خواجہ عبدالمنتقم
ابھی تین دن قبل ہم نے ڈاکٹرعبدالکلام کا یوم پیدائش منایا ہے۔ ان کے اور مولانا ابو الکلام آزاد کے نام میں کافی مشابہت ہے۔ان دونوں شخصیات کو اپنے اپنے میدان میں کلیدی اہمیت حاصل ہے۔یہ بات دوسری ہے کہ اب مولانا آزاد کو کم یاد کیا جاتا ہے۔
ہمارے ملک کے سائنسداں بشمول ڈاکٹر عبدالکلام اپنے عظیم کارناموں کے لیے پوری دنیا میں جانے جاتے ہیں اور ایشیا میں تو ہمیں کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ اب ہماری سائنسی وتکنیکی ترقی کا اندازہ تو اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارا وہ سفر جو زمین وزیر زمین سے شروع ہوا تھا، چاند تک پہنچ چکا ہے اور ستاروں سے آگے جو اورجہان ہیں، ان کی جانب رواں دواں ہے۔اس کے علاوہ اب ہماری منزل سورج ہے۔ جہاں تک ہمارے سابق صدر جناب اے پی جے عبدالکلام کی شخصیت کی بات ہے تو اس کا اندازہ تو ان کے اس قول سے ہی لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی نے کامیابی حاصل کرنے کا پکا ارادہ کرلیا ہے تویہ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ اسے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑے۔ ان کا کہنا تھا کہ خواب وہ نہیں ہیں جو ہم سوتے میں دیکھتے ہیں، خواب وہ ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زندگی میں اونچ نیچ آتی رہتی ہے، ہم کبھی کامیاب ہوتے ہیں تو کبھی ناکام مگر ہمیں ہمت نہیں ہارنی چاہیے اور ہرحالت میں آگے بڑھتے رہنا چاہیے۔
اے پی جے عبدالکلام جیسی شخصیتیں بعد از مرگ بھی زندہ رہتی ہیں۔ ان کے کارنامے اور ان کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات انہیں ہمیشہ زندہ رکھتے ہیں۔ وہ 15؍اکتوبر، 1931کو تمل ناڈو کے ایک چھوٹے سے شہر رامیشورم میں پیدا ہوئے تھے۔ اس وقت تمل ناڈو کا نام مدراس تھا۔ ان کا تعلق ایک درمیانی درجے کے خاندان سے تھا۔ ان کے والد ماہی گیر تھے جنہیں عام زبان میں مچھیرا کہا جاتا ہے۔ اگرچہ وہ پڑھے لکھے نہیں تھے مگر ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا عبدالکلام پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بنے۔ مگر ان کے مالی حالات اتنے اچھے نہیں تھے کہ وہ اپنے اس بچے کو اعلیٰ تعلیم دلاسکیں۔ اس بچے نے خود چھوٹے موٹے کام کیے، اخبارات بیچے اور اس طرح اپنے والدین کی نہ صرف مالی مدد کی بلکہ اپنی پڑھائی کے لیے بھی پیسہ جٹایا۔ انہوں نے سینٹ جوزف کالج ترو چیراپلی سے 1954میں گریجویشن کیا اور اس کے بعد ایرواسپیس انجینئرنگ یعنی خلائی اور ہوائی گاڑیاں ڈیزائن کرنے اور بنانے سے متعلق تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدراس(جس کا اب نیا نام چنئی ہے) چلے گئے۔ وہاں انہوں نے مدراس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) میں داخلہ لیااور وہاں سے ڈگری حاصل کرنے کے بعد تنظیم برائے دفاعی تحقیق اور ترقی (ڈی آر ڈی او،جس میں فوجی معاملوںاورسامان وغیرہ سے متعلق ریسرچ کا کام ہوتا ہے، جوائن کر لیامگر انہوں نے جلد ہی اس ادارے کو چھوڑ دیا اور اسرو چلے گئے یعنی بھارتی تنظیم برائے فضائی تحقیق۔ اس ادارے میں فضائی امور سے متعلق تحقیق کا کام ہوتا ہے۔ وہاں انہوں نے بطور پروجیکٹ ڈائریکٹر کام کیا۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی کوششوں کے نتیجے میں اگنی اور پرتھوی جیسے میزائل چھوڑے گئے اور 1998 میں پوکھران2- نیوکلیائی ٹسٹ کیے گئے۔ ان سب کے روح رواں ڈاکٹر کلام ہی تھے۔ ان کی ان خدمات کے لیے انہیں میزائل مین بھی کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر کلام کی اس شاندار کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سرکار نے ان کو وزیراعظم کا چیف سائنٹفک ایڈوائزر مقرر کیا اور ساتھ ہی وہ ڈی آر ڈی او میں سکریٹری کے عہدے پر بھی فائز ہوئے۔ اسی دوران وہ نیوکلیائی ٹیسٹ کے چیف پروجیکٹ کوآرڈینٹر بھی رہے اور جیسا کہ اوپر بتایا گیا ’میزائل مین‘ کہلائے جانے لگے۔ ان کا یہ سفر اسی طرح جاری رہا اور آخر کار وہ ہندوستان کے سب سے بڑے عہدے یعنی صدر مملکت کے عہدہ کے لیے چنے گئے اور انہوں نے بطور صدر شاندار کارکردگی، سادگی، انکساری، ایمانداری، شفافیت اور ایک نیک انسان ہونے کا جو ثبوت دیا، اس کی مثال شاید ہی دنیا میں مل پائے۔ وہ صرف ایک سوٹ کیس لے کر راشٹرپتی بھون میں، جو صدر کی سرکاری رہائش گاہ ہے، داخل ہوئے تھے اور اپنی مدت ختم ہونے کے بعداپنے ساتھ صرف ایک سوٹ کیس لے کر واپس چلے گئے۔ جو جو سامان اور تحفے اس دوران انہیں ملے تھے، انہوں نے وہ سب کے سب میوزیم کو دے دیے اور ایک پنسل تک بھی اپنے پاس نہیں رکھی۔ جب جب جو جو رشتے دار یا مہمان ان کے پاس آئے اور ان کے ساتھ قیام کیا یا نہیں کیا، ان کا سارا خرچ اپنی تنخواہ میں سے اٹھایا اور سرکاری خزانے سے ایک پائی بھی نہیں لی۔ ان کی انہی خوبیوں کی وجہ سے انہیںبہت سے ایوارڈ، اعزازات ملے اور ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں سے نوازا گیا، جن کی تفصیل کے لیے کئی صفحات درکار ہیں، ان میں ہندوستان کا اعلیٰ ترین ایوارڈ بھارت رتن بھی شامل ہے۔ یہی نہیں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق انہیںتقریباً پچاس یونیورسٹیوں نے ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے نوازا۔
بھارت رتن، پدم بھوشن،پدم وبھوشن کے علاوہ انہیں اوربہت سے ایوارڈ ملے،جن میں اندرا گاندھی قومی یکجہتی ایوارڈ، ویرساورکر ایوارڈ، رامانوجم ایوارڈ، کنگ چارلز 2 میڈل (تمغہ)، ڈاکٹر بیرن رائے اسپیس ایوارڈ،جی ایم مودی ایوارڈ برائے سائنس خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
انہوں نے خود یا دوسروں کے ساتھ مل کر کئی درجن کتابیں اور کتابچے لکھے۔ ان میں ان کی کتاب ’’Ignited Minds: Unleashing the Power within India‘‘کوسب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔
آج ہمارا ملک ان کی دکھائی گئی راہ پر گامزن ہے۔امید کی جانی چاہیے چند سالوں میں اس کا شمار کلیدی ترقی یافتہ ممالک میں ہونے لگے گا۔ڈاکٹر کلام کے ترغیبی پیغامات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان کے در ج ذیل چند پیغامات ہمارے سائنس دانوں،نو جوانوں، طلبا اور عام لوگوں کے لیے آج بھی اتنی ہی اہمیت کے حامل ہیںجتنے ان کی زندگی میں تھے۔ ان کے ان پیغامات پر عمل کر کے ہم سب بڑی سے بڑی کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔
’’تکلیف اٹھائے بغیر (یعنی محنت کیے بغیر) کامیابی ممکن نہیں۔‘‘
’’تمام چڑیاں بارش میں سایہ تلاش کرتی ہیں لیکن عقاب بادلوں سے اوپر اٹھ کر اڑان بھرتا ہے۔‘‘
’’تب تک خواب دیکھتے رہیے جب تک انہیں عملی شکل دینے کا موقع نہ ملے۔‘‘
’’خواب وہ نہیں ہیں جو ہم سوتے میں دیکھتے ہیں، خواب وہ ہیں جو ہمیں سونے نہیں دیتے۔‘‘
’’جب تمہاری نظر بلب پر پڑے تو ایڈیسن کو یاد کرو، جب ٹیلیفون کی گھنٹی بجے تو الیگزینڈر گراہم بیل کو یاد کرو، جب تم نیلے آسمان کو دیکھو تو سی وی رمن کے بارے میں سوچو۔۔۔‘‘
’’ہماری مضبوط قوت ارادی ہماری کامیابی کی ضامن ہے۔۔۔‘‘
آج ہمارے سائنسداں عقاب کی طرح بادلوں سے اوپر اٹھ کر اڑان بھر رہے ہیں اور چاند ان کے دائر ہ ٔپرواز میں آچکا ہے ،سورج بھی جلد اسی دائرہ میں شامل ہو جائے گا۔۔
یاد آئیں گے ہم تم کو اے اہل جہاں اکثر
ہم نے رخ ہستی پر وہ نقش ابھارے ہیں
میرے دیش واسیو! مجھے بھول مت جانا اور نصابی کتابوں میں سے میرا نام کبھی مت ہٹانا اور نہ ہٹانے دینا! میں بھی مولانا آزاد کی طرح آزمودہ سچا ہندوستانی مسلمان ہوں۔
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]