میڈیا ٹرائل پر سپریم کورٹ کا غیرمعمولی فیصلہ

0

کسی بھی جمہوری نظام میں حکومتوں کے اہم بازو مقننہ، عدلیہ اور عاملہ ایک ساتھ مل کر ایک دوسرے کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے کام کرتے ہیں اور یہی ایک مضبوط اور صحت مند نظام حکومت کی نشانی ہے۔ یہی تینوں بازو ایک دوسرے کو اپنے حدود سے تجاوز کرنے نہیں دیتے۔ یعنی Check and Balance کے ساتھ کام کرتے ہیں۔ یہ وہ نظریہ حکومت ہے جس میں یہ تینوں بازو ایک دوسرے کو قواعد اور ضوابط کا پابند بناتے ہیں، لیکن جدید جمہوری نظام حکومت نے ان تینوں روایتی ستونوں کے علاوہ ایک اور ستون بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے اور وہ ہے میڈیایا صحافت کا ستون۔ دنیا کے تمام ملکوں میں میڈیا جس میں ٹیلی ویژن، اخبارات، رسائل وجرائد شامل ہیں، اس زمرے میں آتے ہیں، مگر عصرحاضر میں سوشل میڈیا نے وہ مقام بنایا ہے جو میڈیا سے زیادہ متحرک اور زیادہ عوام تک پہنچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میڈیا کا طاقتور ہونا کسی بھی صحت مند نظام حکومت میں ضروری ہے۔ ایک آزاداور خودمختارمیڈیا اگرآزادی اور غیرجانبداری کے ساتھ اپنے فرائض کوانجام دیتا ہے تو یہ ملک میں مساوانہ اور ہمدردانہ نظام قائم کرنے کی گارنٹی ہوسکتا ہے۔ میڈیا بہت بڑی طاقت ہے اس میں کوئی دورائے نہیں، اگریہ طاقت خودغرض، مفاد پرست اورتجارتی ذہنیت کے حامل لوگوں کے ہاتھ لگ جائے تواس کے بڑے خطرناک نتائج برآمد ہوتے ہیں۔ میڈیا کی طاقت کو ارباب حل وعقد اپنے مفادات اور ایجنڈے کو طے کرنے اور مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اگریہ صورت حال حد سے تجاوز کر جائے تویہ طاقت یعنی میڈیا کسی بھی ملک کے نظام کو تباہ کرسکتا ہے۔ آج سپریم کورٹ نے ایک غیرمعمولی فیصلہ دیا ہے، جس میں میڈیاکی گائڈ لائنس طے کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔
سپریم کورٹ نے میڈیا کے ذریعہ کئی معاملات پر جانبدارانہ، متعصبانہ اور خاص مقاصد کے تحت کی جانے والی رپورٹنگ پر سخت تاسف کا اظہار کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے آئین میں درج اپنے حقوق اور فرائض کو مدنظررکھتے ہوئے مرکز کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ ایک گائڈ لائن تیار کرے جس کے تحت مختلف سنگین کیسوں میں بریفنگ کو ایک دائرہ کار اور ضابطہ اخلاق کے تحت ہی پیش کیا جائے۔ نمک مرچ لگاکر اپنے خاص ٹارگیٹ آڈینس (Target Audians)کو خوش کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا ہے کہ انتظامیہ کو میڈیا ٹرائل سے متاثرہوئے بغیر اپنا کام کرنا چاہئے اور اس کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہونی چاہئے کہ تفتیش کے کس مرحلے کو میڈیا کو کس حد تک اور کس طرح سے بتائی جائے۔ سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ یہ اس لئے ضروری ہے کہ ملزم کے حقوق کا بھی خیال رکھنا ہے۔ سپریم کورٹ نے یہاں ایک غیرمعمولی بات کہی کہ یہ عوام کے حق میں اور میڈیا کی رپورٹنگ سے عوامی مفادات وابستہ ہیں۔ بعض اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ میڈیا لفظ ’ذرائع‘ کا استعمال کرکے اوراپنے اختیارات کو استعمال کرکے فرضی حقائق پیش کرتا ہے جو خلاف واقعہ ہو اور بے بنیاد ہوتا ہے۔خیال رہے کہ ہندوستان میں دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے بعد میڈیا نے کئی معاملات میں غیرمعمولی مداخلت کرتے ہوئے ایسی رپورٹنگ کی ہے جوکہ براہ راست رائے عامہ کو متاثرکرنے والی ہوتی ہے اور کئی معاملات میں تویہ دیکھا گیا ہے کہ میڈیا کی رپورٹنگ سے عوام کے جذبات کو برانگیختہ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کا اثر مجموعی طورپر سماجی زندگی پر پڑتا ہے اوراس سے کافی حد تک سیاسی رویے بھی متاثرہوتے ہیں اور اگر دوران الیکشن میں اس قسم کا کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آجاتا ہے توملزموں کے ساتھ ساتھ ان کے ہم مذہب، ہم مشرب افرادکو بھی کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔اس سے سماجی ماحول خراب ہوتا ہے اور میڈیا کی رپورٹنگ آزادی کے نام پر بالکل اور بعض اوقات بے سروپیر ہوتی ہے جس سے عام طورپر سماجی میل ملاپ کو نقصان پہنچتا ہے۔ مختلف طبقات اور گروپوں میں منافرت اور رقابت بڑھتی ہے اور بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ پورے میڈیا ٹرائل کے بعد ملزم کے گھر والوں، اس کے ہم مذہبوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ بعض اوقات اس میڈیا ٹرائل کے ذریعہ بعض خطوں جیسے اعظم گڑھ وغیرہ کے طبقات اور فرقوںکو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ موجودہ دور میں جولنچنگ کا نیا شوشہ نکلا ہے اس کے پس پشت یہی غیرمناسب، جانبدارانہ، فرقہ وارانہ رپورٹنگ ہوتی ہے۔ اگر میڈیا کے خلاف کوئی آواز اٹھاتا ہے تواس کو میڈیا کی آزادی پر قدغن لگانے کا الزام لگاکر خاموش کرنے کی کوشش ہوتی ہے۔ گزشتہ دودہائیوںمیں ہندوستان میں یہ رویہ تقویت پاگیا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ جب میڈیا کی جانبدارانہ یا میڈیا ٹرائل کے خلاف آواز اٹھی ہو۔ یوپی اے (دوم) میں اس وقت کے وزیراطلاعات ونشریات منیش تیواری نے بھی اس بابت غوروفکر کیا تھا اوراس وقت یہ بات بھی سامنے آئی تھی کہ میڈیا سے تعلق رکھنے والے افراد اور صحافیوں کی تعلیم اور ان کی مختلف اموروں میں جانکاری خاص طورپر قانونی پہلوئوں کے پیش نظرہونی چاہئے۔ صحافی کوسند یافتہ ہونا چاہئے۔ ایک لاعلم صحافی بغیر کسی قانونی سوجھ بوجھ کے جب سنگین اورحساس ترین امورپر رائے ظاہر کرتا ہے تو یہ ضروری نہیں کہ وہ رائے درست ہو، قانون کے دائرے میں ہو۔ پچھلے دنوں بلکہ کئی دہائیوں سے یہ دیکھا گیا ہے کہ دہشت گردی کے معاملات میں مبینہ طورپر ملوث افراد کو جس طریقے سے میڈیا اچھالتا ہے اس سے ایسا لگتا ہے کہ ایف آئی آر درج ہونے یا اس سے پہلے ہی ملزم کوقصوروار قرار دے دیا گیا ہے اور جب طویل قانونی جنگ کے بعد اپنے وسائل کو جھونک کر یہ شخص بے گناہ ثابت ہوتا ہے تو پورے میڈیا میں سناٹا چھا جاتا ہے۔ اس کے بارے میں جو کوائف بیان کئے جاتے تھے ان کو ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے اورنہ ہی یہ کوائف کسی بھی عدالت میں قابل سماعت ہوتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ نہ صرف ملزم بلکہ جس سماج سے وہ تعلق رکھتا ہے پورا سماج ایک داغ لئے پھرتا ہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ مرکزی حکومت سپریم کورٹ کی ان ہدایات کو سنجیدگی سے سمجھے اور میڈیا ٹرائل سے ہونے والی ناانصافیوںکے تدارک کے لئے سنجیدہ اقدام کرے۔ ٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS