پچھلے دنوں اکیڈمک حلقوں میں یہ بحث چھڑی تھی کہ کیا زیادہ آبادی نعمت ہے یا زحمت ۔ اس مسئلہ پر الگ الگ خطوں اور ملکوں میں رہنے والے دانشوروں اور ماہرین میں اختلاف ہے ۔ اس اختلاف کی وجہ ان علاقوں کے سیاسی ، سماجی اور اقتصادی حالات ہیں۔ یوروپ کے کئی ملکوں میں اس بات کو لے کر بڑی تشویش تھی کہ ان کے سماجی نظام میں نیوکلیائی خاندان کی وجہ سے کئی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔
بچے سن بلاغت کو پہنچتے پہنچتے اور روزگار پاتے ہی اپنی اکائی بنا لیتے ہیں۔ یعنی عام حالات میں اپنے والدین سے الگ دنیا بساکے اسی میں مست ہوجاتے ہیں، شادی کرلیتے ہیں اور حسب سہولت اولاد پیدا کرلیتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی بھی نیوکلیائی سماج اور اس قدر محدود سماجی زندگی میں ایک یا دو بچوں سے زیادہ کی گنجائش نہیں رہتی۔ بعض آزاد طبع افراد شادی کرنے یا اولاد پیدا کرنے کو بھی اپنی نجی آزادی پر قدغن سمجھتے ہیں۔ یوروپ کے کئی علاقوں میں یہ مسائل سامنے آرہے ہیں۔ ان میں جرمنی، بیلجیم، اسپین اور انتہائی سرد سمجھے جانے والے اسکیوینڈائی Scavandian ممالک بطور خاص ہیں۔ یہ ان ممالک کی اپنی موسمی اور جغرافیائی مجبوریوں کا بھی نتیجہ ہے کہ یہ لوگ کثرت اولاد کو اپنی آزادی ، ترقی اور خوشحالی میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس کے بر خلاف کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں کثرت آبادی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ غربت وسائل کی کمی، بے علمی اور جہالت کی وجہ سے بھی کثرت اولاد ایک بڑا مسئلہ ان ملکوں کی معیشت پر حاوی ہوتا جار ہا ہے۔ یوروپ کے مذکورہ بالا علاقوں میں آبادی کی کمی کی وجہ سے افراد قوت کا بحران اس قدر سنگین ہوگیا ہے کہ ان ممالک کو اپنے قوانین اور ضوابط میں نرمی کرکے افریقہ ، ایشیا اور دیگر علاقوں سے آنے والے افراد کو پناہ دینے اور ان کو اپنے ملک میں سکونت اختیار کرنے کی سہولت دینی پڑتی ہے۔
جرمنی ، فرانس، اٹلی، اسپین، بلجیم ، سوئیڈن ، ناروے وغیرہ میں غیر ملکیوں کی اچھی خاصی آبادی منتخب ہو کر ان ممالک کی سماجی اور سیاسی زندگی کی جز لا ینفک ہوگئی ہے۔ اس طرح کے مسائل کئی اور ملکوں میں بھی پیدا ہورہے ہیں۔ خاص طور پر برطانیہ اور امریکہ میں غیر ملکیوں کی آمد سے وہاں کے سیاسی اور سماجی حالات میں بڑی تبدیلیاں پیدا ئی ہیں۔ اس تناظر میں ہندوستان جیسے گنجان آباد ملک میں آبادی ایک بہت سنگین مسئلہ ہے۔ یہ ملک دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والے ملکوں میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اتنے بڑے ملک میں مسلمانوں کی آبادی کو لے کر کئی حلقوں میں بار بار تشویش ظاہر کی جا تی رہی ہے۔ کچھ کوتاہ نظر بدخواہ لوگ مسلمانوں کی آبادی کو لے کر اپنا سیاسی ایجنڈا آگے بڑھاتے ہیں۔ اس ایجنڈے کو تقویت دینے میں ہندوستان کے مسلمانوںکا خود کا اپنا کنٹریبوشن ہے۔ مسلمانوں میں ناخواندگی ، غربت اور دیگر مسائل کی وجہ سے احساس کمتری پیدا ہوتا جارہاہے۔
شعور کم ہونے کی وجہ سے یہ احساس کمتری شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ مسلمانوں کا ایک خاص طبقہ اپنے نصف حصے خواتین کو نظرانداز کرکے اتنے بڑے اثاثے کو کافی حد تک نظرانداز کررہا ہے۔ اگرچہ اسلام ایک روشن خیال اور صنفی انصاف کا خیال رکھنے والا مذہب ہے، جس سے سماجی، نفسیاتی اور معاشی ضروریات کے مد نظر کام کی تقسیم کی ہے، مگر بنیادی طور پر اسلام کسی ایک جنس کو دوسرے جنس پر سبقت نہیں دیتا ، مگر آزادی کے بعد ہندوستان میں سیاسی اور سماجی اسباب سے مسائل کا انبار لگتا گیا اور آج جو سیاسی حالات ہیں ان میں یہ بڑی شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ اگر دور اندیش ، روشن خیال، تعلیم یافتہ اور جہاں دیدہ قیادت ہوتی تو شاید حالات اس قدر خراب نہ ہوتے۔ جیسا کہ آج کے وقت میں آگیا ہے کہ ہم اپنے اس اثاثے یعنی کثیر آبادی کو اپنے اسلامی شعائر سماجی واقتصادی ڈھانچے بہتر طریقہ سے کو استعمال کرتے ہوئے اس کو ترتیب دیں اور نئی نسل کی تربیت کریں۔ غیر حقیقی مسائل میں الجھانے اور وسائل کو غصب کرنے والی قیادت کو ہی حاشیہ پر ڈال دیں۔
افرادی قوت اور وسائل کا صحیح استعمال
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS