ڈاکٹر محمد ضیاء اللّٰہ
فلسطین کی معروف تحریک مقاومتِ حماس کی مسلح جماعت عزالدین القسام بریگیڈ نے شنبہ کی صبح اسرائیل پر جو حملہ کیا ہے وہ کئی اعتبار سے تاریخی اور بے مثال ہے۔ تقریباً تمام تجزیہ نگار اور صحافی اس بات پر اتفاق رکھتے ہیں کہ ’القسام‘ بریگیڈ کا یہ حملہ اپنی نوعیت میں بالکل انوکھا، حیرت زدہ کردینے والا اور صہیونی خیمہ میں گھبراہٹ اور خوف کی نفسیات پیدا کرنے والا ثابت ہوا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ حماس نے اسرائیل کی جنگی حکمت عملی کے تمام تر قواعد کو ہی بے معنی بنا کر رکھ دیا ہے۔ گزشتہ 70 برسوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ صہیونی ریاست نے اتنے کم وقت میں اتنی بڑی تعداد میں جانی قیمت چکائی ہے۔ اس ناکامی کا جائزہ لینے کے لئے جب اسرائیل کے قائدین ،فوج اور انٹلی جنس کے اعلیٰ افسران بیٹھے تو کوئی بھی ذمہ داری لینا نہیں چاہ رہا تھا اور سب ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرا رہے تھے اور آپس میں ہی جھگڑ رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہی منظر سامنے ہے جب عہد نبویؐ میں یہودیوں کی مسلسل شرارت اور عہد شکنی و غداری کی وجہ سے انہیں مدینہ سے نکالا گیا تھا تو کیسے وہ مایوس ہوگئے تھے اور اپنے گھروں کو اپنے ہی ہاتھوں سے توڑ رہے تھے۔ قرآن نے اس کی بڑی ہی عبرت آمیز تصویر کشی ہے، لیکن آج کے اسرائیل کے پورے واقعہ کو سمجھنے کے لئے سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ خود اسرائیل کے معتبر اخبارات کے ذریعہ سمجھا جائے کہ حماس کے اس حملہ نے کس طرح سے اسرائیل کی سیاسی اور عسکری قیادتوں کو سکتہ میں ڈال دیا ہے۔ تقریباً تمام اسرائیلی اخبارات کا ماننا ہے کہ پورے ملک پر صدمہ کی کیفیت طاری ہوگئی ہے اور وہ سمجھ نہیں پا رہے ہیں کہ ایسا کیسے ہوگیا؟ جبکہ ان کے پاس بہترین ہتھیاروں سے لیس فوج اور پولیس موجود ہیں جنہیں نہایت مضبوط اور موثر انٹلیجنس کا نظام سپورٹ کرتا ہے۔ اس گھبراہٹ اور صدمہ کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے اسرائیل کا اخبار ’ہاریز‘ لکھتا ہے کہ حماس کی مسلح جماعت کے اچانک گْھس آنے اور بڑے پیمانہ پر دھماکہ خیزی کی وجہ سے اسرائیل صدمہ میں چلا گیا ہے، کئی لوگ مارے جا چکے ہیں، سیکڑوں زخمی ہو گئے ہیں اور نامعلوم تعداد کو اغوا کر لیا گیا ہے۔ اسرائیل کے ایک دوسرے اخبار’معاریف‘ نے اس صدمہ کی کیفیت پر جو مختلف عناوین لگائے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ صورتحال بہت خراب ہیں۔ اس اخبار نے حماس کے حملہ کو اسرائیلی انٹلیجنس ایجنسیوں کی سخت ناکامی پر محمول کیا ہے اور یہ بتایا ہے کہ فلسطینی مقاومت کی تحریکوں کے اس حملہ نے صرف اسرائیل کو ہی حیرت و استعجاب کی کیفیت میں مبتلا نہیں کیا ہے بلکہ دنیا بھر کے عسکری پہلوؤں پر غور کرنے والے دماغوں کو حیرت زدہ کر دیا ہے۔ اخبار نے اپنی اس رائے کی تائید میں بین الاقوامی پیمانہ پر جو ردعمل سیاست اور میڈیا کی سطح پر سامنے آئے ہیں ان کو دلیل کے طور پر پیش بھی کیا ہے۔ ’یروشلم پوسٹ‘ نے تو اس سے بھی بڑھ کر یہ بات کہی ہے کہ حماس کا یہ حملہ بالکل انوکھا ہے اور اس سے قبل اس کی کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ اخبار کا کہنا ہے کہ جب سے حماس کو غزہ میں اقتدار حاصل ہوا ہے تب سے لے کر آج تک اسرائیلیوں نے ایسا نظارہ نہیں دیکھا تھا۔ یہ حملہ اس اعتبار سے بالکل بے مثال ہے کہ اچانک سے اس حملہ کو انجام دیا گیا ہے اور بیک وقت میزائلوں سے حملے کے گئے اور ٹھیک اسی لمحہ برّی راستوں سے بھی حملہ شروع کیا گیا۔ اسرائیل کا ایک اور معتبر اخبار’یدیعوت احرونوت‘ ہے۔ اس نے بھی اسرائیل میں طاری خوف و دہشت کی تصویر پیش کی ہے اور لکھا ہے کہ غزہ کے ارد گرد کے علاقوں میں واقع وہ صہیونی آبادکاریاں جنہیں غلاف غزہ کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں بسنے والے اسرائیلیوں پر شدید گھبراہٹ چھائی ہوئی ہے۔ احرونوت نے بعض صہیونی آبادکاروں کے حوالہ سے بتایا ہے کہ ’القسام‘ بریگیڈ کے جنگجو ان کے گھروں میں آزادی سے گھوم رہے ہیں۔ بعض اسرائیلیوں نے اس بات کی بھی شکایت کی ہے کہ اسرائیلی فوج کا کہیں اتا پتا نہیں ہے۔ لوگ ان سے مدد مانگ رہے ہیں لیکن ان کی طرف سے کوئی جواب تک نہیں آ رہا ہے۔ اس کے علاوہ ’ٹائم آف اسرائیل‘ نے تو اسرائیل کی فوج اور اس کے انٹلیجنس اداروں کی کار کردگی پر ہی سوال کھڑا دیا ہے اور اسرائیلی تجزیہ نگاروں کے حوالہ سے بتایا ہے کہ یہ بدترین قسم کی فوجی اور انٹلی جنس سطح کی ناکامی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیلی بحریہ کے سابق کمانڈر ’ایلی مارون‘کا قول نقل کیا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ واقعہ ناکامی سے زیادہ بڑی بات ہے اور اس کے نتائج بہت بھیانک ہوں گے۔ آخر ایسا کیوں ہے کہ اسرائیل کے تجزیہ نگاروں سے لے کر تمام اخبارات و رسائل کے ایڈیٹران یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ صہیونی ریاست کی یہ سب سے بڑی ناکامی ثابت ہوئی ہے؟ اس کے کئی اسباب ہیں، لیکن بنیادی طور پر ان میں سے دو کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اسرائیل اب تک جتنی جنگیں لڑا ہے وہ اپنی سرحدوں کے باہر لڑا ہے اور اسی لئے اس کی فوج اور انٹلیجنس کا عملہ یہ مان چکا تھا کہ اسرائیل کی سرحدیں ناقابل تسخیر ہیں اور داخلی طور پر انہیں کوئی خطرہ درپیش نہیں ہے۔ عوام کو بھی یہ اعتماد ہوچکا تھا کہ اس کا دفاعی نظام مضبوط اور قابل بھروسہ ہے اس لئے سکون اور بے فکری کے ساتھ وہ زندگی گزار سکتے ہیں۔ حماس کے اس حملہ نے جس کا نام انہوں نے ’طوفان الاقصیٰ‘ رکھا ہے اسرائیلیوں کے اس اعتماد کو بری طرح متزلزل کر دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اسرائیلی انٹلیجنس کی یہ کوئی پہلی ناکامی تھی۔ اس سے قبل 1973 میں بھی اس کا انٹلیجنس کا عملہ ناکام ہوا تھا جب مصر نے 6 اکتوبر کو اچانک سے حملہ کر دیا تھا۔ اسرائیل میں اس وقت بھی تہواروں کا موسم چل رہا تھا اور فوجی چھٹی پر گئے ہوئے تھے۔ مصر کے فوجی مہینوں تک اس کی تیاری کرتے رہے اور سینائی کے راستہ اسرائیل میں گھس آئے اور صہیونیوں کو مبہوت کر دیا تھا۔ مصر اور اسرائیل دونوں ہی اس جنگ میں اپنے لئے فتح کا دعویٰ کرتے ہیں اور اس کا جشن مناتے ہیں، لیکن بہر صورت وہ اسرائیل کی سخت ناکامی تھی، لیکن حماس کی کامیابی اس لئے اسرائیل کے لئے زیادہ ذلت کا باعث بن رہی ہے کیونکہ یہ کوئی باضابطہ فوج نہیں ہے بلکہ محض معمولی تعداد پر مبنی ایک مسلح جماعت ہے جس کا مقصد فلسطین کو آزاد کروانا ہے۔ اگر ایسی چھوٹی جماعت کے سامنے اس خطہ کی سب سے مضبوط فوجی قوت اور اس کا انٹلی جنس مذاق بن جائے تو دنیا میں اس کی کیا وقعت باقی رہ جائے گی؟ خود اس خطہ میں موجود پڑوسی عرب ممالک پر کیا اثرات مرتب ہوں گے جو اسرائیل کی فوجی تفوق کے خوف سے ان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لئے دوڑ لگا رہے تھے؟ اسرائیل کی ناکامی کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ ایسا پہلی بار ہوا ہے جب اتنی بڑی تعداد میں اسرائیلی اتنی کم مدت میں مارے گئے ہیں۔ 1967 کی جنگ میں بھی جبکہ تین عرب ممالک کی فوجیں اس میں شامل تھیں اسرائیلی فوج نے اپنے محض 776 جوانوں کو کھویا تھا جبکہ عرب شہیدوں کی تعداد 20 ہزار سے زیادہ تھی۔ صرف اکتوبر 1973 کی جنگ میں اسرائیل نے اپنے دو ہزار سے زائد فوجی گنوائے تھے، لیکن شنبہ کو اسرائیل پر حماس نے جو حملہ کیا ہے اس میں اب تک 350 سے زائد اسرائیلی مارے جا چکے ہیں اور تقریباً دو ہزار زخمی ہیں۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق سو سے زیادہ اسرائیلی حماس اور الجہاد الاسلامی کے قبضہ میں ہیں۔ لیکن اس سے بڑی ذلت اسرائیل کے لئے یہ ہے کہ مسلح فلسطینی جنگجو اسرائیل کی سرحدوں میں گھس آئے ہیں اور ابھی بھی تقریباً 7جگہوں پر اسرائیل فوج ان کا مقابلہ کر رہی ہے۔ یہ ایسی نفسیاتی چوٹ ہے جس کا درد اسرائیل کئی دہائیوں تک محسوس کرے گا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اس جنگ کے لئے صرف حماس کو ذمہ دار مانا جانا چاہئے؟ کیا اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کی یہ بات درست ہے کہ حماس ہم سب کو مار ڈالنا چاہتا ہے؟ وہ کہتے نظر آتے ہیں کہ حماس نے ہمارے بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر دیا ہے۔ اگر دنیا میں کہیں انصاف اور انسانیت موجود ہو تو سوچنا چاہئے کہ اسرائیل نے کب فلسطینی معصوموں، عورتوں، بوڑھوں اور بچوں کی زندگیوں کی قدر کی ہے؟ جتنی بھی جنگیں فلسطینیوں پر تھوپی گئی ہیں ان میں مارے جانے والے بچوں کی تعداد کس قدر زیادہ ہے اس کو دیکھنا چاہئے۔ جب جنگ کی حالت نہیں ہوتی ہے تب بھی کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب اسرائیل کی فوج اور فلسطینی زمینوں پر قابض ہوجانے والے صہیونی آبادکار معصوم فلسطینیوں کی زندگیاں تباہ نہ کرتے ہوں۔ جب سے نیتن یاہو اپنے تشدد پسند حلیف سیاسی پارٹیوں کے ساتھ اقتدار میں واپس آئے ہیں تب سے کوئی دن یا رات ایسی نہیں گزری جب کسی نہ کسی فلسطینی کے گھر کو ڈھایا اور جلایا نہ گیا ہو اور فلسطینی بچوں، نوجوانوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو شہید اور ذلیل نہ کیا گیا ہو۔ ان سب کے باوجود فلسطین کی مقاومتی تنظیموں بالخصوص حماس نے صبر و ضبط کا مظاہرہ کیا۔ لیکن جب بیت المقدس اور مسجد اقصی کی حرمت کو پامال کرتے ہوئے اسرائیلی فوج، تشدد پسند صہیونی جماعتوں یہاں تک کہ نیتن یاہو کے وزراء نے بھی فلسطینیوں کے ایمان و عقیدہ پر حملہ کر دیا اور انہیں مسجد اقصیٰ سے نکال باہر کرکے وہاں تلمودی عبادتیں کی گئیں تو یہ صہیونی حملہ اونٹ کی پیٹھ پر آخری ضرب ثابت ہوا۔ تمام بین الاقوامی معاہدوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اسرائیل کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کے مقدس ترین مقام عبادت اور قبلۂ اول کی تدنیس کا ارتکاب کرے۔ اسرائیل کی طرف سے جاری رہنے والی یہ زیادتیاں ختم ہوسکتی تھیں اگر عالمی برادری نے اسرائیل کو ایک ذمہ دار ریاست کی طرح اپنا کردار نبھانے کا مشورہ دیا ہوتا، لیکن ایسا نہیں ہوا اور سب خاموش رہے۔ امریکہ جو دنیا کا طاقت ور ترین ملک اور اسرائیل کا ہر موسم میں ساتھ دینے والا حلیف ہے اس نے بھی تب بولنا گوارہ کیا جب اسرائیل میں جانیں گئیں۔ زندگیاں تو فلسطینیوں کی بھی اتنی ہی عزیز ہونی چاہئے جتنی کسی بھی انسان کی ہوتی ہے۔ یہ دہرا معیار کیوں؟ میں سمجھتا ہوں کہ جس دن امریکہ کی سیاست میں بنیادی طور پر بدلاؤ ہوگا اور کوئی ایسا صدر منتخب ہوگا جو ووٹ کی خاطر امریکی یہودیوں اور صہیونیوں کو خوش کرنے کے بجائے انصاف اور انسانیت نوازی کی بنیاد پر عدل کے اصول نافذ کرے گا، اس دن اسرائیل میں بھی انسانیت نوازی کا ہنر پیدا ہوجائے گا اور شاید ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام عمل میں آ جا ئے۔ ابھی تو اس جنگ کا آغاز ہی ہوا ہے۔ ابھی تو نہ جانے کتنی معصوم جانیں دونوں طرف سے اس جنون کا شکار ہوں گی، لیکن عرب ممالک حماس سے اتنی بات تو سیکھ ہی سکتے ہیں کہ اسرائیل سے خوف زدہ ہوکر ان سے اتحاد کرنے اور اسلامی مقدسات کی پامالی میں حصہ دار بننے کے بجائے تھوڑی اسلامی غیرت کا ثبوت دیں اور بے خوف ہوکر اسرائیلی بربریت کا سد باب کریں تو یہ پورا خطہ آج بھی مغربی سامراج کے اثر سے باہر آنے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے۔ جب امریکہ کھلے طور پر اسرائیل کا ہر ممکن تعاون کرتا ہے تو آخر عرب ممالک فلسطین کی مدد سے کیوں جی چراتے ہیں؟ یہ بات دنیا بھر کے مسلمانوں کو آج تک سمجھ میں نہیں آئی۔ کیا امریکہ کے دباؤ کو قبول کرتے کرتے یہ مسلم عرب ممالک تھک نہیں گئے ہیں؟ ذلت اور غلامی کی بھی تو ایک عمر ہوتی ہے۔
مضمون نگار سینٹر فار انڈیا ویسٹ ایشیا ڈائیلاگ کے وزیٹنگ فیلو ہیں