ارض فلسطین:بوند بوند پانی کیلئے ترستے فلسطینی

0

آج یعنی 13؍ستمبرکو اوسلو معاہدہ کو ہوئے 30سال ہوگئے ہیں۔ فلسطینیوں کو ایک آزاد اورخودمختار ریاست کے وعدے پر کئے گئے اس سمجھوتے کا جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو یہ بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ اس معاہدہ سے فلسطینیوںکو کچھ نہیں ملا ہے۔ البتہ تھوڑی بہت خودمختاری جواس معاہدے کے تحت ملی تھی وہ اسرائیلی بربریت اور عالمی برادری کی عدم توجہی کی وجہ سے ختم ہوتی جارہی ہے اوریہ معاہدہ اب فلسطینیوں پر بوجھ بنتا جارہا ہے۔ جس وقت یہ معاہدہ ہوا تھا تو امیدظاہرکی جارہی تھی کہ دنیا کے عظیم ترین اور پیچیدہ ترین مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کی شروعات ہوچکی ہے، مگر تین دہائیوں کی تلخ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ یہ مسئلہ نہ صرف جوںکا توں برقرار ہے بلکہ اس سے عام فلسطینیوںکی اذیتوں اور باہمی تال میل میں کافی دشواریاں آئی ہیں۔ مغربی کنارے اورغزہ کی پٹی میں حالات بالکل واضح ہیں۔ غزہ کی پٹی کھلی ہوئی جیل میں تبدیل کردی گئی ہے۔ اس کے چاروں طرف بلند ومضبوط اورایک آہنی دیوارکھڑی کردی گئی ہے جس سے غزہ کی پٹی میں رہنے والے 10لاکھ فلسطینیوں کی زندگی اجیرن سے اجیرن ترہوتی جارہی ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیل ایسی حکمت عملی پر عمل کر رہا ہے جس سے واضح ہوچکا ہے کہ وہ آج نہیں تو کل اس پورے خطے کو مکمل طورپر اپنی گرفت میں لے لے گا اور یہاں پر اپنا مکمل اقتداراعلیٰ نافذ کردے گا۔ مغربی کنارہ وہ سرزمین ہے جہاں پر فلسطین کی محدود اختیارات والی ریاست ہے یا کہا جائے وہاں فلسطینی انتظامیہ کام کر رہی ہے۔ بدقسمتی یہ کہ فلسطینی اتھارٹی 2006 میں انتخابات کے بعد اب تک ان دونوںمقامات پر عام انتخابات نہیں کراسکی ہے۔ بغیرکسی تبدیلی اوررویہ میں تبدیلی اور لچک کے فلسطینی انتظامیہ نہ صرف یہ کہ اپنی افادیت کھوچکا ہے بلکہ عام فلسطینی پر بوجھ بن گیا ہے۔مغربی کنارے اور دیگرعلاقوںمیں فلسطینی اتھارٹی کی کھوئی افادیت کی وجہ سے کئی رضاکار سیاسی گروپ اور گروہ سرگرم تھیں اور اب یہ مشن بندوق برداروں کے ہاتھ سے نکل کرعوام کے ہاتھوںمیں منتقل ہورہا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل فلسطینی اتھارٹی کو بھی اپنے مفادات اور منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے قانون نافذ کرنے والے اداروں، خفیہ اہلکاروں سے ان افراد اور تنظیموں کے بارے میں خفیہ معلومات حاصل کر رہاہے جوکہ ایک آزاد اور خودمختار ملک کی آزادی اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ تمام فلسطینیوں کو روزمرہ کی زندگی میں بنیادی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔اگرچہ کئی حلقوں میں یہ کہا جارہا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اپنے ہی برادران اور ہم مشرب فلسطینیوںکو اسرائیل کی ایما پر تختہ مشق بنائے ہوئے ہے۔ حال ہی میں ایک اور مطالعہ سامنے آیا، جس میں بتایا گیا ہے کہ فلسطینیوں کو جہاں ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے۔گھروں اور آبادیوں کو مسمار کیا جارہا ہے۔ وہیں ان کو پانی کی سپلائی سے بھی مکمل طورپر محروم کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں جو اعدادوشمار سامنے آئے ہیں وہ بڑے بھیانک ہیں۔ خیال رہے کہ 13ستمبر 1993 میں ہونے والا اسرائیل اور فلسطینیوںکے درمیان معاہدہ امریکہ کی سرپرستی اورنگرانی میں ہوا تھا۔ امریکہ دنیا بھرمیں جمہوریت، فرد کی آزادی، اظہارخیال کی آزادی زندگی کے حق جیسے بلندوبالا اصولوں کی بازیابی اور برتر ی کے لئے آواز اٹھاتار ہا ہے، مگر فلسطینیوںکے لئے اس کی زبان نہیں کھلتی ہے۔ لگاتار 30سال سے فلسطینی اس حقیقت کے باوجود کہ وہ کافی حد تک اسرائیل کے وجودکوتسلیم کرچکے ہیں، کوئی بھی عالمی ادارہ فلسطینیوں کو ان کے بنیادی حقوق دلانے میں کامیاب نہیں ہوسکا ہے۔ اس معاہدہ کے تحت دونوں فریقوںکے درمیان پانی کی تقسیم پر بھی ایک فیصلہ ہوا تھا۔ ماہرین کے ادارے نے دونوں فریقوںکے ساتھ مل کر یہ طے کیا تھا کہ سرزمین فلسطین اور اسرائیل بحرروم اور دریائے اردن سے نکلنے والے آبی وسائل کو کون کتنا اورکس طرح استعمال کرے گا، مگر اسرائیل کے استبدادی عزائم کے چلتے فلسطینیوںکو اس بات کی قطعی اجازت نہیں ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی سرزمین میں کھدائی کرکے پانی کے وسائل کو استعمال کرسکیں۔ فلسطینیوں کو اسرائیلی انتظامیہ سے پانی کی حصولیابی کے لئے باقاعدہ اجازت لینی پڑتی ہے۔ یہ اجازت آسانی سے نہیں ملتی بلکہ اسرائیلی اتھارٹیز فلسطینیوںکو ٹہلاتے اور جھلاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک افسوسناک منظریہ دیکھا گیا کہ جس کنوئیں سے فلسطینی پانی حاصل کرتے تھے، اسرائیلی فوج نے اس کنوئیں کو سیمنٹ سے بھر کر بالکل ناکارہ بنا دیا اور واضح کردیا کہ بغیر کسی اجازت کے زمین سے پانی حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ پانی کی قلت فلسطینیوں کی روزمرہ کی زندگی کو مشکل سے مشکل تر بنا رہی ہے۔ فلسطین کے کسان پانی نہ ہونے کی وجہ سے زراعت نہیں کرپارہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اپنے ان غیرانسانی حرکتوںکے لئے وہ عہدہ عثمانیہ کے مسترد و متروک قوانین وضوابط اورپابندیوںکا بھی حوالہ دیتے ہیں کہ کس طرح اس دورمیں پانی کی نکاسی پر قدغن لگی ہوئی تھی۔ اسرائیلی حکام معزول خلافت عثمانیہ کے قوانین اپنے ہی دور میں استبداد لاگوکر رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب حرکتیں عام فلسطینی کے اعصاب اور اعتماد کو توڑنے والی ہیں۔ یہاں یہ بات باور کرادیں کہ اس وقت عرض فلسطین تین زمرے میں بٹی ہوئی ہے۔ اے زمرہ کے تحت مغربی کنارہ کا 60فیصد آتا ہے جو مکمل طورپر اسرائیل کے کنٹرول میں ہے جبکہ تین زمرے کا علاقہ فلسطینیوں کے کنٹرول کا ہے،اسی طرح سی زمرے میں فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کا مشترکہ کنٹرول ہے۔ سی زمرے کے علاقوں میں عام فلسطینی کی زندگی اس قدرپریشان کن ہے کہ بعض فلسطینی اپنے مکانات اوراثاثے چھوڑ کر دوسرے ممالک یا غزہ کی پٹی میں منتقل ہوگئے ہیں، مگروہاں بھی خاص طورپر مغربی کنارے میں منتقل ہونے والے فلسطینیوں کو سخت قسم کی دشواریوںاور اسرائیل کی پابندیوں کا شکار ہونا پڑتا ہے۔
٭٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS