فلسطینی بچوں کی زندگی بھی اتنی ہی قیمتی: صبیح احمد

0

صبیح احمد

مشرق وسطیٰ کا موجودہ بحران انسانیت کے لیے ایک کٹھن امتحان ہے، جس میں یہ سوال کیا جاتا ہے کہ بھیانک اشتعال انگیزی کا جواب کیسے دیا جائے۔ اس سوال کا جواب ’جیو اور جینے دو‘ کے فلسفے میں موجود ہے، اور جتنی جلدی اس پر عملدرآمد کیا جائے اتنا ہی بہتر ہوگا۔ بہرحال اس امتحان میں دنیا اور بالخصوص مغربی ممالک کا رویہ بہت ہی مایوس کن نظر آ رہا ہے۔
غزہ پر بڑے پیمانے پر بمباری اور جلد ہی زمینی حملے شروع ہونے کا امکان ظاہر کرتا ہے کہ مانو فلسطینی بچے ان حملوں کا شکار ہی نہیں ہوتے اور اگر ہوتے بھی ہیں تو بہت کم ہوتے ہیں، یا حماس کے ساتھ ان کی وابستگی کی وجہ سے ان کی قدر و قیمت کم ہے۔ غزہ کی وزارت صحت کے مطابق غزہ میں 2000 سے زیادہ بچے مارے جا چکے ہیں اور صرف 3 ہفتوں میں غزہ کے تقریباً آدھے گھروں کو تباہ کر دیا گیا ہے یا انہیں نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اور یہ متوقع خونریز زمینی حملہ سے پہلے کی ابتدائی جارحیت کا نتیجہ ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ غزہ پر اسرائیل کے زمینی حملے اگر ہوئے تو اس کے بعد کی صورتحال کیا ہوگی۔ ریاستہائے متحدہ امریکہ اصولوں کے بارے میں بہت اچھی اچھی باتیں کرتا ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ صدر بائیڈن نے سرکاری امریکی پالیسی میں انسانی زندگی کی درجہ بندی کو جگہ دے دی ہے۔ انہوں نے حماس کے حملے میں یہودیوں کی موت پر شدید غم و غصے کا اظہار تو کیا، لیکن غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری میں بڑی تعداد میں اموات اور انسانی زندگیوں کی قدر کے حوالے سے اتنی ہی شدت سے تو دور انہوں نے کسی بھی طرح کا ردعمل ظاہر کرنے کی قطعی زحمت نہیں کی۔ اور یہ اکثر واضح نہیں ہوتا ہے کہ آیا وہ ایک ملک کے طور پر اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں یا اس کے ناکام وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کے ساتھ، جو امن کی راہ میں ایک دیرینہ رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے ’آئرن ڈوم سسٹم‘ کے لیے دفاعی ہتھیار تو سمجھ میں آتے ہیں، لیکن عملی طور پر کیا امریکی ہتھیاروں کی وجہ سے ہونے والے خون خرابہ کو انسانی حقوق کے تحفظ میں مددگار ثابت کیا جا سکے گا؟ غزہ کے ایک معالج ڈاکٹر ایاد ابو کارش کو کیا بتایا جائے گا جنہوں نے بمباری میں اپنی بیوی اور بیٹے کو کھو دیا اور پھر انہیں اپنی زخمی 2 سالہ بیٹی کا علاج کرنا پڑا؟ ان کے پاس اپنی بھانجی یا بہن کی دیکھ بھال کرنے کا وقت بھی نہیں تھا، کیونکہ انہیں اپنے پیاروں کی لاشوں کو سنبھالنا تھا۔ گزشتہ جمعرات کو اپنی تقریر میں بائیڈن نے امریکیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ یوکرین اور اسرائیل کے پیچھے مضبوطی سے کھڑے ہوں، کیونکہ 2 قوموں نے ان پر تباہ کن طاقتوں کے ذریعہ حملہ کیا ہے۔ بہتر ہے۔ لیکن فرض کیا جائے کہ یوکرین روسی جنگی جرائم کے جواب میں ایک روسی شہر کا محاصرہ کر لے، بمباری کر کے اسے خاک میں ملا دے اور پانی اور بجلی کاٹ دے، ہزاروں افراد کو ہلاک کر دے اور ڈاکٹروں کو بے ہوشی کی دوا کے بغیر مریضوں کا آپریشن کرنے پر مجبور کر دے۔ تو کیا ہوگا؟ کیا امریکی کندھے اچکا کر یہ کہیں گے کہ ٹھیک ہے، پوتن نے اسے شروع کیا۔ ان روسی بچوں کے ساتھ بہت برا ہو رہا ہے، لیکن انہیں پیدا ہونے کے لیے کسی اور جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے تھا۔
حماس کے حملے اتنے بڑے پیمانے پر اور اچانک ہوئے کہ اسرائیل میں بوکھلاہٹ پیدا ہوگئی اور یہ حملے اس کے وہم و گمان سے بالا تر تھے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے حماس کو ختم کرنے کا عزم کر لیا ہے، خواہ اس کے لیے اسے کوئی بھی قیمت کیوں نہ چکانی پڑے اور انسانی زندگیوں کا نقصان کیوں نہ ہو۔ لیکن یہ ردعمل عملی اور اخلاقی غلط فہمی کی عکاسی کرتا ہے۔ حماس کا چاہے جو بھی ہو، لیکن غزہ میں وطن پرستی کے جذبے کو ختم کرنا ممکن نہیں ہے، اور اسرائیل کے ممکنہ زمینی حملے سے حریت پسندی کو کچلنے کے بجائے اس کو اور بڑھاوا ملنے کا زیادہ امکان ہے، اور وہ بھی انسانی زندگیوں کی ناقابل برداشت قیمت پر۔ یہ خیال بہت ہی افسوسناک اور غیر انسانی ہے کہ غزہ میں زندگیوں کی قدر و قیمت کم ہے، صرف اس لیے کہ بہت سے فلسطینی حماس کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ لوگوں کو ان کی زندگی کے حق سے اس لیے محروم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ نفرت انگیز خیالات رکھتے ہیں یا ان خیالات کا ساتھ دیتے ہیں، اور بہرصورت غزہ کے تقریباً نصف شہری بچے ہیں۔ غزہ کے وہ بچے جن میں شیر خوار بچے بھی شامل ہیں، ان 20 لاکھ سے زائد افراد میں شامل ہیں جو محاصرے اور اجتماعی سزا کو برداشت کر رہے ہیں۔ بے شک اسرائیل کو خوفناک حملے کا سامنا کرنا پڑا ہے، اس لیے اس کے ساتھ ہمدردی اور اس کی حمایت کی جا سکتی ہے، لیکن اس بنیاد پر اسے عام شہریوں کو ذبح کرنے یا انہیں خوراک، پانی اور ادویات سے محروم کرنے کا بلینک چیک ہرگز نہیں ملنا چاہیے۔
غزہ کے الاہلی اسپتال میں اسرائیلی فضائی حملے میں کم از کم 500 افراد ہلاک ہو گئے۔ یہ غزہ کی وزارت صحت کا دعویٰ ہے۔ اسرائیل کے جنگی جرائم کی شدید مذمت کی گئی۔ پورے مشرق وسطیٰ میں شدید مظاہرے پھوٹ پڑے۔ اردن اور مصر کے رہنماؤں نے صدر بائیڈن سے عمان میں ہونے والی میٹنگ منسوخ کر دی جہاں غزہ کی امداد پر بات چیت ہونے والی تھی۔ جبکہ اسرائیل کا اصرار تھا کہ غلطی سے ایک فلسطینی تنظیم ’اسلامی جہاد‘ کے راکٹ سے اسپتال میں دھماکہ ہوا تھا لیکن یہ دعویٰ اعتبار کے لائق نہیں ہے کیونکہ ماضی میں جب اسرائیل نے شہریوں کو ہلاک کیا تھا تو تب بھی اس نے فلسطینیوں کو ہی قصور وار ٹھہرایا تھا۔ گزشتہ سال مئی میں فلسطینی امریکی صحافی شیریں ابو عاقلہ کو جنین پناہ گزین کیمپ پر اسرائیلی حملے کی کوریج کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ اسرائیلی حکام نے کہا کہ اسے یا تو ایک فلسطینی نے گولی ماری تھی یا پھر کسی اسرائیلی فوجی نے فلسطینی بندوق بردار کو نشانہ بنایا تھا۔ حالانکہ نیو یارک ٹائمس کی تحقیقات اسرائیل کے سرکاری موقف سے متصادم ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ ابو عاقلہ کو ہلاک کرنے والی گولی اسرائیلی فوجی قافلے کی سمت سے چلائی گئی تھی اور یہ کہ ’جب انہیں گولی ماری گئی تو ان کے قریب کوئی مسلح فلسطینی موجود نہیں تھا۔‘ چند ماہ بعد ہی غزہ پر اسرائیلی بمباری کے ایک اور دور کے دوران ایک قبرستان میں 5 فلسطینی لڑکے مارے گئے۔ ابتدائی طور پر اسرائیلی حکام نے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار غلطی سے چلائے گئے ’اسلامی جہاد‘ کے ایک راکٹ کو قرار دیا تھا، لیکن اسرائیلی اخبار ہاریٹز کی رپورٹ کے مطابق فوج کی انکوائری میں پتہ چلا کہ وہ دراصل اسرائیلی فضائی حملے میں مارے گئے تھے۔ اسپتال میں ہونے والے دھماکے سے ایسا لگتا ہے کہ تاریخ اپنے آپ کو بڑے اور المناک پیمانے پر دہرا رہی ہے۔
ممکنہ طویل زمینی حملہ ہرگز مسئلے کا حل نہیں ہو سکتا جس میں بڑی تعداد میں اسرائیلی فوجیوں، یرغمالیوں اور خاص طور پر غزہ کے شہریوں کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ بہرحال جنگ کے دوران بھی تمام تعصبات سے اوپر اٹھ کر انسانی زندگیوں کی یکساں قدر ہونی چاہیے۔ اگر ہمارے اخلاقیات کچھ بچوں کی زندگی کو قیمتی اور دیگر کچھ کی زندگی کو بے قیمت تصور کرتے ہیں تو یہ اخلاقی بلندی نہیں بلکہ اخلاقی تنگ نظری ہے۔ اسرائیلی بچوں کے تحفظ کے لیے فلسطینی بچوں کے قتل عام کو کسی بھی زاویہ سے جائز نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS