آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت: وجہ القمر

0

وجہ القمر
ہندوستان میںنفرت کی سیاست بہت پرانی ہے اور دن بدن اس میں اضافہ ہوتا ہی جا رہا ہے،ایسا نہیں کہ اس میںکسی ایک طبقہ یا پارٹی کے لیڈرشامل ہیں جو آئے دن طرح طرح کی غلاظت اگلتے رہتے ہیں ، بلکہ اس میں تمام طبقات اور تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈران شامل ہیں،جوہردن کسی نہ کسی طریقے سے ملک کے لوگوں کو بھڑکانے کاکام کرتے ہیں تاکہ ان کوسیاسی فائدہ حاصل ہو۔یہ الگ بات ہے کہ اس میں این ڈی اے کے لیڈران زیادہ سبقت لیتے دکھائی دیتے ہیںاوران کی تعداد دن بدن بڑھتی جارہی ہے،کیو نکہ این ڈی اے اتحاد کی سب سے بڑی پارٹی بی جے پی کی ایک خاصیت ہے کہ اس کے لیڈران جب نفرت انگیزتقریراورتبصرے کرتے ہیں تو پارٹی بجائے اس پرقد غن لگانے کے اپنا فائدہ اور نقصان دیکھتی ہے اگر کچھ بھی فائدہ ہونے والا ہے توجس لیڈر نے مغلظات کی بارش کی ہے اس کا پر موشن کردیا جا تا ہے اور جن سے فائدہ نہیں ہوتا ہے ان کو پارٹی سے سائڈ لائن کر دیاجاتا ہے،مثلاًاترپردیش کے وزیر اعلی آدتیہ ناتھ یوگی مسلسل نفرت انگیزتقریراورتبصرے کرتے رہے ہیں، مگرآج تک ان کے خلاف کوئی بھی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ انہیں انعام کے طور پر اترپردیش کا وزیر اعلی بنا دیاگیا،اسی طرح انوراگ سنگھ ٹھاکر، گری راج سنگھ،پرویش ورما اوررمیش بدھوڑی وغیرہ ہیںجنہوں نے کئی جگہ اقلیتوں کو مخاطب کرکے نفرت انگیزتقریراورتبصرے کئے،لیکن کسی طرح کی کارروائی نہیں کی گئی بلکہ ا ن کے بیانات دینے کے بعد ان کی عزت افزائی کی گئی۔ اس کے بر عکس نپور شرما، نوین کمار،اننت کمار ہیگڑے، شوبھا کرندلاجے، تتھاگتا رائے، پرتاپ سمہا، ونے کٹیار،ڈاکٹر مہیش شرما، ٹی راجہ سنگھ، وکرم سنگھ سینی، ساکشی مہاراج اور سنگیت سوم وہ لیڈرہیںجنہوںنے اپنی سیاست چمکانے کیلئے نفرت انگیزتقریراورتبصرے کئے ،مگر ان کے بیانات کا پارٹی کو اتنا فائدہ نہیں ہوا جتنی پارٹی کو ضرورت تھی،اس لئے آج یہ لیڈر پارٹی کے تمام اسٹیج سے غائب ہیں اور یہی وجہ ہے کہ بی جے پی کے لیڈران نفرت انگیزتقریراورتبصرے میں پہلے مقام پر دکھا ئی دیتے ہیں بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ ہوڑبھیڑ اورمقابلہ آرائی لگی رہتی ہے تاکہ اس کے ذریعہ انہیں پر موشن یا کوئی عہدہ مل جا ئے جو پورے ملک کے لئے بہت خطرناک ہے۔
این ڈی ٹی وی نے اپنے ایک سروے میں اعلیٰ درجے کے سیاست دانوں کی طرف سے نفرت انگیزتقریروتبصرے اور تفرقہ انگیز زبان کے استعمال کر نے پراپنے تجزیے کو دوٹائم پیریڈزپر رکھ کر جانچ اور پرکھ کی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ کس کے دورحکومت میں کتنے اور کس پارٹی کے بڑے لیڈروںنے نفرت انگیزتقریر و تبصرے کاطریقہ اپنی مقبولیت یا سرخیوں میں بنے رہنے کے لئے استعمال کیا۔ رپورٹ کے مطابق یوپی اے دوم کے دور اقتدارمیں2009سے 2014 تک 21 واقعات نفرت انگیزتقاریر و تبصرے کے سامنے آئے ، جن میں سے 3 کانگریس ہی کے لیڈروں نے نفرت انگیز تقریرو تبصرے کئے تھے، جبکہ اس معا ملے میں حزب اختلاف کے لیڈربرسراقتدار حکومت سے کہیں زیادہ بازی مار لے گئے اورحزب اختلاف کے لیڈروں میں سے بی جے پی کے سیاست دانوں نے اس معا ملے میں سب سے زیادہ سبقت لے لی اور21 معا ملوں میں سے 7نفرت انگیز تقاریر وتبصرے کے واقعات بی جے پی کے لیڈروں کی جانب سے ریکارڈ کیے گئے۔اسی طرح یوپی اے دوم کے دوراقتدارمیںحمایت کرنے والی11سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے بھی نفرت انگیز تقاریر اورتبصرے کے معا ملے میں اپنا اہم رول ادا کیا،جس میں سماج وادی پارٹی، بہوجن سماج پارٹی، مجلس اتحاد المسلمین ، ڈی ایم کے اور این سی پی کے سیاستداں شامل ہیں، جبکہ 2014 سے اب تک مودی حکومت کے 9 سالہ دور اقتدار میں 45 سیاست دانوں کے ذریعہ وی آئی پی نفرت انگیز تقاریر کے 204 واقعات ہوئے ہیں،جس میں سے صرف 13واقعات کوچھوڑ کرباقی سارے واقعات بی جے پی کے سینئر لیڈروں کے ذریعہ ہوئے ہیں،مگر آج تک کسی بھی بی جے پی لیڈر کے خلاف نفرت انگیز تقریر کے معا ملے میں کوئی کارروائی نہیں کی گئی،البتہ اپوزیشن کے کئی لیڈروں کی سابقہ نفرت انگیز تقاریر وتبصرے کے معا ملے میں ممبر پارلیمنٹ کی رکنیت اور کچھ کی تو ممبراسمبلی کی رکنیت بھی چلی گئی،جس میں کانگریس کے راہل گاندھی اور سماج وادی کے سینئر لیڈر اعظم خاں وغیرہ شامل ہیں۔ این ڈی ٹی وی نے سروے کر کے جو ڈاٹا اکٹھا کیا ہے،اس میں ایک طریقہ سے مذکورہ سروے میں صرف سینئر لیڈروں کے نفرت انگیز تقاریرشامل کی گئی ہیں، جس میں رکن پارلیمنٹ، وزیر، ایم ایل اے اوروزیر اعلیٰ کی نفرت انگیز تقاریر اور تبصرے شامل ہیں، اس میںدوسرے صف کے لیڈروں کو شامل نہیں کیاگیا ہے، کیونکہ اگرتمام چھوٹے بڑے لیڈروں کو شامل کر لیا جائے تویہ ایک لمبی فہرست بن جائے گی اورسب پرتجزیہ ممکن نہیں ہوپائے گا۔مذکورہ سروے سے پتا چلتا ہے کہ اعلیٰ درجے کے سیاست دانوں کی طرف سے نفرت انگیز اور تفرقہ انگیز زبان کے استعمال میں پچھلے 9سالوں میں تقریباً 500 فیصد اضافہ ہوا ہے اورایسا لگتا ہے کہ کوئی دن یاکوئی ہفتہ ایسا نہیں گزرا ہوگا کہ کسی بھی سینئر سیاستداں نے نفرت انگیزتقریراورتفرقہ انگیز زبان کا استعمال نہ کیا ہو اوران میں سے اکثربیانات ایسے ہیں کہ ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 295A (مذہبی جذبات کو مشتعل کرنا)،دفعہ 153(گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) یادفعہ505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والے بیانات دینا) جیسے قوانین کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے ،لیکن ابھی تک کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ہے، کیو نکہ اس میں زیادہ تر بی جے پی کے لیڈران شامل ہیں ۔
نپورشرماکی بد کلامی کے بعدجب یو اے ای، اردن، انڈونیشیا اوراو آئی سی نے احتجاج کیا تو دکھانے کیلئے بی جے پی نے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے اپنے 38 لیڈروں کی شناخت کی اور اسی وقت ان میں سے 27 منتخب رہنماؤں کو ہدایت دی کہ وہ ایسے بیانات دینے سے گریز کریں اور یہ بھی کہا تھا کہ انہیں مذہبی مسائل پر بیان دینے سے پہلے پارٹی سے اجازت لینی ہو گی۔بی جے پی نے اس موقع پر جن لیڈروں کوہدایت دی تھی ان میں نپورشرما،نوین کمار،اننت کمار ہیگڑے، شوبھا کرندلاجے، گری راج سنگھ، تتھاگتا رائے، پرتاپ سمہا، ونے کٹیار،ڈاکٹر مہیش شرما، ٹی راجہ سنگھ، وکرم سنگھ سینی، ساکشی مہاراج اور سنگیت سوم وغیرہ شامل ہیں،مگر پھر بھی یہ سلسلہ نہیں رکا۔
واشنگٹن میں اقلیتوں پر حملوں کی نگرانی کرنے والے گروپ ہندوتواواچ کی ایک رپورٹ کے مطابق2023کی پہلی ششماہی رپورٹ کے اندر ہندوستان میں مسلم مخالف نفرت انگیز تقاریر کے واقعات اوسطاً ایک دن میں ایک سے زیادہ تھے اورجن ریاستوں میں انتخابات ہورہے ہوں وہاں نفرت انگیز تقاریر اور تبصرے سب سے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔کچھ مہینے پہلے شائع ہونے والی رپورٹ میں ایک بہت بڑا انکشاف کیا گیا تھا کہ 2023 کی پہلی ششماہی رپورٹ میں جو نفرت انگیزتقاریر،تبصرے اورتفرقہ انگیز زبان استعمال کی گئیں اس میں سب سے زیادہ مسلمانوں کے خلاف تھیںجوتقریباً 255 واقعات پرمشتمل تھیں۔مذکورہ رپورٹ میں مواصلات کی کسی بھی شکل کے طورپر استعمال کی گئی زبان کو شامل کیا گیاہے،جیسے مذہب نسل، قومیت نسل، رنگ نسل، جنس، یا دیگر صفات کی بنیاد پر کئے گئے تقاریر اورتبصرے شا مل ہیں۔رپورٹ کے مطابق تقریباً 70 فیصدواقعات2022 اور2023 کے مختلف ریاستوںمیںہونے والے انتخابات کے جلسوں اور ریلیوں میں دیے گئے بیانات ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقاریروتبصرے کے 80 فیصد واقعات وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت والی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتوں والی ریاستوں میںپیش آئے۔رپورٹ میں بتایا گیا کہ ان میںمہاراشٹر، کرناٹک، مدھیہ پردیش، راجستھان اور گجرات جیسی ریاستیں شا مل ہیں،جبکہ مہاراشٹر میں سب سے زیادہ ایسے واقعات اور بیانات دیے گئے اور ان پورے معا ملات کے 29 فیصدبیانات یہیں کے لیڈروں اور یہیں کے پلیٹ فارم سے دیے گئے۔
ان تمام سروے اور رپورٹوں کو دیکھنے کے بعد میںلوگوں سے بشیر بدر کے اس شعر کے ساتھ گزارش کروں گا کہ
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت

 

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS