد، حقائق اور اعداد و شمار کو کہتے ہیں جسے منظم اور غیر منظم دونوں طریقوں سے جمع کیا جاتا ہے۔ ڈیٹا فائل، آڈیو-ویڈیو، تصویریا عام متن کی شکل میں بھی ہوسکتا ہے۔ کاروبار، تجارت، معیشت، معاشرت، سیاست حتیٰ کہ سفارت جیسے شعبے میں اپنا سکہ جمانے اور حکمرانی کیلئے ڈیٹا پر کنٹرول کا ہونا لازمی سمجھا جاتا ہے۔ ڈیٹا پرکنٹرول کیلئے بعض حکومتوں نے قانون بھی بنا رکھا ہے۔ بعض ممالک میں ڈیٹا چوری کو سنگین جرائم میں شمار کیاجاتا ہے تو بعض ممالک میں اسے پرائیویسی کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیاگیا ہے اور نجی و ذاتی ڈیٹا کی رازداری کا بھی پختہ قانون ہے۔ ہندوستان میں بھی یہ شہریوں کی پرائیویسی کے ذیل میں شمار کیاجاتا ہے لیکن بدبختی یہ ہے کہ ہندوستان میں اس کی حفاظت کا کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ آئے دن ڈیٹا چوری اور ڈیٹا لیک ہونے کی خبریں سامنے آتی رہتی ہیں۔آج بھی ایسی ہی ہوش اڑادینے والی خبرسامنے آئی ہے۔ اطلاع ہے کہ 81.5کروڑ ہندوستانیوں کی ذاتی معلومات لیک ہوگئی ہیں جن میں نام، پتہ، موبائل نمبر،پاسپورٹ نمبر، بینک اکائونٹ کی تفصیلات، آدھار نمبر اور دیگر معلومات شامل ہیں۔کہاجارہاہے کہ یہ ڈیٹا لیک یا بزبان دیگر ڈیٹا چوری انڈین کونسل آف میڈیکل ریسرچ(آئی سی ایم آر) کے ڈیٹا بیس سے ہوئی ہے۔ غالباً یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے بڑا ڈیٹا لیک یا ڈیٹا چوری ہے۔ سینٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن(سی بی آئی) اس لیک کی تحقیقات کر رہی ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ’pwn0001‘ نام کے ایک ہیکر نے یہ ’ کارنامہ‘ انجام دیا ہے۔ اس ہیکر کاکہنا ہے کہ تمام ڈیٹا ڈارک ویب پر موجود ہے، ہیکر کے ذریعے شیئر کیے گئے ڈیٹا کے مطابق، چوری کی گئی معلومات میں آدھار اور پاسپورٹ کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ لاکھوں ہندوستانیوں کے نام، فون نمبر اور عارضی اور مستقل پتے بھی شامل ہیں۔ ہیکر کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ یہ ڈیٹاکو وڈ19-کے دوران آئی سی ایم آر کے ذریعے جمع کی گئی معلومات سے لیاگیا ہے۔
حیرت کی بات یہ بھی ہے کہ اس ڈیٹا لیک کی خبر بھی باہر سے ملی ہے۔کسی ہندوستانی ادارہ یا ایجنسی کے بجائے سائبر سیکورٹی اور انٹلیجنس میں مہارت رکھنے والی امریکی ایجنسی ’ ری سیکورٹی‘ نے اس کا انکشاف کیا۔ ایجنسی کاکہنا ہے کہ لیک ہونے والے ڈیٹا میں ہندوستانی شہریوں کی ذاتی معلومات پر مشتمل 100,000 فائلیں ہیں۔ ان کی درستگی کو جانچنے کیلئے ایجنسی نے کچھ ریکارڈوں کی سرکاری پورٹل ’آدھار‘ سے تصدیق کی اور اس کے بعد کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس ٹیم آف انڈیاکو اس کی اطلاع دی۔لیکن کووڈ19-ٹسٹنگ سے متعلق معلومات مختلف سرکاری محکموںمیں بکھری ہوئی ہیں۔ ایسے میں ڈیٹا کی چوری کہاں سے ہوئی، یہ معلوم کرنا مشکل ہو گیا ہے۔
اس ڈیٹا چوری سے ہندوستان کے لوگوں کو کیا اور کتنا نقصان ہوگا یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا۔لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ ڈیٹا کی حفاظت کا حکومتی سطح پر معقول انتظام کرنے کے ساتھ ساتھ عوام الناس میں بیداری مہم چلائی جائے۔آج زیادہ تر نجی کمپنیاں ڈیٹا کواپنی ضرورت کے مطابق استعمال اور اکٹھا کرتی ہیں۔ اس کیلئے سوشل میڈیا، ای میل سروسز اور میسجنگ ایپس کے ذریعے بڑے پیمانے پر معلومات پھیلائی جاتی ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے استعمال کے ذریعے لوگوں کے مختلف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا بہت آسان ہو گیا ہے۔ جو لوگ یا گروہ کبھی ایک دوسرے سے نہیں ملے وہ بھی سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے ذریعے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ ان سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کا ممبر بننے کے دوران، ہر ایک کو اپنے بارے میں ذاتی معلومات دینا ہوتی ہیں اور اپنی ذاتی زندگی سے جڑی چیزیں شیئر کرنا ہوتی ہیں۔ یہ معلومات ہم سے پوچھے بغیر کسی تیسرے فریق کے ساتھ شیئر کی جاتی ہیں، جس کا غلط استعمال بھی ہوتا ہے۔ کبھی پیسے کا نقصان ہوتا ہے تو کبھی شناخت کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے اور آدھار کا ڈیٹا لیک ہوجانے کی وجہ سے تمام نقصانات ایک ساتھ ہوسکتے ہیں۔ سی بی آئی ہندوستان کے اس تاریخی ڈیٹا چوری معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔ دیکھیں کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ چور گرفت میں آتے ہیں یا نہیں اس سے قطع نظر ہمیں ہروقت چوکنا اور بیدار رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ہمارے ڈیٹا کا غلط استعمال نہ ہوسکے۔
[email protected]
ہندوستانیوں کے ڈیٹا کی تاریخی چوری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS