آخر کار الیکشن کمیشن نے ملک کی پانچ ریاستوں کے الیکشن کی تاریخوں کا اعلان کر دیا۔ 7نومبر سے 23نومبر تک مختلف تاریخوں میں انتخابات ہوں گے۔ ان ریاستوں میں سیدھا مقابلہ کانگریس اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے درمیان ہے۔ کانگریس کی پالیسی اور مدعا بہت واضح ہے۔ کانگریس کے رہنما راہل گاندھی نے کنیا کماری سے کشمیر تک پیدل چل کر ’’بھارت جوڑو‘‘ یاترا تین مہینے میں مکمل کی۔ ابھی یہ یاترا جاری ہے، حالانکہ اس کی شکل پہلے جیسی نہیں ہے۔
راہل گاندھی مختلف شعبۂ حیات کے لوگوں کے پاس جاتے ہیں ، ان کا حال چال معلوم کرتے ہیں، ان کے مصائب و مشکلات جاننا چاہتے ہیں۔ عام لوگوں کی طرح بات چیت کرتے ہیں۔ ان کے ساتھ بیٹھ کر چائے پیتے ہیں۔ کھانے کا وقت ہوتا ہے تو ایک ساتھ مل کر کھاتے ہیں۔ ان کے اس انداز کو بے حد پسند کیا جارہا ہے۔ عام لوگ راہل گاندھی کے کردار و گفتار سے کافی متاثر ہورہے ہیں۔ دو چار دنوں پہلے انھوں نے پنجاب کے گولڈن ٹیمپل میں تین دن گزارے۔ برتن دھونے سے لے کر جوتے صاف کرنے تک کی خدمت انجام دی۔ اس سے سکھوں میں خوشی اور مسرت پیدا ہوئی اور کانگریس کے سلسلے میں جو تھوڑی بہت کدورت پائی جاتی تھی وہ بھی دور ہوتی نظر آئی۔ اس طرح راہل گاندھی کے نئے انداز اور نئے رویے سے بھارت جوڑنے یا مختلف فرقوں میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ایک غیر معمولی کوشش کہی جائے گی۔ در اصل بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کی اس پالیسی کے خلاف یہ انتہائی مؤثر قدم ہے، جس سے سنگھ پریوار ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتا ہے اور فرقوں کو خاص طور پر ہندو مسلمان کو لڑاکر ملک میں حکمرانی کا غیر معینہ مدت تک خواب دیکھ رہا ہے۔ سنگھ پریوار کی انسانیت سوز پالیسی اور انسانیت دشمن پالیسی کا اس سے بہتر جواب شاید ہی کچھ اور ہوسکتا ہے۔
کانگریس نے دوسرا بڑا قدم یہ اٹھایا ہے کہ 28پارٹیوں کو ملاکر ’انڈیا‘ اتحاد کی تشکیل کی۔ انڈیا اتحاد کے نام اور کام سے بی جے پی بیحد پریشان ہے۔ خاص طور پر سنگھ پریوار کے مکھیا نریندر مودی کو اتحاد کو کمزور کرنے کی ہر کوشش ناکام ثابت ہورہی ہے۔اس اتحاد کو ایسے ایسے ناموں سے پکار رہے ہیں جس سے ان کے ذہنی انتشار کا پتہ چلتا ہے۔ جیسے ’بھارت جوڑو یاترا‘ کا جواب ان کے پاس بھارت توڑو کے سوا کچھ نہیں ہے۔ اسی طرح 28 سیاسی پارٹیوں کے اتحاد کا جواب انتشار کے سوا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
راہل گاندھی نے او بی سی (Other Backward Classes)کا مدعا پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر بہت ہی زور و شور اور مؤثر طریقے سے پیش کیا ہے۔ انھوں نے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر بتایا ہے کہ مرکزی حکومت کے 28، 29 سکریٹریز میں سے صرف 3 اوبی سی کٹیگری کے ہیں۔ بی جے پی کئی ریاستوں میں حکمراں ہے، لیکن صرف ایک ریاست میں ان کا وزیر اعلیٰ اوبی سی سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ بھی چند دنوں میں رخصت ہونے والا ہے۔ ان کا اشارہ مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان کی طرف ہے۔ اس کے برعکس کانگریس کی چار ریاستوں میں حکومت ہے۔ ان میں سے تین ریاستوں میں وزرائے اعلیٰ اوبی سی سے تعلق رکھتے ہیں؛ یعنی راجستھان، کرناٹک اور چھتیس گڑھ کے وزرائے اعلیٰ۔
راہل گاندھی کی اوبی سی کی طرف توجہ اور مہم در اصل منڈل 2 کہا جائے گا۔ منڈل I کے جواب میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے کمنڈل کی مہم شروع کی تھی۔ ملک کے مختلف گوشوں میں یاترائیں شروع کی تھیں۔ رام مندر کی تعمیر کی مہم تھی جو اب انجام پذیر ہوگئی ہے۔ جنوری میں مندر کی تعمیر بھی مکمل ہوجائے گی۔ یہ مدعا بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ سے جاتا رہا۔ دیگر مدعے وقتاً فوقتاً جو بھارتیہ جنتا پارٹی اٹھاتی رہی ہے اس میں بھی اب جان باقی نہیں ہے۔ کانگریس کی ورکنگ کمیٹی نے او بی سی کے مدعے پر مہر لگادی ہے۔ اس طرح کانگریس کی واضح پالیسی ملک کے سامنے آگئی ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس 2019 میں جب کوئی مدعا نہیں تھا تو پلوامہ میں چالیس فوجیوں کے ہلاک ہونے کا مدعا زور شور سے اٹھایا، جس کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی ہاری ہوئی بازی جیت گئی۔ (عبدالعزیز کے آرٹیکل سے ماخوذ)
5ریاستوں کے الیکشن میں اپوزیشن کی حکمت عملی کیا ہوگی
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS