محمدتوحیدرضاعلیمی بنگلور
موجودہ دورمیں قسم قسم کے فتنے جنم لے رہے ہیں مسلمانوں کا لبادہ اوڑھ کر صحابہء کرام اور اہل بیت کی محبت کی آڑمیں صحابہء کرام کی شان میں گستاخی کرنے کی ناپاک کوشش کررہے ہیں۔ حضور رحمت دوعالمؐ کے خلفائے راشدین اور صحابہ ء کرام کے مراتب و مرتبہ عظمت و بلندی کو گھٹانے بڑھانے میں لگے ہیں جب کہ سب صحابہ آپس میں بے انتہامحبت کرنے والے ہیں ۔
تفسیر خزائن العرفان میں ہے کہ صحابہ کرام ایک دوسرے پر محبت و مہربانی کرنے والے ایسے کہ جیسے باپ بیٹے میں ہو تی ہے اور یہ محبت اس حد تک پہنچ گئی کہ جب ایک مومن دوسرے مومن کو دیکھتے فرطِ محبت سے مصافحہ و معانقہ کرتے اور صحابہ سب کے سب صاحب ایمان و عمل صالح ہیں یہ مثال ابتدائے اسلام اور اس کی ترقی کی بیان فرمائی ہے کہ نبی کریم ؐ تنہا اٹھے پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو آپ کے مخلصین اصحاب سے تقویت دی ۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سید عالم ؐ کے اصحاب کی مثال انجیل میں لکھی ہے کہ ایک قوم کھیتی کی طرح پیداہوگی وہ نیکیوں کا حکم کرے گی بدیوں سے منع کرے گی کہاگیاہے کہ کھیتی حضور ؐ ہیں اور اس کی شاخیں اصحاب اور مومنین ہیں( خزائن العرفان )
میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں:مشکو ۃ المصابیح کتاب المناقب میں ہے ہمارے نبی خاتم النبیین ؐ نے فرمایا کہ میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں پس ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پائوگے۔صحابہ کرام کی شان کے آگے ہماشماکی کیا حیثیت ہم لاکھ کوششوں کے باوجود بھی صحابی کا درجہ حاصل نہیں کرسکتے اوردنیا کے تمام اولیاء ابدال غوث اور قطب بھی جمع ہوجائیں توبھی کسی صحابی کے درجے کو نہیں پہنچ سکتے۔
رہی صحابہ کرام کی آپسی محبت تو جب صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کو مکہ مکرمہ میں ظلم و ستم سفاکی اور درندگی کی انتہا ہوگئی اور اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے زندہ رہنا دشوار ہوگیا تو ان مسلمانوں نے دین کی حفاظت کے لئے اپنا سب کچھ قربان کردینے کا ارادہ کیا اور اپنا وطن اہل و عیال مال ودولت زمین جائدا د صنعت و حرفت اور تجارتی کاروبار سب کچھ چھوڑکر اپنے دین و عقیدے کی حفاظت اور دین اسلام کی ترویج و اشاعت کے مقصد سے مکہ مکرمہ سے خالی ہاتھ نکل پڑے اور ہجرت کرکے مدینہ منورہ تشریف لائے انہیں مہاجرین کہا جاتا ہے تو مہاجرین کو انصارِ مدینہ (مددگار ابتدائی مسلمان)نے گرم جوشی سے خوش آمدید کہا انصار نے اُنکا والہانہ استقبال کیا اور تمام آنے والوں کو عزت و تکریم کے ساتھ جگہ دی بلکہ اپنے گھر سامان مویشی یہاں تک کہ اپنی جائیدادیں تک بانٹ لیں صحیح بخاری کی یہ حدیث ہے ابراہیم بن سعد اپنے والد سے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیںکہ جب رسولُ اللہ ؐ مدینہ منورہ میں تشریف فرما ہوئے تو آپ نے حضرت عبد الرحمان اور حضرت سعد بن ربیع کے درمیان اخوت قائم فرمادی حضرت سعد بن ربیع نے حضرت عبد الرحمان بن عوف سے کہا کہ انصار اس بات سے واقف ہیں کہ ان میں سب سے زیادہ مال میرے پاس ہے پس میں اپنے مال کو اپنے اور آپ کے درمیان آدھا آدھا تقسیم کرلیتا ہوں اور میری دوبیویاں ہیں ان میں سے جو آپ کو پسند آئے میں اس کو طلاق دیتا ہوں اور عدد گزرنے کے بعد یعنی جب وہ حلال ہوجائے تو آپ اس سے نکاح کرلینا حضرت عبدالرحمان بن عوف نے جواب دیا اللہ تعالیٰ آپ کے اہل و عیال میں برکت فرمائے۔ یہ صحابہ کرام کی آپسی محبت کا عالم ہے یہ ان صحابہ کرام کی کھلی محبت کی مثالیں ہیں۔
ہیں مثل ستاروں کے میری بزم کے ساتھی
اصحاب کے بارے میں یہ فرمایا نبی نے
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابہ کے دیباجہ میں امام ابوزرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول نقل کیا ہے ،جب تم کسی کو دیکھو کہ وہ رسول کریم ؐ کے صحابہ میں سے کسی کی تنقیص کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ زندیق ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی رحمت ؐ نے فرمایا ،اللہ تعالیٰ میری امت کے جس شخص سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اس کے دل میں میرے صحابہ کی محبت ڈال دیتا ہے(ترمذی)
حضور ؐ کا فرمان عالی شان ہے جب میرے صحابہ کا ذکر ہورہا ہو تو خاموش رہا کرو یعنی ان کے متعلق اچھی بات کہو ورنہ خاموش رہو۔پس حضور کی آل، ازواج اولاد و اصحاب رضی اللہ عنھم اجمعین سے محبت انکی تعظیم اور انکی تعلیمات پر عمل ایمان کی علامات میں سے ہے اور ان سے بغض وعناد ایمان و عافیت کی تباہی کا سبب ہے۔سہل بن عبد اللہ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے ،وہ شخص ایمان ہی نہیں لایا جس نے آپ کے اصحاب کی تعظیم نہیں کی ۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا میرے کسی صحابی کو برانہ کہو کیوںکہ تم میں سے اگر کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تواُن کے ایک مُد یا اس کے نصف کے ثواب کو بھی نہیں پہنچے گا ۔(بخاری شریف)
حدیث پاک کا مفہوم یہ ہوا کہ غیرصحابی کتنا ہی نیک ہو اور راہِ خدا میں اگر اُحد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو بھی ثواب و درجہ میں کسی صحابی کے خیرات کئے ہوئے ایک سیر دو چھتانک بلکہ اسکے نصف کے ثواب کو بھی نہیں پاسکتا۔ جب صحابہ کرام کی خیرات کا بلند رُتبہ ہے تو ان کی نمازوں روزوں زکوٰۃ وجہاد اور دیگر عبادات کا کس قدر اعلیٰ مقام ہوگا۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ غیب بتانے والے نبی ؐ نے فرمایا ۔اُس مسلمان کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا (ترمذی)اس حدیث پاک سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرام و تابعین عظام کو جہنم کی آگ نہیں چھوسکتی کیوںکہ وہ رب کریم کی خاص رحمت سے جنت کے مستحق ہوتے ہیں یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ؐ کے جلیل القدر صحابی اور امام اعظم ابوحنیفہؒ عظیم المرتبت تابعی ہیں ان کی گستاخی و بے ادبی سخت جرم اور رحمت الٰہی سے محرومی کا باعث ہے۔
حضرت عبد اللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ؐ نے فرمایا ،میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرنا ،میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرنا، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنالینا ،جو اُن سے محبت کرتاہے تو وہ مجھ سے محبت کرنے کی وجہ سے اُ ن سے محبت کرتا ہے اور اُن سے عداوت رکھتا ہے تو وہ مجھ سے عداوت رکھنے کی وجہ سے اُن سے عداوت رکھتا ہے ۔جس نے انہیں تکلیف دی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی اور جس نے اللہ تعالیٰ کو تکلیف دی تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے پکڑے(ترمذی، مشکوٰۃ)۔
معلوم ہوا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین سے بغض و کینہ رکھنا اور اُن پر تنقید کرنا درحقیقت حبیب کبریا ؐ سے عداوت رکھنا اور انہیں اذیت دینا ہے اور آقاو مولیٰ ؐ کواذیت دینا دراصل اللہ تعالیٰ کو اذیت دینا ہے اور ایسے لوگ اللہ تعالیٰ کے قہر و غضب کے مستحق ہیں۔