جموں: قومی تحقیقاتی ایجنسی (این آئی اے) نے ہفتے کی صبح جموں وکشمیر کے ضلع پونچھ کے مینڈھر تحصیل میں پانچ مقامات پر مشتبہ افراد کے ٹھکانوں پر چھاپے مارکر ڈیجیٹل آلات و دستاویزات کو ضبط کیا۔ یہ چھاپے راجوری کے ڈانگری حملے کیس کی تحقیقات کے سلسلے میں مارے گئے۔
معلوم ہوکہ سال رواں کے ماہ جنوری میں ہونے والے اس حملے میں 5 افراد از جان جبکہ کئی دیگر زخمی ہوئے تھے۔
این آئی اے کے ایک ترجمان نے چھاپوں کے اس متعلق تفصیلات فراہم کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پونچھ کے مینڈھر تحصیل کے گرسائی گائوں میں پانچ مقامات پر چھاپے مارے گئے۔
انہوں نے کہا: ‘این آئی اے کی ٹیموں نے ان مقامات پر کالعدم تنظیم لشکر طیبہ سے وابستہ جنگجوئوں کے بالائے زمین ورکروں کے ٹھکانوں کی تلاشی لی’۔
انھوں نے مزید کہا ‘اس دوران کئی ڈیجیٹل ڈیوائسز اور دستاویزات جن میں مجرمانہ ڈاٹا اور مواد شامل ہے، کو ضبط کیا گیا اور اس سازش کو بے نقاب کرنے کے لئے ان چھان بین کی جا رہی ہے’۔
انھوں نے آگے اپنے بیان میں کہا کہ این آئی اے نے نثار احمد عرف حاجی نثار اور مشتاق حسین نامی دو ملزمان کو 31 اگست 2023 کو ایک کیس ( آر سی– 01 /2023 /این آئی اے/ جموں) میں گرفتار کیا تھا جو اس وقت سینٹرل جیل کوٹ بلوال جموں میں بند ہیں۔
انہوں نے کہا: ‘ان دو گرفتار شدگان کے انکشافات اور جمع شدہ معلومات کی بنیاد پر یہ چھاپے مارے گئے’۔
انہوں نے مزید کہا ‘این آئی اے کی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں گرفتار شدہ ملزموں نے جنگجوئوں کو پناہ دی تھی جنہوں نے یہ خطرناک حملہ انجام دیا’۔
بیان میں کہا گیا: ‘گرفتار شدگان نے ان جنگجوئوں کو زائد از دو مہینوں تک منطقی سپورٹ فراہم کیا اور ان کو کمیں گاہوں میں پناہ دی جن کو انہوں نے خود بنایا تھا’۔
مزید پڑھیں:
وزیر اعلی اشوک گہلوت نے جے پور تشدد کا لیا نوٹس، متوفی اقبال کے گھر والوں کو 50 لاکھ روپے، کنٹریکٹ نوکری اور ڈیری بوتھ دینے کا اعلان
ترجمان نے بتایا کہ تحقیقات کے مطابق یہ دو پاکستان نشین لشکر طیبہ سے وابستہ ہینڈلر سیف اللہ عرف ساجد جٹ، ابو قاتل عرف قاتل سندھی اور محمد قاسم کی ہدایات پر کام کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ اس حملے کا مقدمہ ابتدائی طور پر زیر ایف آئی آر نمبر 01/2023 آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت پولیس اسٹیشن راجوری میں درج کیا گیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ این آئی اے نے 13 جنوری کو اس کیس کو اپنے قبضے میں لے کر دوبارہ رجسٹر کیا اور اس سلسلے میں تحقیقات جاری ہیں۔