افریقہ کے سب سے پسماندہ خطے قرنِ افریقہ کے ایک عرب مسلم ملک سوڈان میں حالات بدسے بدترہوتے جارہے ہیں۔ حد تویہ ہوگئی ہے کہ وہاں دنیا کے معتبرترین ادارے اقوام متحدہ کے کارندوں اور اہلکاروں کے لئے بھی کام کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ دوفوجی جنرلوںکے درمیان پھنسے سوڈان کے لوگ روٹیوں کو ترس گئے ہیں، پینے کے لئے پانی نہیں ہے اور کونسی گولی اور کون سا گولا ان کی جان لے جائے گا اور کدھر سے آئے گا، اس بارے میں بھی کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ اتنی غیریقینی صورت حال میں عام سوڈانی اپنی زندگی کو ہتھیلی پر رکھ کر گھوم رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے نمائندے وولکر پرتھیزجوکہ ان حالات کا جائزہ لینے کے لئے بھیجے گئے تھے، ان کوبھی سوڈان کے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتح برہان نے کام نہیں کرنے دیا اور ملک چھوڑنے کے لئے مجبور کردیا۔ پرتھیز کا تعلق جرمنی سے ہے اور وہ بین الاقوامی تعلقات میں ماہرانہ دسترس رکھتے ہیں۔ وہ جرمن انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل سیکورٹی افیئرس کے چیف ایگزیکٹو افسر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں ان کی تحقیق کو معتبر قرار دیا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ نے ان کو سوڈان کے زمینی حقائق جاننے کے لئے تعینات کیا تھا، مگر سوڈان کے حکمرانوں نے یہ دھمکی دے ڈالی کہ اگر پرتھیز کو اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں خطاب کرنے کی اجازت دے دی گئی تو وہ اقوام متحدہ کے سیاسی امور کا نگراں دفتر جوکہ خرطوم میں ہے بند کردیںگے۔ یہ دھمکی ایسے ملک سے آئی ہے جو نہ صرف یہ کہ خانہ جنگی کا شکار ہے، بلکہ ماضی کے سیاسی بحران کی وجہ سے وہاں کے خراب ہوئے اقتصادی حالات سے فاقہ کشی کا بڑا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ گزشتہ دنوں وولکر پرتھیز نے اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل میں حالات کی بابت آگاہ کرتے ہوئے عالمی برادری کو بتایا تھا کہ اس ملک میں کوئی بھی فوجی سربراہ اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ اپنے حریف کو شکست دے کر فاتح ہوجائے اور جنگ کا خاتمہ ہوجائے۔ یہ بات ان معنوںمیں معنی خیز ہے کہ سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح برہان اور نیم فوجی دستوں کے سربراہ جنرل محمد حمدان ڈگالو جن کو حمیدیتی بھی کہا جاتا ہے 16؍اپریل 2023 سے ایسی جنگ لڑ رہے ہیں جس کا خاتمہ ہوتا نظرنہیں آرہا۔ پرتھیز نے دارفرکے معاملے میں جوانکشافات کئے ہیں وہ بھی عالمی برادری اور افریقی یونین کو تشویش میں ڈالنے والے ہیں۔ پرتھیز نے واضح کیا ہے کہ جب سے جنگ شروع ہوئی ہے 5ہزار لوگ مارے گئے ہیں۔ 1200سے زائد افرادزخمی ہوگئے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات اس قدر خراب ہیں کہ یقین کے ساتھ نہیں کہا جاسکتا کہ ہلاکتیں کتنی ہیں۔ مذکورہ اعدادوشمار انتہائی غیرمحتاط طریقے سے جاری کئے گئے ہیں اورہلاکتیں بہت زیادہ ہوسکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دارفر جوگزشتہ کئی دہائیوں سے خانہ جنگی، غیرملکی مداخلت اور انسانی حقوق کے بدترین خلاف ورزیوںاور ڈکٹیٹرشپ کا شکار رہا ہے آج حالات اور بھی خراب ہورہے ہیں۔ سوڈان نے اس سال کے اپریل کے اوائل میں سیاسی رضاکاروں، ٹریڈ یونین لیڈروں، پیشہ ور شخصیات اور دانشور جمہوریت کے قیام کے لئے کئی سال سے مہم چلائے ہوئے تھے، مگر جب فوجی حکمرانوں اور سیاسی اصلاحات اور جمہوری نظام کے نفاذ کے لئے مذاکرات آخری مرحلے پر تھے اور یہ امید ظاہر کی جارہی ہے کہ چند دنوں میں دونوں فریقوںکے درمیان کوئی معاہدہ ہوجائے گا، تبھی فوج کے مذکورہ بالا دونوں جنرلوں کے درمیان اختلافات کی خبریں آنے لگیں۔ جنرل حمیدیتی جوکہ سیاسی طورپر کسی بھی ادارے کے ساتھ مذاکرات میں شامل نہیں تھے اوران کو نظرانداز کرکے جنرل برہان اپنے آپ کو پوری دنیا میں سوڈان کا سیاسی اور فوجی حکمراں کے طورپر پیش کرکے نمائندگی کر رہے تھے۔
ظاہر ہے کہ یہ سب باتیں جنرل حمیدیتی کو ناگوار گزر رہی تھیں، جب سیاسی اصلاحات کو نافذ کرنے کا موقع آیا تو اس وقت بھی سوڈان کی فوج میں ان کے فوجی گروہ جوکہ کافی طاقتور اور تربیت یافتہ عملے پر مشتمل ہیں،انہیں نظرانداز کیا جانے لگا۔ سیاست دانوں اور فوج کے درمیان معاہدہ پر فوج کے ان دونوں سربراہوںکے درمیان اختلافات کی وجہ سے دستخط نہیں ہوپائے اور وہ ملک جوکہ اس وقت چند دنوں میں ایک عبوری حکومت کے قیام کی طرف گامزن تھا، اچانک ان دونوں فوجی گروہوں کی بالادستی کی لڑائی میں ایسا تباہ ہورہا ہے کہ کئی ہزار لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ دو فوجیوں کے درمیان کی اس جنگ نے اس عظیم سرزمین کو جوکہ دریائے نیل سے سیراب ہوتی ہے، اس مقام پر لاکھڑا کیا ہے کہ کوئی راستہ نکلتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ مغربی ممالک جوکہ سوڈان کے سیاسی کارکنوں اور خواتین کے حقوق کے لئے لڑنے والی اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین سے امید لگائے بیٹھے تھے۔ اب ان کی امیدیں بھی چکناچورہوگئیں۔ اس پورے خطے پر سعودی عرب کا اچھا خاصا عمل دخل ہے۔ سعودی عرب اور سوڈان کے درمیان صرف ایک سمندرہی ہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کے ولی عہد وزیراعظم محمد بن سلمان ایک بڑے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے مقامی اور بین الاقوامی سطح پر سرگرم ہیں اوران کے منصوبوںمیں سرزمین سوڈان اور دونوں ملکوں کے درمیان سمندری سرحد کو سیاحتی مرکز کے طورپر ڈیولپ کرنے کا بڑا منصوبہ ہے، مگر اب ایسا لگ رہا ہے کہ وہ ہاتھ ملتے رہ جائیںگے۔ سعودی عرب نے بہت کوشش کی کہ دونوں فوجی سربراہ آپس میں لڑائی بند کرکے مذاکرات کی میز پرا ٓجائیں، مگر تکبراور زعم کے شکار یہ دونوں فوجی سربراہ اپنے موقف سے ہٹنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور یہ سرزمین جو عظیم شخصیات اعلیٰ اذہان کی آبادی پر مشتمل ہے،خون کی نہر میں تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ خیال رہے کہ اقوام متحدہ نے حال ہی میں جو اعدادوشمار پیش کئے ہیں وہ بہت چونکانے والے ہیں۔ اقوام متحدہ کے ہیومنٹیرین آفس آپریشن کے ڈائریکٹر ایڈم وسورنو نے سیکورٹی کونسل کو آگاہ کیا ہے کہ اس عظیم ملک میں 20ملین لوگ جوکہ ملک کی نصف آبادی ہے بدترین بھوک اور فاقہ کشی کے دہانے پر کھڑی ہے۔انہوںنے کہا کہ گزشتہ 6ماہ کی جنگ میں ہم اس مقام پر آگئے ہیں کہ اگلا اٹھنے والا قدم قحط سالی کی طرف جائے گا۔
سوڈان: عالمی برادری کی بڑھتی جھنجلاہٹ
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS