عارف علوی
افغانستان اور پاکستان کے تعلقات خراب ہوتے جارہے ہیں اور طالبان نے افغانستان کی فارن ایکسچینج کے ادارے کو حکم دیا ہے کہ وہ عام زندگی میں پاکستان کے روپیہ پر پابندی عائد کردے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان روزمرہ کی زندگی میں پاکستان کی کرنسی استعمال نہ کرے۔ اس وقت پاکستان میں کارگزار نگراں حکومت کام کر رہی ہے اوراسی کی نگرانی میں الیکشن ہوںگے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ابھی انتخابات کی تاریخوں کا اعلان نہیں کیا ہے، اس کے باوجود صدر پاکستان عارف علوی نے ازخود انتخابات کے انعقاد 6؍نومبر کو کرانے کا اعلان کردیا ہے۔ یہ ایک غیرمعمولی صورت حال ہے اورپتہ نہیں اس طرح کے معاملات خاص طورپر جمہوری اداروں میں ٹکرائو کے حالیہ رجحان سے مجموعی طورپر اس مملکت خداداد کا کیا حشر ہوگا۔ پچھلے دنوں عارف علوی صدرپاکستان کے دفتر سے ایک ایسا قانون پاس ہونے کی اطلاع آئی جس کو انہوں نے منظوری ہی نہیں دی تھی اور نہ ہی اس پر دستخط کئے تھے۔ یہ اپنے آپ میں ایک غیرمعمولی واقعہ تھا جو اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ پاکستان میں طوائف الملوکی کا دور انتہائی پست سطح پر پہنچ گیا ہے۔ صدر پاکستان کا عہدہ ظاہر ہے کہ ویسٹ منسٹر فارم آف گورنمنٹ کی طرز پر ہے۔ صدر جمہوریہ محض ایک علامتی عہدہ ہے باقی تمام تر اختیارات وزیراعظم کے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں عام انتخابات نگراں حکومت کی دیکھ ریکھ میں ہوتے ہیں اور یہ تنازع ایسے وقت میںپیدا ہوا ہے جب وہاں ایک نگراں حکومت چل رہی ہے جو انتخابات کو منعقد کرانے کے لئے معرض وجود میں آتی ہے۔ اس التزام کا مقصد ملک میں انتخابات کو غیرجانبدارانہ ڈھنگ سے کرانا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ سے عوام میں یہ اعتماد رہتا ہے کہ الیکشن کمیشن کسی بھی سرکاری عہدیدار، وزیر یا وزیراعظم کے دبائو میں کام نہیں کرے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تنازعات اور سیاسی چپقلشوں کے پاکستان میں عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کم ہی لگتے ہیں۔ بہرکیف صدرپاکستان نے جس طریقے سے یہ ہتھکنڈہ اختیار کیا ہے اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ وہ پاکستان میں ایک غیرجانبدار آئینی عہدے پر فائز رہتے ہوئے ان کا طریقہ کار غیرجانبدارانہ نہیںہے بلکہ ان کے اقدام پارٹی مفادات کے مطابق لگتے ہیں۔ یہ بات سب کو معلوم ہے کہ صدرپاکستان عمران خان کی تحریک انصاف پارٹی سے تعلق رکھتے ہیں اور وہ عمران خان کے لئے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اسی صورت حال میں افغانستان کے ارباب اقتدار نے ایک فیصلہ کیا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کی جوبھی کرنسی ہے وہ آئندہ تین ماہ کے اندر اندر ختم ہوجانی چاہئے یعنی پاکستان کا روپیہ اب افغانستان میں اس طرح نہیں چلے گا جیسا کہ پہلے چلتا آرہا تھا۔اوراس طرح چلتا تھا جس طرح اپنے ملک افغانستان کی کرنسی چلتی تھی۔ پاکستان اور افغانستان میں گزشتہ چالیس سالوں میں سرحدوں کی لکیریں مٹتی رہی تھیں اور دونوں ممالک کے عام شہری، افسران اور یہاں تک کہ فوجی اہلکار بھی بلاتکلف اور بغیر کسی پابندی کے ایک دوسرے کی سرزمین میں آزادی کے ساتھ آجارہے تھے۔ اگرچہ یہ صورت حال پاکستان نے کے لئے بڑی خطرناک ثابت ہوئی ہے اور پاکستان میں ایک ایسی دہشت پسند تنظیم پیدا ہوگئی جسے تحریک طالبان برائے پاکستان کہا جاتا ہے۔ اس دہشت پسند تنظیم نے کھلے عام پاکستان کے سیاسی معاملات میں حصہ لینا شروع کردیا اور اپنے مقاصد اورعزائم کو آگے بڑھاتے ہوئے پاکستان کے کئی سرکردہ لیڈروں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ اصل میں پاکستان نے جو بھوت پیدا کیا تھا وہ اس کو ڈس رہا ہے۔ پاکستان کی کرنسی سے متعلق فیصلہ بالکل درست ہے، کوئی کبھی طالبان کے اس حکم کو غیرقانونی یا غیرمناسب قرار نہیں دے سکتا کیونکہ افغانستان ایک آزاد خودمختار مملکت ہے۔ اس کی سرزمین پر اس کا ہی سکہ چلے گا، کسی پڑوسی (پاکستان) یا دوردراز کے کسی ملک یا ملکوںکے مجموعے کا زورنہیں چلے گا۔ یہ صورت حال پاکستان کے لئے اچانک ایک بڑا چیلنج لے کر آئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں پاکستان کی کرنسی اس طرح چلن میں ہے کہ عام افغانی کو یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ وہ پاکستان کی کرنسی میں معاملات کر رہا ہے یا خود اپنے ملک کی کرنسی میں۔ اب جبکہ پاکستان سے بڑی تعداد میں افغانستان میں چلنے والی کرنسی واپس پاکستان میں آئے گی تواس سے کئی مسائل کھڑے ہوسکتے ہیں۔ پاکستان اس وقت بدترین اقتصادی بحران سے گزر رہا ہے۔ یوں تو پوری دنیا کووڈ-19 کے بعد کے اثرات سے ابھی ابھرنہیں پائی ہے مگر چونکہ افغانستان مختلف وجوہات سے ابھی بھی الگ تھلگ پڑا ہوا ہے۔ اس لئے اس کی معیشت دوسرے ممالک کی معیشت کے مقابلے میں کم رفتار سے نارمل ہورہی ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان کے فوجی سربراہ عاصم منیر نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ ملک کی معیشت بدترین بحران سے گزررہی ہے اور حکومت اس بحران سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔ انہوںنے واضح کردیا تھا کہ ملک کی معیشت کو سدھارنے کے لئے کام کریںگے۔ یہ جملہ بڑا معنی خیز اور پاکستان کی اندرونی افراتفری اور غیر یقینی کی صورت حال کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ فوج کا سربراہ کس طرح سے ملک کی معیشت کو سدھارے گا یا اس بحران کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ شاید کسی فوجی سربراہ کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ بیٹھ کر دواور دوچار کرے اور اس بات کے بھی کوئی واضح ثبوت موجودنہیں ہیں کہ موجودہ فوجی سربراہ ماہر معاشیات ہوںیا اقتصادی امور میں ان کا کوئی تجربہ ہو۔ ایسے میں ان کا یہ اعلان مضحکہ خیز سا لگتا ہے۔ پتہ نہیں کہ پاکستانی صدر کا ازخود انتخابات کرانے کا اعلان فوجی سربراہ کے اس اعلان سے متاثرہونے والا یا اس کا نتیجہ ہے، مگر یہ بات ثابت ہوتی جارہی ہے کہ پاکستان میں سب کچھ ٹھیک نہیں چل رہا ہے اور پاکستان شاید بنگلہ دیش کی راہ پر گامزن ہے، جہاں پر شیخ حسینہ واجد مسلسل ایسے ڈکٹیٹرانہ اعلانات کر رہی ہیں جو کسی بھی صحت مند جمہوریت کے لئے نیک فال نہیں۔
پاکستان میں یہ سیاسی صورت حال ایسے وقت میں پیدا ہورہی ہے جب سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے وطن واپسی کا اعلان کردیا ہے۔ وہ چند ہفتوں میں وطن واپس لوٹ آئیںگے۔ جس طریقے سے پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان معزول کئے گئے اور جس طرح کے بیانات ان کی طرف سے آرہے ہیں وہ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ فوج اور ان کے درمیان فاصلہ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان تحریک انصاف کے ذریعہ فوجی تنصیبات اور دفاتر پر حملے ہوئے وہ دونوں فریقوں میں کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پاکستان میں ایک ایسا طبقہ سرگرم ہے جو ان دونوں حکومت کے بازوئوں میں تنازع اور آگ بھڑکاکر اپنا مقصد حاصل کر رہا ہے۔ اگرایسا ہی چلتا رہا تو پاکستان کے لئے آئندہ چند ماہ بہت مشکلات کا سبب بن سکتے ہیں۔خاص طورپر افغانستان سے بڑی تعداد میں کرنسی آنے کے بعد ملک کی معیشت اور سیاست ایک سنگین بحران کی طرف جاتی نظرآرہی ہے۔
٭٭٭