خواتین کیلئے ریزرویشن قانون بننے کے بعد بھی فوری نفاذ ممکن نہیں

0

خواجہ عبدالمنتقم

پارلیمنٹ میں خواتین کو 33فیصدی ریزرویشن دینے سے متعلق بل یعنی آئین (128ویں ترمیم) بل، 2023 ،جو دونوں ایوانوں سے منظوری اور کم از کم نصف ریا ستوںسے توثیق کے بعد ناری شکتی وندن ادھینئیم کی شکل تو اختیار کر سکتا ہے لیکن مردم شماری اور انتخابی حلقوں کی حد بندی کی شرائط کے تابع ہونے کے سبب کافی عرصہ تک نافذ نہیں کیا جا سکے گا جو کم از کم 2026تک تو ممکن ہی نہیں چونکہ انتخابی حلقوں کی پہچان (نشاندہی بہ اعتبار نوعیت) کا کام انجماد یعنی اس پر روک کے سبب2026کے بعد ہی ہو سکے گا ۔ اسی نوعیت کے بل کو راجیہ سبھا نے 9مارچ، 2010 کو منظوری دے دی تھی لیکن لوک سبھا میں منظور نہ ہونے اور کافی عرصہ گزر جانے کے سبب ساقط (lapse) ہو گیا تھا۔اب یہ بل کابینہ کی منظوری کے بعد اور لوک سبھا میں پیش کیے جانے پر ،جیسا کہ اوپر قلمبند کیا گیا، لوک سبھا و راجیہ سبھا کی دو تہائی اکثریت سے منظوری اور کم از کم آدھی ریاستوں سے توثیق کے بعد کسی بھی وقت قانونی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ہمارے ملک میں خواتین کی آبادی تقریباً 50 فیصدہے تو 50فیصد ریزرویشن کیوں نہیں؟ آئین کی دفعہ14 کی رو سے تومرد اور عورتوں کو برابر حقوق حاصل ہیں۔کیا ’’چشمۂ مساوات‘‘ میں ایسا کوئی پیمانہ ہوسکتا ہے جہاں 100کا نصف 50کی بجائے 33ہو۔ جبکہ ‘better half” تو50 فیصدسے بھی زیادہ ہوتا ہے ۔
متذکرہ بالا ترمیمی بل میں آئین کی دفعہ 330کے بعد330Aاور دفعہ 332کے بعد دفعہ 332Aشامل کرنے کی بات کہی گئی ہے تاکہ اول الذکر کے ذریعہ لوک سبھا میں خواتین کو 33فیصدی ریزرویشن دیا جاسکے اور آخرالذکر کے ذریعہ ریاستی اسمبلیوں میںبھی ان کے لیے 33 فیصد نشستیں محفوظ کی جاسکیں اور وہ بھی اس طرح کہ اس میں سے ایک تہائی نشستیں درج فہرست ذاتوں اور درج فہرست قبائل کے لیے محفوظ ہوں گی۔ اسی طرح دہلی کی اسمبلی میں بھی دفعہ239AA کے مطابق اسی طرز پر خواتین کے لیے ریزرویشن کا التزام ہے۔ حزب اختلاف کی مانگ ہے کہ درج فہرست ذاتوں اوردرج فہرست قبائل و پسماندہ طبقات کے لیے الگ سے کوٹا ہو۔مذکورہ33فیصد نشستوں کو بھی Rotation کے ذریعہ یعنی باری باری سے الاٹ کیا جائے گا۔ اس طرح اس بار الیکشن لڑنے والوں کو اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ وہ آئندہ سال وہاں سے الیکشن لڑسکے گا یا نہیں۔
یہاں اس بات کا ذکر بے محل نہ ہوگا کہ سیاسی میدان میں مساواتِ مردوزن کی باقاعدہ شروعات اقوام متحدہ کی خواتین کے سیاسی حقوق سے متعلق کنوینشن، 1952 کی شکل میں ہوئی جس کی دفعہ 2میں واضح طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ خواتین ایسے تمام عوامی اداروں کے، جن کے لیے انتخاب کرائے جاتے ہیں اور جنہیں قانون کے ذریعے قائم کیا جاتا ہے مساوی شرائط پر حصہ لینے کی حقدار ہوںگی۔ اس کنونشن کو مزید تقویت خواتین کے ساتھ کسی بھی طرح کا امتیاز ختم کرنے سے متعلق کنوینشن، 1979جس کا نفاذ 3ستمبر 1981کو ہوا اور جسے دنیا CEDAWکے نام سے جانتی ہے، سے حاصل ہوئی۔ اس کی دفعہ 3میں یہ کہا گیا ہے کہ فریقین مملکتیں، خواتین کی مکمل ترقی اور فروغ کو یقینی بنانے کے لیے سبھی میدانوں میں خاص کر مساوات مرد و زن کے تصور کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سیاسی، معاشرتی، معاشی اور ثقافتی میدانوں میں، ممکنہ مناسب اقدام، جن میں قانونی اقدام بھی شامل ہیں، کریں گی ۔اس کے بعد اس ضمن میں مختلف ممالک میں کماحقہ پیش رفت تو نہیں ہوئی مگر بات آگے ضرور بڑھی اور مختلف ممالک نے مساوات مردوزن کو یقینی بنانے کے لیے مختلف قانونی اقدامات کیے۔ یہ بل بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
آئیے اب اس بل کے مثبت اور منفی پہلوؤں پر غور کریں۔ اس کامثبت پہلو یہ ہے کہ یہ خواتین کوسیاسی میدان میں کسی حد تک مردوں کے برابر لانے کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ اس معاملے میں صرف ہمارا ملک ہی پیچھے نہیں بلکہ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردارمغربی ممالک میں بھی یہی صورت حال ہے۔ جرمنی اور نیدرلینڈ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں ان کا فیصد صرف 5ہے جبکہ روانڈا جیسے ملک میں خواتین کی نمائندگی50فیصد سے زیادہ رہی ہے۔
اس بل کے کچھ منفی پہلو بھی ہیں مثلاً اس مرتبہ الیکشن لڑنے والے کو اس بات کا یقین نہیں ہوگا کہ وہ دوسرا الیکشن یہاں سے لڑپائے گا یا نہیں اس لیے وہ اپنے حلقۂ انتخاب کے لیے کیے جانے والے کاموں میں اتنی دلچسپی نہیں لے گا جتنی کہ وہ اس صورت حال میں لیتا جب وہ اس بات کے لیے پر امید ہوتا کہ وہ آئندہ بھی اسی حلقۂ انتخاب سے الیکشن لڑے گا۔ اس کے علاوہ آج سیاسی بدعنوانی کو دور کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں اس سے اس عمل کو بھی دھکا پہنچے گا چونکہ منتخب نمائندہ اس بات کی پروا نہیں کرے گا کہ جو کچھ وہ کررہا ہے آئندہ ہونے والے انتخاب میں لوگ اس سے اس کا حساب مانگیںگے۔ اس سے خود احتسابی اور بیرونی احتسابی دونوں کارکردگیوں پر منفی اثر پڑے گا۔
اس ریزرویشن کے اہتمام کے بارے میں یہ بات کہی گئی ہے کہ یہ 15سال کے لیے ہی ہوگا۔ یہ محض خیال خام ہے۔ 15سال کے بعد بھی خواتین مساوات کے معاملے میں مردوں کے برابر نہیں آپائیںگی اور یہ مدت، جیسا کہ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کے ریزرویشن کی مدت بار بار بڑھانے کے معاملے میںکیا جارہا ہے، بار بار بڑھائی جاتی رہے گی۔ نہ صرف یہ بلکہ ریزرویشن کا فیصد بڑھا کر 50فیصدی کرنے کی مانگ بھی سامنے آئے گی اور درج فہرست ذاتوں اوردرج فہرست قبائل و پسماندہ طبقات کے لیے الگ سے کوٹے کی مانگ میں بتدریج مزید تیزی آنے کا امکان ہے۔مسلم خواتین بھی اپنی کم نمائندگی کے سبب اپنا حق مانگیں گی۔ اب رہی بات مسلم خواتین کے لیے الگ کوٹہ دینے کی، اس کی نام نہاد پرانی ٹونیشن تھیوری کا حوالہ دیتے ہوئے جو تقسیم ہند کے ساتھ ختم ہوگئی، مخالفت کی جاتی رہی ہے۔ مسلم خواتین کے الگ کوٹے کی بات ان کی پسماندگی اور زمینی حقائق کی روشنی میں کی جارہی ہے نہ کہ مذہب کے تعلق سے چونکہ تمام یقین دہانیوں کے باوجود، آج بھی مسلمانوں کی زبوں حالی سب کے سامنے ہے اور مسلم خواتین ہر شعبۂ حیات میںجس پسماندگی کا شکار ہیں اس کیلئے سچر کمیٹی کی رپورٹ کے بعد کسی دستاویزی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ لہٰذا ان کیلئے یاتو اس ترمیم میں کوئی کوٹہ ریزرو کرنے کی بابت کوئی گنجائش پیدا کی جائے یا کسی دیگر قانون کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کی پارلیمنٹ میں نمائندگی کم وبیش ان کی آبادی کے تناسب سے ہوگی۔qwr
(مضمون نگارماہر قانون، آزاد صحافی،مصنف،سابق بیورکریٹ و بین الاقوامی ادارہ برائے انسانی حقوق سوسائٹی کے تا حیات رکن ہیں)
[email protected]

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS