شاہد زبیری
فلسطین اوراسرائیل کا تنازع مغربی طاقتوںا ور امریکہ کی دین ہے آج بھی یوروپ اور امریکہ جیسی سپرطاقتیں اس میں گھی ڈال رہی ہیں، ان طاقتوں نے ماضی کی طرح دورحاضر میں عراق اور افغانستان وغیرہ میں جس طرح انسانیت کے چیتھڑے اُڑائے اور انسانیت کی تذلیل کی وہ تاریخِ انسانی کا انتہائی شرمناک اور سیاہ باب ہے اور ان طاقتوں کی عالمی سطح پر دہشت گردی کا واضح ثبوت ہے ۔یہ طاقتیں اپنی ظالمانہ کرتوتوںپر پردہ ڈالنے کیلئے پوری دنیا کو گمراہ کر نے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ ایشیا اور عالم عرب کو ان طاقتوں نے جنگ کا میدان بنا رکھا ہے اور یہ طاقتیں ہتھیاروں کی کھیپ کھیپ دنیا بھر میں فروخت کررہی ہیںاور موت بانٹ رہی ہیں،جس کوباقی دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی اور مہر بہ لب ہے ۔یہ طاقتیں جس کو چاہیں ظالم ثابت کردیں اور جسے چاہیں مظلوم بتادیںاور جس کو چاہیں دہشت گرد قرار دے کر قابل گردن زدنی قرار دیدیں اس معاملہ میں ان طاقتوں کا دہرا پیما نہ ہے جو فلسطین اور اسرائیل میں جاری جنگ میں بھی دکھائی دے رہا ہے ۔
تاریخ گواہ ہے کہ ان توسیع پسندانہ اور نو آباد یاتی (Colonial) نظریہ رکھنے والی طاقتوں نے ہندوستان میں کس طرح اپنے پیر جمائے تھے اور کیسے روح کوکپا دینے والے مظالم آزادی کے پروانوں پر ڈھائے تھے ،ان طاقتوں نے ہی عالمی جنگ کے بعد خلافت عثمانیہ کے حصّے بخرے کر کے ارضِ فلسطین پر اپنا تسلط قائم کیا تھا اور 1947میں اقوامِ متحدہ کی ایک قرار داد کے ذریعہ ارضِ فلسطین کے نصف سے زیادہ کے حصہ پر اسرائیل نام کے نسل پرست ملک کو وجود بخشا تھا اور ایک نسل پرست حکومت کی بنیاد ڈالی تھی اور 1948 میں یوروپ اور امریکہ کے یہودیوں کا قبضہ کرا یا تھا ۔ اس وقت مہاتما گاندھی تک نے اس کی مخالفت کی تھی حالانکہ مہاتما گاندھی یہودیوں پر ڈھائے گئے ہٹلر کے مظالم کے سبب یہودیوں سے بھی ہمدردی رکھتے تھے، لیکن کسی کے گھر میں کسی دوسرے کے غاضبانہ قبضہ کی گاندھی جی نے شدید مخالفت کی تھی نہرو سمیت اس وقت کی کانگریسی قیادت اور ہندوستانی حکومتیںہی نہیں یہاں کی عوام بھی اس غاضبانہ قبضہ کو اصولی طور پر غلط ٹھہراتی ر ہی ہیں اور فلسطین کی آزادی کے مطالبہ کی حامی رہی ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے چوٹی کے رہنما اور ملک کے وزیر اعظم آنجہانی اٹل بہاری باجپئی بھی شدت سے اسی موقف پر ڈٹے رہے ۔فلسطین کی حمایت ہماری خارجہ پالیسی کا حصہ تھی ۔ فلسطین کی آزادی کے قائد پی ایل او اور الفتح کے رہنما یاسر عرفات ہندوستانی نوجوانوں کے آئیڈیل تھے ۔ ہر چند کہ یاسر عرفات فلسطین کی آزادی کیلئے مسلح جدو جہد کرتے رہے، لیکن بعد میںوہ بھی مسئلہ کو بات چیت کی میز پرحل کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا اور امن کے پیامبر بن کر ابھرے ان کو نوبل پرائز بھی ملا ۔
فلسطین کی آزادی کی جدو جہد میں یہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جہاں سے الفتح فلسطینیوں میں کمزور پڑنے لگی، اس کی جگہ لینے کیلئے حماس جیسی مزاحمتی جنگجو تنظیم ابھر آئی اس کی مقبو لیت بڑھ گئی۔دوسری طرف اس طویل عرصہ میں کوئی دن ایسا نہیں گزرا کہ اسرائیلی فوجیوں نے فلسطین کے باقی بچے ٹکڑے پر آباد بے گناہ شہریوں کو اپنی بر بریت کا نشانہ نہ بنایا ہو۔ ویسٹ بینک کا علاقہ ہو یا غزہ، اسرائیل کے مظالم بڑھتے رہے، فلسطینیوں کی آبادیوں میں اسرائیلی فوج غاضبانہ تسلط قائم کرتی رہی اور یہودیوں کی بازآبادکاری کا سلسلہ جاری رہا اور غزہ پٹی پر یہودی بستیاں آباد کی جاتی رہی ہیں لیکن دنیا کا ضمیر نہیں جا گا۔ اسرائیل کی دہشت گردی کے آگے عام طور پر عرب حکمرانوں نے بھی پسپائی اختیار کر لی اور کچھ نے در پردہ اور کچھ نے کھلے طور پر اسرائیلی حکومت سے پینگیں بڑھا ئی، فلسطین اور مسلمانوں کا قبلہ اول بیت المقدس کی آزادی کی جدو جہد بھی کمزور پڑگئی ،جس کیلئے دنیا بھر کے مسلمان ہر نماز میں دعائیں مانگتے آ رہے ہیں، ہر سال ماہ رمضان کے جمعۃ الوداع کو دنیا بھر کے مسلمان یوم القدس کے طور مناتے ہیں، لیکن اب عرب حکمرانوں نے اپنے نجی مفادات اور کچھ بڑی طاقتوں کی ایماء پر فلسطین اور بیت القدس کی آزادی کی طرف سے آنکھیں پھیر لی ہیں اور تنازع کا دیر پا اور پُر امن حل نکالنے کی بجا ئے شتر مرغ کی طرح ریت میں گردن چھپالی ہے ۔عرب حکمرانوں کے اس مذموم وطیرہ کے بارے میں آج یہ تاثر مسلمانوں میںعام ہے ۔حد تو جب ہو گئیں،جب عرب حکمرانوں نے نتن یاہو جیسے زائنسٹ اور انتہا پسند یہودی کی سرکار سے امریکہ بہادر کی ایما ء اور تنبیہ پر معاہدے کرنا شروع کردئے ،تازہ معاہدہ ابراھیم اسارڈ Ibraham Assord)) جس کو امن سمجھوتہ کہاگیا جو پہلے یو اے ای اور بحرین حکو مت کے ساتھ کیا گیا اور اب باری سعودی حکومت کی تھی ،معاہدہ سے متعلق سعودیہ میں ایک کانفرنس میں اسرائیلی نمائندے بھی شریک ہوئے تھے۔ان سب کو لے کر فلسطین کی ایک بڑی آبادی کے اندر ہی اندر عرب حکمرانوں اور اسرائیل کے خلاف لاواپک رہا تھا ،جس کا فائدہ اٹھاکر حماس نے اپنی پوری تیاری کے ساتھ اسرائیل پر دھاوا بول دیا ۔ اس حملہ میںحماس نے 150اسرائیلی گرفتار کر رکھے ہیں، دھیان رہے اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جس کے ہر مرد اور عورت کو فوجی ٹریننگ لینی لازمی ہے جو سرحد پر نہیں ہے وہ بھی فوجی ہے، اس کا ایک بڑا دفاعی بجٹ ہے اس کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، جبکہ فلسطین کی سرکار کو فوج رکھنے کی بھی اجازت نہیں ہے ،اس کی اپنی کوئی فوج نہیں ہے اوراس کا کوئی دفاعی بجٹ بھی نہیں ہے۔
فلسطین میں کئی مزاحمتی گروپ رہے ہیں جو اپنے ملک کی آزادی کی مسلح جدو جہد کرتے رہے ہیں حماس ایک ایسا ہی جنگجو مزاحمتی گروپ ہے۔امریکہ بہادر اور یوروپ اس کو دہشت گرد بتاتا ہے ہماری حکومت نے ابھی تک حماس کو دہشت گرد قرار نہیں دیاہے ، لیکن وزیر اعظم نریندر مودی نے حماس کے حملہ کو دہشت گردانہ حملہ قرار دیا اور کہا کہ ہندوستان اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے ،جبکہ عالم ا سلام فلسطین اور حماس کی حمایت کررہا ہے اور حماس کو دہشت گرد نہیں مانتا، فلسطین کی آزادی کیلئے مسلح جدو جہد کرنے والی تنظیم سمجھتا ہے جیسا کہ دنیا میں آزادی کی جدو جہد کر نے والی دیگر مسلح تنظیمیں اور گروپ ہیں۔حماس کے حملہ کو عالمِ اسلام ہی نہیں یوروپ اور امریکہ کو چھوڑ کر باقی دنیا ’تنگ آمد بجنگ آمد ‘کے مصداق سمجھتی ہے تاہم باوجوداس کے حماس کا یہ حملہ دہشت گرد ہی کہلایا جا ئے گا اس میں بے گناہ انسانوں کی جا نیں گئی ہیں۔
کوئی بعید نہیں یہ حملہ نتن یاہو نے اسرائیل میں جاری شورش کی وجہ سے اپنی کرسی بچانے اور کرپشن کے الزام میں جیل جانے سے بچنے کیلئے حماس سے خود ہی کرا یا ہو، اسرائیل پہلے سے یاسر عرفات اور ان کی تنظیم پی ایل اور الفتح کو کمزور کر نے کی کوشش کرتا آرہا ہے ،اس نے یاسر عرفات کے ذریعہ کیے گئے جنگ بندی معاہدہ اوسلوکی بھی خلاف ورزی کی ہے اورمسلسل بے گناہ فلسطینیوں جن میں شیر خوار بچے خواتین اور سن رسیدہ بزرگ بھی شامل ہیں موت کے گھاٹ اتارتا آ رہا ہے ورنہ کیا وجہ ہے کہ آخر اسرائیل کی سب سے ترقی یافتہ اور خونخوار خفیہ ا یجنسی جو اسرائیل کے دشمنوں کو ہلاک کرنے کے کوئی مواقع ہاتھ سے نہیں جانے دینا چاہتی اس کو بھی حماس کے حملہ کی بھنک نہیں لگی؟۔حماس کے حملہ کی آڑ میں اسرائیل فلسطین کے باقی غزہ کے حصہ پر بھی اپنے خونی پنجے گاڑنا چاہتا ہے اور غزہ کے اس ٹکڑے کو بھی اسرائیل کا حصہ بنا ناچا ہتا ہے۔ جوابی کارروائی میں اسرائیل نے وحشت ،بر بریت اور درندگی کی ساری حدیں پار کردی ہیں درندگی اور وحشت کے اس کھیل کو 10دن ہو نے والے ہیں یو این او میںسوائے بیان دینے کے کچھ اور کر ہی نہیں سکتا روس نے پہل کی ہے اس نے اسرائیل کی درندگی کے خلاف یو این او ایک قرار داد پیش کی ہے دیکھئے اس کا کیا حشر ہو۔ امریکہ نے اسلحہ بارود کا بڑا ذخیرہ اسرائیلکو بھیجا ہے۔ایک جنگی جہاز بھی سرائیل کی مدد کو سمندر میں تیارکھڑا ہے ۔
اسرائیل اچھی طرح جانتا ہے کہ درندگی اور وحشت کی چاہے وہ کتنی حدیں پار کر لے فلسطینیوں کے جذبہ حریت کو ختم نہیں کر سکتا ۔ حماس کے حملہ کی آڑ لے کر نتن یاہو کی ظالم سرکار فلسطینیوں پراسی طرح مظالم ڈھا رہی ہے جس طرح ہٹلر نے یہودیوں پر ڈھائے تھے اس کا بدلہ اسرائیل بے گناہ فلسطینی مسلمانوںسے لے رہا ہے ۔تازہ حملوں میں اسرائیل کے بمبار طیاروں نے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اسرائیلی طیارے انتہائی خطرناک وہائٹ فاسفورس بم گراکر زہریلی گیس سے غزہ کے لوگوں کاگلا گھونٹ کر ہلاک کر رہے ہیں۔ بجلی پانی کے کنکشن کاٹ دیے گئے رسد نہیں پہنچنے دی جا رہی ہے اسرائیل ان بے گناہوں پر بھی بمباری کر رہا ہے جو اسرائیل کی دھمکیوں کے بعد گھر بار چھوڑ کر نامعلوم منزل کی طرف نکل پڑے ہیں۔ کیا غزہ اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کیلئے ’’ہولو کاسٹ‘‘بننے والا ہے ؟
[email protected]
اسرائیل غزہ کو ’ہو لو کاسٹ‘ بنا نا چاہتا ہے ؟: شاہد زبیری
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS