عبدالغفارصدیقی
مسلم معاشرے میں خواتین کو پوری طرح مقام اور وہ آزادی میسر نہیں جو انھیں اسلام عطا کرتا ہے۔اسلام کی تعلیمات ،رسولؐ کی سیرت اورخواتین کے تعلق سے اسلام کی ہدایات کے مطالعے سے آپ یہ محسوس کریں گے کہ نبی اکرم ؐ کی بعثت اگر کسی طبقہ ٔ انسانیت کے لیے سب سے زیادہ مفید ہے تو وہ خواتین کا طبقہ ہے ۔عورت کو دور جاہلیت میں عام انسانی حقوق بھی حاصل نہیں تھے ،ایسا صرف عرب میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں تھا۔وہ صرف خادمہ تھی، اسے رائے دینے کا کوئی حق نہ تھا ،اس کو تعلیم حاصل کرنے کی آزادی نہ تھی، کاروبار کرنے اور قیادت کرنے کے بارے میں تو وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھیں۔اللہ کے رسول ؐ نے خدائی ہدایات کی روشنی میں ان کو وہ حقو ق عطا فرمائے جن کے بارے میں نام نہاد آزاد خیال اورآج کے روشن خیال دانشور سوچ بھی نہیں سکتے تھے،مگر افسوس کہ اسی اسلام کے ماننے والے اور اسی رسولؐ سے محبت کرنے والے ان تعلیمات کو تو بیان کرتے ہیں ،سنتے ہیں ،فخر کرتے ہیں، مگر عملی جامہ نہیں پہناتے۔ اگر مسلم معاشرہ خواتین کے حقوق کے معاملے میں ایماندارانہ عمل کرتا تو کسی باطل نظام کو ان کو بہکانے ،ورغلانے اور خود کو ان کا خیر خواہ ثابت کرنے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔
اس وقت میری مخاطب وہ خواتین ہیں جو تعلیم یافتہ ہیں۔اول تو مسلم خواتین کو حصول علم میں ہزار دقتیں آج بھی آتی ہیں ۔کہیں ان کے گھر والے ان کی اعلیٰ تعلیم کے مخالف ہیں تو کہیں تعلیمی ادارے غیر محفوظ ہیں۔لیکن ان دشوار گزار حالات میں بھی جو بچیاں لکھ پڑھ جاتی ہیں ان میں سے بیشتر کی صلاحیتیں شادی کے بعد سسرال میں جاکر زنگ آلود ہوجاتی ہیں ۔ان کے سامنے ایک مشکل یہ بھی پیش آتی ہے کہ ان کی سوسائٹی میں ان کے لائق لڑکا میسر نہیں ہوتا۔ برادری کی غیر شرعی اور نامعقول خود ساختہ قید بھی انھیں جاہل لڑکوں کی بیوی بننے پر مجبور کردیتی ہے۔اگر والدین نے ان کے حصول علم میں تعاون کیا ہوتا ہے تو سسرال میں جاکر ان کے خواب چکناچور نہیں ہوتے۔یہ ماحول چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں زیادہ ہے۔میں اپنے ایک رشتے دار کے یہاں گیا وہاں ایک خاتون کی گفتگو سے میں سے مجھے اندازہ ہوا کہ یہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔معلوم کرنے پر انکشاف ہوا کہ انہوں نے ایم بی اے کیا ہوا ہے ۔میں نے پوچھا تم اپنے علم سے فائدہ کیوں نہیں اٹھاتیں ،اس سے پہلے کہ وہ جواب دیتیں ان کے شوہر نے جواب دیا کہ اللہ کا شکر ہے گھر میں سب کچھ ہے ۔اسے کمانے کی کیا ضرورت ہے ؟میں نے کہا تم نے تعلیم حاصل کرنے کے دوران بڑے خواب دیکھے ہوں گے ۔اس نے کہا بھائی صاحب میں صرف خواب ہی دیکھ سکتی ہوں،انھیں شرمندہ ٔ تعبیر نہیں کرسکتی۔بعض دفعہ یہ قید اور یہ صورت حال بغاوت پر آمادہ کردیتی ہے ۔جس کے نتیجے میں بڑے شہروں میں اعلیٰ تعلیم یافتہ بچیاں غیر مسلموں سے شادی کرلیتی ہیں۔
یہ ایک مثال ہے اور یہ ایک چھوٹے سے شہر کی بات ہے ۔ایسی ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں خواتین ہیں جو اپنے گھروں میں ہیں اور ان کی صلاحیتیں ملک و ملت کے کام نہیں آرہی ہیں ۔یہ ایک بڑا اثاثہ ہے جو ضائع ہورہا ہے ۔اگر اسے استعمال کیاجاتا تو کئی گنا فائدہ ہوسکتا تھا ۔میں یہ نہیں کہتا کہ مغرب کی نقالی میں ہماری خواتین دفاتر کی زینت بنیں ،اپنی نسوانیت کھو بیٹھیں یا حقوق زوجیت ادا نہ کریں ،یا بچوں کی تربیت سے غافل ہوجائیں ۔لیکن کیا کسی اسکول میں ٹیچر ہونا ،یا اپنی بستی کے بچوں کو ٹیوشن اور کوچنگ دینا،یا اپنے طور پر آن لائن ترجمہ نگاری کرنا،ڈیزائننگ،کمپوزنگ کا کام کرنا،یا میڈیکل کی تعلیم حال کرکے نرسنگ کرنا اور کلینک کھول کر مریض دیکھنے میں بھی کچھ دشواری ہے ؟ہر شہر اور بستی میں پرائیویٹ اسکول موجود ہیں ،مسلم علاقوں میں مسلم مینجمنٹ کے ادارے بھی ہیں، بڑے بڑے مسلم تاجر اور کمپنیاں بھی ہیں جو آن لائن کے دور میں گھر سے بھی کام کراسکتے ہیں ۔آن لائن اخبارات و رسائل بھی ہیں، جن میں مضامین لکھے جاسکتے ہیں،خواتین خود بھی آن لائن بزنس کرسکتی ہیں ،رسائل نکال سکتی ہیں،یوٹیوب چینل بناکربہت سی چیزیںدوسروں کو سکھا سکتی ہیں۔اس وقت تعلیم یافتہ مسلم خواتین کی صورت حال یہ ہے کہ یا تو وہ اہل و عیال میں رہ کر اپنی صلاحیتوں کو زنگ آلود کررہی ہیں یا پھر غیروں کی نقالی میں سب کچھ دائوں پر لگارہی ہیں ،بہت کم بلکہ ہر شہرمیں انگلیوں پر گنے جانے والی خواتین ہیں جن سے استفادہ کیا جارہا ہے ۔یہ ذمہ داری سماج کی بھی ہے کہ وہ اپنے معاشرے کی تعلیم یافتہ خواتین کی صلاحیتوں سے حسب سہولت فائدہ اٹھائیں اور خود تعلیم یافتہ خاتون کی بھی ہے کہ کسی نہ کسی طرح اپنے علم کو زندہ اور باقی رکھے ۔ہم جانتے ہیں کہ علم اسی وقت باقی رہتا ہے جب وہ تقسیم کیا جاتا ہے۔
دور رسالت میں خواتین نے مردوں کے شانہ بشانہ کام کیا ۔حضرت عائشہ ؓ وہ خاتون ہیں جنھوں نے اکیلے زندگی کے ہر میدان میں نمایاں رول ادا کیا، انھوں نے علم حدیث میں خواتین میں سب سے زیادہ احادیث روایت کیں، میراث کا علم سیکھا،مرد بھی ان سے علم سیکھتے تھے،وہ علم طب کی بھی ماہر تھیں،وہ شاعرہ بھی تھیں ۔حضرت زینب ؓ چمڑے کی دستکار تھیں،ام مبشر انصاریہؓ زراعت کی ماہر تھیں،ام عطیہؓ طبیب اور جراح تھیں یعنی آج کل کی زبان میں سرجن تھیں،حضرت خدیجۃ الکبریٰؓ بڑی تاجرہ تھیں،حضرت خنساء ؓ کی شاعری مجاہدین کے حوصلوں کو بڑھاتی تھی،حضرت ام عمارہ ؓمیدان جنگ میں خواتین کی قیادت کرتی تھیں ،تمام جنگوں میں نرسنگ کاکام خواتین کے ذمہ ہوتا تھا وہی زخمیوں کو پانی پلانے کا کام کرتی تھیں ،وہ تیر انداز بھی تھی اور تلوار بھی چلاتی تھیں ،وہ خیمے بناتیں ،تیر بناتیں اور تلواریں تیز کرتی تھیں۔حضرت اسماء بنت مخزمہ ؓ عطر کا کاروبار کرتی تھیں،حضرت خولہ خود کماتیں اور اپنے شوہر پر خرچ کرتی تھیں ۔حضرت شفاء ؓعہد رسالت میں مدینہ مارکیٹ کی نگراں مقرر کی گئی تھیں۔
ایک دو نہیں سیکڑوں صحابیات کو آپ پائیں گے جو سامان حرب بنانے، تجارت،زراعت،صنعت کرنے میں مصروف نظر آئیں گی ۔ظاہر ہے انھیں ان کاموں کے لیے گھر سے باہر بھی جانا ہوتا ہوگا ۔ان کے شوہروں کو کچھ زحمتیں بھی اٹھانی پڑتی ہوں گی ۔اس وقت کے حالات تو جنگ کے تھے ،مسلمانوں پر ہر طرف سے خطرات تھے ۔آج کے حالات تو قدرے پر امن ہیں ،ابلیس اور اس کی ذریت اس دن بھی تھی اور آج بھی ہے ۔یہ تو ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین کے ٹیلینٹ سے کیسے فائدہ اٹھائیں ۔اگر اس طرح خواتین چار پیسے کمائیں گی تو اپنے اخراجات خود برداشت کرلیں گی ،اپنے شوہروں کا ہاتھ بٹائیں گی،مالدار ہوں گی تو غریبوں کی مدد کرسکیں گی ۔یہ کونسا اسلام ہے جو خواتین کی علمی صلاحیتوں سے استفادے کی راہ میں حائل ہوگیا ہے یہ وہ دین تو نہیں جو ہمیں اللہ اور اس کے رسول سے ملاتھا۔ خدا کے لیے انھیں وہ حقوق دیجیے جو اللہ اور اس کے رسول نے انھیں دیے ہیں۔ان کی صلاحیتوں سے سماج کو مستفید ہونے کے مواقع تلاش کیجیے ۔جو شوہر اس کام میں ان کا تعاون کریں گے وہ بھی اجر میں شریک ہوں گے ۔علم سے دوسروں کو فائدہ پہنچانا صدقۂ جاریہ ہے ۔ یہ دنیا میں عزت اور آخرت میں جنت کا مستحق بناتا ہے۔
٭٭٭