ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
اللہ کے نیک بندوں اور حق کے پرستاروں کو ہر دور میں مصائب کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ امت محمدؐ یہ کی تاریخ پر نظر کریں تو معلوم ہوگا کہ اس امت کو ایسے ادوار سے بھی گزرنا پڑا ہے کہ محسوس ہونے لگا تھا کہ شاید اب امت ہمت ہاردے گی۔ لیکن ہر عہد میں اللہ نے اپنے ایسے نیک بندوں کو پیدا کیا جنہوں نے ہر طرح کی قربانی دے کر اور ہر طرح کی آزمائش کا سامنا کرکے دین حق کو سرخ رو کیا اور امت محمدیہ کو اسوۂ نبیؐ پر عمل پیراہونے کی دعوت دی۔
بات دراصل یہ ہے کہ حضوراکرمؐ کی پوری زندگی حوصلے، ہمت اور اولوالعزمی کی روشن ترین مثال ہے۔ اور ہم جانتے ہیں کہ ہر اہل ایمان کا دل حضورؐ کی محبت سے لبریز ہے۔ اس لیے جب بھی کوئی بڑی مصیبت کا سامنا ہوتا ہے اہل اسلام اللہ کے رسولؐ اور ان کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بناتے ہیں اور پھر ان کے لیے ہر مصیبت ان مصائب کے سامنے چھوٹی نظر آنے لگتی ہے جن کا سامنا حضورؐ نے اور ان کے اصحاب رضی اللہ عنہم نے کئے ہیں۔
یقین جانیے کہ مشکل سے مشکل ترین حالات سے گزرنے والے انسانوں اور ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے مومنوں کی نگاہ میں رسول اکرمؐ اور صحابہ کرامؓ کا اسوہ روشنی کا مینار بن کر سامنے آتاہے۔ اور یہ ہمارے لیے بھی ضروری ہے کہ جب ہم ستائے جائیں تو ہمت ہارنے کے بجائے مکہ میں مسلمانوں پر جو قیامتیں گزری تھیں انہیں یادکریں۔ اور جب لگے کہ ہم محبوس ہو کر رہ گئے ہیں تو ہمیں شعب ابی طالب کے قیدیوں کو اور ان کے مصائب کو یاد کرنا چاہیے۔ جب ہم مارے اور سنگ باری کے شکار بنائے جائیں تو ہمیں طائف کے واقعے کو یاد کرنا چاہیے۔ جب ہمارے لائق و فائق نوجوانوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جائیں تو ہمیں حضرت بلالؓ کو یادکرنا چاہیے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ جب ہم مسائل کی آندھیوں میں پھنس جائیں تو بالکل بھی ہمت نہیں ہارنی چاہیے بلکہ اپنے نبی کریمؐ اور ان کے صحابہ کرامؓ کی زندگی سے روشنی حاصل کرنی چاہیے۔ اس طرح ہمت اور عزم کا پرچم سرنگوں نہیں ہوگا اور سارے معاملات حل ہوتے چلے جائیں گے۔ کیا ہم نہیں جانتے ہیں کہ حضورؐ جن کی صداقت اور امانت کی اہل مکہ قسمیں کھاتے تھے اور جن کے اعلیٰ اخلاق اور پاکیزہ کردار کی مثالیں دیا کرتے تھے، اسی انسان نے جب ان لوگوں کو ایک خدا کی طرف بلانا شروع کیا تو پھر ان لوگوں نے حضورؐ پر ظلم و زیادتی کی انتہا کردی۔ حضورؐ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے اور سجدے میں جاتے تو یہ ظالم ان کی پیٹھ پر اونٹ کی اوجھڑی رکھ دیتے تھے۔ حضورؐ کا مذاق اڑاتے تھے۔ انہیں جادوگر کہتے تھے، پاگل کہتے تھے۔
یہ بات ذہن سے بالکل نکال دیجئے کہ جو اللہ کا نیک بندہ ایمان کے راستے پر چلے گا حق کی گواہی دے گا اس پر ظلم نہیں ہوگا۔ جب اللہ کے بڑے بڑے رسولوں کو مصائب سے تکالیف سے گزرنا پڑا ہے تو عام مسلمانوں کی کیا حقیقت ہے کہ ان پر مصائب نہیں آئیں گے۔ سچ یہ ہے کہ جو اللہ کا بندہ جس قدر نیک ہوتا ہے انہیں اسی قدر آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ حضرت ایوب علیہ السلام کو اپنے صبر کا امتحان دینا پڑا۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اپنے بیٹے کے غم میں چالیس سال تک آنسو بہانا پڑا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کو غلامی اور دربدری کی زندگی گزارنی پڑی۔ حضرت یحیٰ علیہ السلام، حضرت ذکریا علیہ السلام کو سخت ترین آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ میں رہنا پڑا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کے لیے تیار ہونا پڑا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو طرح طرح کے مصائب جھیلنے پڑے۔ حضورؐ کو لوگوں کے طعنے سننے پڑے۔ طائف کے سفر میں پتھر کھانے پڑے، اپنا شہر مکہ چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑی۔ حضورؐ کی جب نرینہ اولاد کا انتقال ہوگیا تو کفار مکہ اپنی زبان سے طنز اور طعنے کے زہریلے تیر برسانے لگے۔ وہ حضورؐ کو طعنہ دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اس کا تو نام ہی مت لو۔ یہ بے جڑ کا انسان ہے، مرجائے گا تو نام و نشان مٹ جائے گا۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے جس سے اس کی نسل چلے گی۔ یااس کا خاندان آگے بڑھے گا۔ حدتو یہ ہوئی کہ کفار مکّہ نے آپؐ پر اور آپ کے اصحابؓ پر باربار حملہ کیا۔ چہرہ پر خاک اڑائی، کسی کو مارا پیٹا تو کسی کے چہرے پر تھوکا۔ مگر ان اللہ کے بندوں کے ایمان میں کوئی کمی نہیں آئی۔ ان کے حوصلے کبھی کمزور نہیں ہوئے۔ ان کے ارادے میں کبھی کمزوری پیدا نہیں ہوئی۔
ذرا غور فرمائیے کہ ایک طرف سارے کفار مکہ جان کے دشمن بنے ہوئے تھے کوئی محبت کرنے والا نظر نہیں آتا تھا۔ ایسے میں حضورؐ اپنے مہربان چچا ابوطالب کی شفقت سے محروم ہوگئے۔ نہایت خدمت گزار بیوی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوگیا۔ مگر آپ کے ارادوں میں حق گوئی میں، دین حق کی تبلیغ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
صورت حا ل اتنی خراب اور نازک ہوگئی کہ حضورؐ کو قتل کرنے کی سازش کی گئی، مگر وہ ناکام رہے۔ مکہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کرنی پڑی مگر کفاروں نے پیچھا نہیں چھوڑا۔ مدینہ میں بھی کسی نے چین سے رہنے نہیں دیا۔ منافقوں اور یہودیوں نے یہاں بھی آزمائش کے سلسلے کو دراز کردیا۔ اتنے سارے مظالم سہنے کے بعد بھی جب حضورؐ نے مکہ فتح کیا تو سبھوں کو معاف کردیا۔ جن لوگوں نے ایمان قبول کرلیا انہیں بشارتیں دیں، حالاں کہ فتح مکہ سے پہلے
مسلمانوں کو غزوہ بدر، اور غزوہ احد پیش آچکا تھا۔ احد میں تو کافروں نے اپنے طور پر حضورؐ کو شہید ہی کردیا تھا۔ مگر جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے۔ حملہ آوروں نے متحد ہو کر اور مصمم ارادہ کر کے غزوہ احد میں حضورؐ کو نشانہ بنایا۔ ابوقریہ جو قریش کا مشہور پہلوان تھا اس نے تو طے کر رکھا تھا کہ اس بار وہ نعوذ بااللہ اللہ کے سچے رسول کا کام تمام کر کے ہی لوٹے گا۔ مگر دشمنوں کی ساری چالیں ناکام ہوگئیں اور اسلام کا پرچم ساری دنیا پر لہرایا۔
اگر حضورؐ پر مظالم و مصائب کے واقعات کو جمع کیا جائے تو ایک کتاب ہوجائے گی۔ لیکن حضورؐ چوں کہ رحمت للعالمین بنا کر بھیجے گئے تھے اس لیے انہوں نے رحمت اور عفو ودرگزر کا ایسا عملی مظاہرہ کیا جس کی مثال پیش کرنے سے دنیا قاصر ہے۔ آئیے ہم یہاں پر چند ایسے واقعات اور حقائق کا ذکر کریں جن سے پتہ چلے گا کہ حضورؐ نے کس قدر شفقت، رحمت، اور عفوودرگزر سے کام لیا اور اللہ کے بندوں کو اللہ سے قریب ترکرنے میں کس کس طرح کی قربانیاں دیں اور مہرومحبت کے کیسے برتاؤ اور حسن سلوک کے کیسے عملی اقدام کی مثالیں قائم کیں۔
بدر سے قبل حذیفہ ابن یمان ؓ آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسولؐ قریش نے مجھ کو اور میرے والد کو اس شرط پر مدینہ آنے کی اجازت دی تھی کہ ہم آپؐ کے ساتھ قریش کے خلاف جنگ میں شامل نہیں ہوں گے۔ ہر چندکہ مسلمانوں کی جماعت بہت چھوٹی تھی اور قریش کا لشکر مسلمانوں کی بہ نسبت بہت بڑا اور زبردست تھا اس لیے مسلمانوں کے لیے ایک ایک مجاہد کی بھی بہت ہی خاص اہمیت تھی اس کے باوجود آپؐ نے حذیفہ ؓ سے فرمایا کہ تم مدینہ میں مقیم رہو ہم ان کے ساتھ ایفائے عہد کریں گے اور ان کے خلاف اللہ سے نصرت طلب کریں گے۔‘‘ایفائے عہد کی ایسی مثالیں پیش کرنا وہ بھی ایسی نازک حالت میں جبکہ مسلمانوں کو کرو یا مرو جیسی صورت حال کا سامنا تھا اور دشمنوں کی تعداد مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھی صرف اسلامی تعلیم ہی کا خاصہ ہے۔ ’’جنگ بدر میں جو کافر قیدی بناکرلائے گئے ان میں سہیل ابن عمرو بھی تھے۔ وہ قریش کے سرداروں میں سے ایک تھے اس لیے وہ آپؐ اور اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ حضرت عمرؓ کو اس بات کی خوشی تھی کہ چلو بدلے کا موقع مل گیا ہے۔ حضرت عمرؓ حضورؐ سے کہنے لگے کہ سہیل بن عمرو کے سامنے کے کچھ دانت توڑدیے جائیں تا کہ وہ آپؐ اور اسلام کے خلاف زور دار تقریر و خطاب کی قوّت سے محروم ہو جائے۔ آپؐ نے فرمایا عمرؓ! میں اس کا مثلہ نہیں کروں گا مباداکہ اللہ میرا مثلہ کردے گو کہ میں اس کا پیغمبر ہوں۔‘‘
دیکھا آپ نے صبر و تحمّل اور عدل و انصاف کی مثال سہیل بن عمرو قریش کے سردار تھے۔ خطابت کے زور پر لوگوں کو اسلام کے خلاف بھڑکانے میں مہارت رکھتے تھے اس کے باوجود آپؐ نے اس کے ساتھ کتنا بہترین اور مساویانہ سلوک فرمایاجبکہ اس زمانے میں جنگی قیدیوں کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرنا عام بات تھی۔’’حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے کہ جنگ بدر کے موقع پر آپؐ نے جنگی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی ایسی مؤثر تلقین کی کہ صحابہ کرام کھانے پینے کے معاملے میں اپنے اوپر اسلام کے دشمنوں کو خود پر ترجیح دیتے تھے۔ زرا رہ بن عمر، مصعب بن عمیرؓ کے غیر مسلم بھائی تھے جو جنگ بدر میں قید ہوئے ان کا قول تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے کہ صحابہ کرامؓ اپنی روٹیاں مجھے دے دیتے تھے اور خود کھجور پر قناعت کرتے۔ اس غیر معمولی حسن سلوک اور محبت و مروّت سے وہ ایسا متأثر ہوئے کہ دائرہ اسلام میں بہ رضا و رغبت داخل ہوگئے۔‘‘
اسلام حسن سلوک اور عدل و انصاف، اور مہر و محبت کا ایسا پیغامبر ہے کہ جو اس کے پیغام کو جان لیتا ہے اور اس کے عملی اظہار کو دیکھ لیتا ہے وہ اپنے آپ دل سے اسلام کو قبول کرلیتا ہے۔ یہ اسلام کی سب سے بڑی جیت ہے کہ وہ انسانوں کے ساتھ انسانیت کی سطح پر برتاؤ کرتا ہے۔ اور اپنائیت اور مساوات کا ایسا شیریں جام پلاتا ہے کہ دوری اور بیگانگی کا احساس یکسر مٹ جاتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ غزوہ احد میں مشرکین کو موقع مل گیا تھا کہ وہ مسلمانوں کو پسپائی پر مجبور کردیں، اسی غزوہ میں مشرکین نے حضورؐ کو اپنے نرغے میں لینے کی کوشش کی اور آپؐ پر پوری طاقت سے حملہ کردیا۔ آپ زخمی ہوگئے، آپ کے دندان مبارک شہید ہوگئے۔ خود کی کڑی چہرہ مبارک میں چبھ گئی، چہرۂ مبارک لہو لہان ہوگیا، ایسے نازک اور خطرناک موقع پر بھی آپ کے کردار کی عظمت اور شان قابل دیدتھی۔
آپؐ اپنے چہرۂ مبارک سے خون صاف کرتے جاتے اور فرماتے جاتے؛’’یا اللہ تو میری قوم کو معاف فرما کیوں کہ وہ بے شعور ہے۔ جو قوم اپنے پیغمبر کو زخمی کردے وہ کیسے فلاح پاسکتی ہے۔ وہ ان کو اللہ کی جانب بلا رہا ہے اور وہ اس کو خون میں نہلانے پر تلی ہے۔‘‘اس کے بعد پھر آپؐ ان کی مغفرت کے لیے دعا میں مشغول ہوگئے۔ ہر چند کہ صحابۂ کرام ؓ نے کہا کہ آپؐ ان شقی لوگوں پر لعنت بھیجیں، جنہوں نے آپ کو زخمی کیا۔ آپؐ نے فرمایا مجھے لعنت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے مجھے رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔
غزوہ خندق کے موقع سے قبیلہ بنی قریظہ نے معاہدے کی خلاف ورزی کرکے کھلی ہوئی غداری کی اور قریش اور بنی غطفان کو مدینہ پر حملہ کرنے میں ہر ممکن مدد کی۔ مشرکین تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کیے رہے۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کو سخت مشکلوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر اللہ نے مسلمانوں کو فتحیاب کیا۔