پارلیمنٹ میں غیر پارلیمانی اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال لمحۂ فکریہ

0

شاہد زبیری

مقام پارلیمنٹ کی نئی عمارت، موقعہ خصوصی اجلاس، بحث کا موضوع چندر یان3-، بحث میں حصہ لیتے ہوئے بی ایس پی کے امروہہ سے ایم پی کنور دانش علی کو اچانک حکمراں جماعت کی بنچوں سے،کٹوا، ملّا، اگروادی ،آنتک وادی اور نہ جانے کیا کیا، نفرت، تعصب او ر تنگ نظری پر مبنی ذہنی غلاظت اور گندگی کی قے کرتے اور ہذیان بکتے ہوئے بی جے پی دہلی کے ایم پی رمیش بدھوڑی اور برا بر کی سیٹ پر حکمراں جماعت کے دوسرے ایم پی ڈاکٹر ہرش وردھن اپنے ساتھی رمیش بدھوڑی کو اس اشتعال انگیز حرکت پر روکنے اور ٹوکنے کی بجائے نہ صرف ہنستے ہیں بلکہ مبینہ طور پر میز بھی تھپ تھپا تے ہیں ۔ یہ منظر اس ویڈیو میں ہے جو وائرل ہورہا ہے، لیکن نہ اسپیکر نے بدھوڑی کے خلاف تادیبی کارروائی کی اور نہ پارلیمانی امور کے وزیر نے ۔ بی جے پی کے ممبرانِ پارلیمنٹ کی اکثریت نے بھی اپنے ساتھی کو اس شرمناک حرکت پر نہ روکا اور نہ ٹوکا۔ حد تو یہ ہے کہ ان سنسکاری اور سنگھ سے وابستگی کا دعویٰ کر نے والے ممبرانِ پارلیمنٹ نے کنور دانش علی کی دل جوئی کی بھی ضرورت تک نہیں سمجھی اور ان کو دلاسہ تک نہیں دیا، شاید اسی لئے میڈیا پر دئے گئے بیان میں کنور دانش علی کو کہنا پڑا کہ رات بھر وہ سو نہیں پائے اور ان کا دماغ پھٹنے لگا تھا اور اب انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ ایسی پارلیمنٹ میںرہ کرکیا کریں، اس سے بہتر ہے کہ مستعفی ہو جائیں ۔
کیا کوئی اس سے پہلے یہ تصور کرسکتا تھا کہ دنیا کے بڑے جمہوری ممالک میں شمار ہونے والے کسی جمہوری ملک کی پارلیمنٹ میں کوئی ایسی سیاسی جماعت جو چال اورچرتر کا ڈھنڈورہ پیٹتی رہی ہو اور خود کو جمہوریت کا علمبردار بتا تی ہو اور اقتدار میں ہو اس کا کوئی ایم پی اپوزیشن جماعت کے کسی ایم پی کے خلاف اس کے مذہب کی بنیاد پراس طرح کی دریدہ دہنی کا مظاہرہ کرسکتا ہے ؟
چلئے مانا کسی کا دماغ کبھی بھی خراب ہو سکتا ہے اور وہ ایسی یا اس سے بھی زیادہ کوئی حرکت کرسکتا ہے تو کیا پارلیمنٹ میںاس کی موجود گی کا کوئی قانونی یا اخلاقی جواز ہو سکتا ہے؟ یہ جواز صرف اور صرف بی جے پی کی سرکار میں ہی ممکن ہے۔ورنہ کیا وجہ ہے کہ عزت مآب اسپیکر اوم برلا بدھوڑی کو پارلیمنٹ سے باہر کرنے کی بجائے صرف 15دن کا نوٹس ایشو کرتے ہیں۔ حکمراں جماعت بھی 15دن کا نوٹس دیتی ہے، جبکہ اسپیکر اپوزیشن جماعت کے ایم پی کو غیر پارلیمانی زبان کی پاداش میں فوری ایم پی کی رکنیت سے معطل کر دیتے ہیں۔ کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری اور عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا کے رکن سنجے سنگھ کی مثال تازہ ہے۔ہر چند کہ رمیش بدھوڑی نے جوبھی بکواس پارلیمنٹ میں کی ہے ،اس کے الفاظ پارلیمانی کارروائی سے نکال دئے گئے ہیں، لیکن خبر رساں ایجنسیوں نے ان الفاظ کو جوں کا توں نقل کیا ہے۔ ہم نے بھی ’نقل کفر ،کفر نہ باشد‘کے مصداق نقل کئے ہیں، ورنہ حقیقت یہ ہے کہ غیر پارلیمانی زبان سے زیادہ یہ تو کھلی گالیاں ہیں،جو جمہوریت کے مندر میں دی گئی ہیں۔ سنگھ اور بی جے پی کے گماشتے وشو ہندو پریشد ،بجرنگ دل، ہندو جاگرن منچ اور نہ جا نے کن کن ناموں کی ہندو تنظیمیں اور ہندو رکشک اور گئو رکشک دل مسلمانوں کو یہ گالیاں دے کر نفرت،تعصب اور تنگ نظری کی بد بودار غلاظت کی قے سڑک پر کرتے رہتے ہیں، اب سڑک کے علاوہ سنسد کا بھی یہی ماحول بنایا جا رہا ہے اور یہ لوگ پارلیمنٹ میں اسی غلاظت کی قے کرنے لگے ہیں، جو اب تک سڑک پر کرتے رہے ہیں ۔
رمیش بدھوڑی نے ہذیان کے تحت یا سنگھ اور بی جے پی سے ملے سنسکاروں کے تحت جو دریدہ دہنی کی ہے، اس نے مسلمانوں کی نہیں اس ملک کی اخلاقی،جمہوری اور مذہبی رواداری کی بچی کچی اقدار ،روایات ،تہذیب اورکلچرکی توہین کی ہے اور ملک کو عالمی سطح پر شرمسار کیا ہے ۔انٹر نیشنل میڈیا نے بھی اس کا نوٹس لیا ہے ۔ یوروپی یونین اور امریکہ کی انسانی حقوق کی علمبردار اور اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر نظر رکھنے والی عالمی تنظیموں کی رپورٹیں یہاں تک کہ یو نائٹیڈ نیشن کی تازہ رپورٹ بھی اس کی گواہ ہے ۔
کیا وجہ ہے کہ 2014جب سے بی جے پی اقتدار میں آئی ہے، ملک بھر میں اقلیتوں کے خلاف نفرت کا زہر اگلنے والے بیبا ک ہو گئے ہیں اور اقلیتوں کے جان و مال کے بھی درپے آزاد ہیں، انگلیا ں سنگھ پریوار اور حکمراں جماعت پر ہی کیوں اٹھ رہی ہیں، کیوں انٹر نیشنل میڈیا اورعالمی انسانی حقوق و مذہبی اقلیتوں کے حقوق کی نگران تنظیمیں بی جے پی سرکار کو کٹہرے میں کھڑا کر رہی ہیں اور اب جب بھی وزیر اعظم نریندر مودی غیر ملکی دوروں پر جاتے ہیں ان سے بھی میڈیا اس پر سوال پوچھنے لگا ہے اور اس کو لوگ بھولے بھی نہیں ہوں گے۔ اسی سال امریکہ کے دورہ کے درمیان وزیر اعظم کو ایک امریکی صحافیہ کے سوال کا سامنا کر نا پڑا تھا ۔دنیا بھر میں مذہبی اقلیتوں کی آزادی پرنظر رکھنے والی یوروپی یونین اور امریکہ کی تنظیمیں اس کا نوٹس لے رہی ہیں ’دی یو نائٹیڈ اسٹیٹس کمیشن آن انٹر ریجیلیس فر یڈم‘ (USCIRF) امریکہ اپنی سالانہ رپورٹوں میں ہندوستان میں مذہبی اقلیتوں کو لے کر سوال کھڑے کرتی رہی ہے۔ گزشتہ ماہ مئی میںاس تنظیم نے ہندوستان کی مذہبی اقلیتوںکے بارے میں اپنی جو سالانہ تازہ رپورٹ پیش کی ہے، اس میں بھی اس نے ہندوستان کے اقلیتوں کی مذہبی آزادی پر سوال کھڑے کئے ہیں، جس پر مودی سرکار نے وہی کیا جو اس کو کرنا چاہئے تھا۔ سرکار نے اس رپورٹ کو پوری طرح مسترد کردیا، مگر اب تویو نائٹیڈنیشن کی طرف سے ایسی ہی ایک رپورٹ زیر بحث ہے جو ملک کیلئے تشویش کی بات ہے،ظاہر ہے کہ سرکار اس کو بھی تسلیم نہیں کرے گی۔سوال یہ ہے کہ آخر ایسی نوبت کیوں آرہی ہے کہ اقلیتوں کی مذہبی آزادی اور جان ومال کے تحفظ کو لے کر عالمی سطح پر ہندوستان کی شبیہ مجروح ہو رہی ہے۔ آخر مودی سرکار ان رپورٹوں میں لگائے گئے الزامات کے پس پشت کے حقائق کا پتہ کیوں نہیں لگا نا چاہتی ہے۔ جمہوریت کے مندر میں جو پاپ بی جے پی کے ایم پی رمیش بدھوڑی نے کیا ہے۔ کیا اس پاپ کی سزا ایسے ایم پی کو فوری نہیںملنے چاہئے تھی۔ اس میں 15 دن کا وقفہ آخر کس لئے ؟ بی جے پی نے بھی رمیش بدھوڑی کو 15 دن کا نوٹس دیا ہے۔سب جا نتے ہیں کہ یہ بی جے پی کی سرشت میں نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی ایم پی یاکسی ایم ایل اے کے خلاف ایسی حرکت پر کوئی تادیبی کارروائی کرے ۔بی جے پی تو ہر ایسے لیڈر کو اس کی ان ہی حرکت کا انعام دیتی ہے یہاں تک کہ بھرے مجمع میں گولی مارو۔۔جیسے نعرے لگوانے والوں کو کابینہ میں وزیر بنا دیتی ہے۔۔ ممکن ہے کہ رمیش بدھوڑی کو بھی کسی ایسے انعام کی توقع ہو ۔ حقیقت یہ ہے کہ اسپیکر اور بی جے پی کی طرف سے رمیش بدھوڑی کو نوٹس جاری کرنا معاملہ کی لیپا پوتی کرنے سے زیادہ کچھ نہیںہو۔ اگر بی جے پی اور وزیر اعظم مودی ایماندار ہیں تو پارلیمنٹ میں گالیاں بکنے اور پارلیمنٹ کے وقار کو مجروح کرنے والے اپنے ایم پی کی رکنیت منسوخ کرائیں۔ اتنا نہیں تو کم ازکم استحقاق کمیٹی کے سپرد ہی یہ معاملہ سونپ دیں ۔بی ایس پی کے ایم پی کنور دانش علی کے علاوہ اپوزیشن جماعتیں بھی اسی کا مطالبہ کررہی ہیںاس مطالبہ کو ہی تسلیم کرلیں ۔
اچھی بات یہ ہے کہ اپوزیشن جماعتوں نے بی جے پی کے ایم پی کی اس متعفن اور بدبو دار بکواس پر سخت ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے اور کانگریس جیسی ملک کی بڑی جماعت کے قائد راہل گاندھی کنور دانش علی کی رہائش گاہ پر گئے اور ان کو گلے لگا کر دلاسہ دیا اور ان سے اظہارِ ہمدردی کر نے کے ساتھ ساتھ کہا کہ بی جے پی کے ایم پی کی یہ شرمناک اور اوچھی حرکت پارلیمنٹ کے وقار پر کلنک ہے۔مذمت کرنے والوں میں آر جے ڈی کے لالو یادو ، ترنمول کی مہوا موئترا ،بی ایس پی کی مایاوتی اور نیشنل کانفرنس کے عمر عبداللہ نمایاں ہیں ۔ ہمیں یقین ہے کہ عوام کی اکثریت بھی اس شرمناک حرکت کو پسند نہیں کرے گی ۔پارلیمنٹ کے وقار کو داغدار کر نے والی اس ہذیا نی بکواس نے سنگھ پریوار اور بی جے پی کے ’نام نہاد سنسکار ‘کی بھی قلعی کھول دی ہے۔سب مانتے ہیں کہ ہندوستان اپنے مزاج سے وہ نہیں جیسا سنگھ اور بی جے پی اسے بنا نا چاہتے ہیں ۔آج نہیں تو کل ہندوستان کو اس نفر ت بھری سیاست اور زہریلی فضا سے ضرور نجات ملے گی اور وہ صبح کبھی تو آئے گی، جس کا ہر امن پسند اور محب وطن کو انتظار ہے۔
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS