اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے کیلئے بھارتیہ جنتاپارٹی اب تک اتنی سیاسی بازیگری کرچکی ہے کہ اب اس کی نیک نیتی پر کسی کوبھی اعتبار نہیں رہاہے۔ بی جے پی کی ہر سیاسی پیش رفت کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھاجانے لگا ہے۔حال کے دنوں میں بی جے پی کی قیادت والی مرکزی حکومت نے جس طرح ’ ایک ملک- ایک انتخاب‘ کا شوشہ چھوڑا ہے،اس نے تو اس کی رہی سہی ساکھ بھی دائو پر لگادی ہے۔سیاسی جماعتیں اس کی مخالفت تو کرہی رہی ہیں، سماج کے مختلف طبقوں سے بھی اس کے خلاف آواز اٹھنے لگی ہے۔کچھ لوگوںکو تو یہ بھی محسوس ہورہاہے کہ بھارتیہ جنتاپارٹی ’ ایک قوم- ایک انتخاب‘ کا شوشہ چھوڑ کر اس سال کے آخر میں پانچ ریاستوں مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم میں ہونے والے اسمبلی انتخاب کوٹالنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ صدرراج کے پردے میں بالواسطہ اس کی حکمرانی قائم ہوسکے۔
سپریم کورٹ میں معروف وکیل اور سماجی خدمت گار پرشانت بھوشن کاکہنا ہے کہ ’ایک ملک- ایک انتخاب‘ کے فروغ دینے کا فوری مقصد پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات کو ملتوی کرنا ہے۔پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ ہندوستان جیسی پارلیمانی جمہوریت میں ’ایک ملک- ایک انتخاب‘ نافذ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہمارے ملک میں اگر حکومت اکثریت کھو دیتی ہے تو وہ اپنی مدت کے وسط میں گر جاتی ہے اور نئی حکومت بنتی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اگر ’ایک ملک- ایک انتخاب‘ کے نظریے پر عمل ہوتا ہے تو حکومت گرنے کی صورت میں صدر راج نافذ کرنا پڑے گا جو جمہوریت کے خلاف ہے اوراس کا سیدھا سادا مطلب یہ ہے کہ ہم جمہوریت سے صدر راج کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ پارلیمانی جمہوریت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ حکومت اس سے اچھی طرح واقف ہے اور جانتی ہے کہ صدر راج نافذ کرنے کیلئے آئین میں بہت سی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کے پاس راجیہ سبھا میں اکثریت نہیں ہے۔ وہ ان تمام حقائق سے بھی واقف ہے۔ اس کے باوجود‘ حکومت ’ایک ملک-ایک انتخاب‘ کی سمت میں آگے بڑھی جس کا واحد مقصد اس سال کے آخر میں ہونے والے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم اسمبلی انتخابات کو ملتوی کرنا ہے۔
ممکن ہے کہ اس الزام میں سردست کوئی صداقت نظرنہ آرہی ہو لیکن بی جے پی کا سابقہ ریکارڈ دیکھتے ہوئے اسے اس معاملہ میں شک کا فائدہ بھی نہیں دیاجاسکتا ہے۔اس کی دو وجوہات ہیں، پہلی یہ ہے کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں اپوزیشن اتحاد نے بی جے پی اوراس کی حلیف جماعتوں کو سخت چیلنج دیا ہے۔جن 6 ریاستوں میں ضمنی انتخاب ہوئے ان میں سے 4 ریاستوں میں اپوزیشن اتحاد ’انڈیا‘ مضبوط طور پر ابھرا ہے اور 7 حلقوں میں سے4پر کامیابی حاصل کی ہے۔یہ چاروں وہ حلقے ہیں جن پر پہلے بی جے پی کا قبضہ تھا۔ ضمنی انتخاب کے اس نتیجہ سے بھی یہ اندازہ ہوتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کو ان پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں شکست کا خوف ہے۔ اس لیے وہ ’ایک ملک- ایک انتخاب‘ کے نام پر اسمبلی انتخابات کو 2024 کے لوک سبھا انتخابات تک ملتوی کرنا چاہتی ہے، تاکہ ان ریاستوں میں صدر راج نافذ کیا جا سکے۔
پرشانت بھوشن کے الزامات پر اس وجہ سے بھی سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی نے ابھی سے ہی اپنی پوری توجہ لوک سبھا انتخاب پر مرکوزکررکھی ہے اوراس کیلئے اس نے ملک بھر میں300کال سینٹر بھی قائم کردیے ہیں۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ بغیر کسی ایجنڈے کے بلائے گئے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے بعدمودی حکومت کسی بھی وقت لوک سبھا کو تحلیل کرکے الیکشن کمیشن کو انتخابات کی سفارش کردے۔ اگرا یسا ہواتو پھر سال کے آخر میں ہونے والے مدھیہ پردیش، راجستھان، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور میزورم اسمبلی انتخابات مؤخر کرکے اگلے سال کے آغاز میں ہونے والے 6 ریاستوں کے ساتھ کرائے جائیں گے۔ اس طرح مودی حکومت کوان 5ریاستوں میں صدر راج نافذ کرکے لوک سبھا انتخابات میں اپنی راہ ہموار کرنے کابھرپور موقع مل سکتا ہے۔’ایک ملک- ایک انتخاب‘ کا شوشہ چھوڑنے سے بی جے پی کو ہونے والے یہ فوری فوائد ہیں جن کی جانب پرشانت بھوشن نے اشارہ کیا ہے۔لیکن اس کے سنگین نتائج ملک کے عوام کو بھگتنے ہوں گے کیوں کہ متواتر انتخابات حکومت اور مقننہ کو کنٹرول میں رکھتے ہیں جب کہ بیک وقت انتخاب کی صورت میں ایسا نہیں ہوگا۔ عوام کے احتساب کا خوف پانچ برسوں کیلئے ختم ہوجائے گا اور حکومت بے لگام ہوجائے گی۔اس خدشہ سے بھی انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اگر مودی حکومت اپنے اس مقصد میں کامیاب ہوگئی تو اگلا مرحلہ ’ایک ملک – ایک پارٹی‘ کا لے کر نہ آجائے۔ اورپھر پارلیمانی جمہوریت کی جگہ ’مسلمہ آمریت‘ کاطوق غلامی ہندوستان کے عوام کا مقدر ٹھہرے گا۔
[email protected]
بڑھتے خدشات
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS