عبدالماجد نظامی
گروپ ایڈیٹر
جی20-جو دنیا کی 20 بڑی عالمی اقتصادیات کا گروپ ہے اس کی تشکیل 1999 میں وزرائےخارجہ اور بینکوں کے گورنروں کے ذریعہ اس وقت عمل میں آئی تھی، جب دنیا کا اقتصادی نظام خاص طور سے ایشیائی ممالک کا اقتصادی نظام سخت بحران کا شکار ہوگیا تھا اور آئندہ ایسے بحرانوں کی نوبت نہ آئے یا اگر ایسے مسائل سامنے آئیں تو ان سے کیسے بچا جائے اس مقصد کے تحت اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔ 2008 میں اس کے اراکین کی تعداد میں اضافہ کیا گیا تھا۔ گویا بنیادی طور پر یہ مالی اور اقتصادی مسائل کو مشترکہ طور پر حل کرنے کی غرض سے جمع ہونے والی جماعت ہے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جس طرح اس گروپ کے اراکین میں اضافہ ہو رہا ہے، جیسا کہ دہلی چوٹی کانفرنس میں افریقی یونین کو شامل کرکے اس کی توسیع کا کام ہوا ہے، اسی طرح سے جی20- کے ایجنڈوں میں بھی وسعت ہوئی ہے اور اقتصادی امور کے علاہ سیاسی، ماحولیاتی اور بین ممالک مسائل کو حل کرنے کی کوشش بھی اس پلیٹ فارم سے کی جانے لگی ہے۔ اگر مذکورہ بالا نکات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ جائزہ لیا جائے کہ جی20- کی دہلی چوٹی کانفرنس ،جس کا انعقاد ہندوستان کی صدارت میں ہوا، اس سے کیا نتائج سامنے آئے تو کہا جا سکتا ہے کہ اس چوٹی کانفرنس کی سب سے بڑی کامیابی یہ رہی کہ اس کے اعلامیہ میں اس بات کا خاص اہتمام کیا گیا کہ خواہ عملی طور پر بہتر نتائج نہ نکلیں لیکن ایسے الفاظ کا استعمال ضرور کیا جائے، جو کانوں کو بھلے معلوم ہوں۔ اس کا صاف اندازہ روس کی یوکرین پر جاری جنگ سے متعلق دستاویز سے لگایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ دنیا کے بنیادی اقتصادی مسائل اور ان کو درپیش چیلنجوں کو بھی الفاظ کے گورکھ دھندوں سے چھپانے کی کوشش کی گئی ہے، لیکن ٹھوس اقدامات کے سلسلہ میں کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ہے۔ ڈپلومیٹ اور تجزیہ نگاروں کے حوالہ سے رائٹرز نے بالکل درست لکھا ہے کہ یوکرین- روس جنگ پر جو بیان تیار کیا گیا، اس پر تمام اراکین کا اتفاق ہوا اور آپسی اختلافات کو جگہ نہیں مل پائی جیسا کہ اس سے قبل جی20- کی میٹنگوں میں ہوتا رہا ہے اور روس کے خلاف مغربی ممالک کے نقطہ نظر کی نمائندگی اعلامیہ میں ہو جاتی تھی۔ اس سے قبل بالی میں جو اعلامیہ پیش کیا گیا تھا، اس میں بھی روس کے خلاف سخت الفاظ استعمال کئے گئے تھے۔ اس اعتبار سے یقینا یہ ایک کامیاب کوشش تھی، جس میں انڈیا نے اپنی قابلیت کا اظہار کیا اور اپنے قریبی اور قدیم روایتی حلیف روس کی نظر میں سبکی کا شکار نہیں ہوا۔ روس نے بھی اس موقف پر انڈیا کی تعریف کی، جس کا اظہار روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاو¿روف نے نریندر مودی سے ملاقات کے دوران کیا۔ دہلی چوٹی کانفرنس کی دوسری کامیابی بجا طور پر یہ مانی جا رہی ہے کہ افریقی یونین کو جی20- کی رکنیت عطا کرکے یہ پیغام بھیجا گیا ہے کہ گلوبل ساو¿تھ کی آواز کو ہر عالمی پلیٹ فارم پر مضبوط بنانے کی ضرورت ہے، تاکہ نظامِ عالم میں ایک توازن پیدا ہوسکے اور ترقی یافتہ ممالک کے مقابلہ میں ترقی پذیر ملکوں کو اپنے مسائل دنیا کے سامنے پیش کرنے اور ان کا انسانی حل تلاش کرنے میں مدد مل سکے۔ اسی طرح کی کوششوں کا عکس گزشتہ مہینہ برکس کی چوٹی کانفرنس میں بھی دیکھنے کو ملا تھا، جہاں نئے 6 ممالک کو رکنیت سے نوازا گیا تھا۔ یہ کامیابیاں یقینا قابل تعریف ہیں اور ایک متوازن نظام عالم کا پتہ دیتی ہیں اور ان کامیابیوں کےلئے انڈیا کو ہمیشہ سراہا جائے گا۔ لیکن باقی محاذوں پر کچھ ہی کامیابی نصیب ہوئی۔ نیویارک کی تنظیم کاو¿نسل آن فارین ریلیشنز کے صدر مائیکل فورمین کی یہ بات قابل غور اور لائقِ عمل ہے کہ جی20- کو اگر ایسے ملٹی لیٹرل فورم کے طور پر دیکھا جائے، جہاں اتفاق رائے کو حاصل کرنا ممکن ہے تو اس لحاظ سے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم ہے۔ کیونکہ یہاں الفاظ ہی نہیں بلکہ عمل کے ناحیہ سے بھی دنیا کے مالی امور جیسے پیچیدہ مسائل پر اتفاق رائے پیدا کیا جانا ممکن ہوجاتا ہے۔ البتہ آئندہ اس بات پر توجہ مرکوز کی جانی چاہئے کہ صرف اعلامیہ کے اچھے الفاظ ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات کو بھی یقینی بنایا جائے۔ اس کے باوجود اعلامیہ پر جو اتفاق پیدا ہوا وہ غیر معمولی ہے، کیونکہ ایسا نہیں ہوتا تو یہ پیغام جاتا کہ جی20- آپسی انتشار کا شکار ہے۔ ایک طرف مغربی ممالک کا خیمہ ہوتا اور دوسری طرف روس اور چین کا جبکہ باقی اراکین بے بسی کے ساتھ تماشہ دیکھتے نظر آتے جو بالکل برا ہوتا۔ لیکن یوکرین کے عوام پر جو مصیبتیں ٹوٹی ہیں، ان کا ذکر بھی اگر ہوتا اور جنگ کے بجائے بات چیت کے ذریعہ دنیا کے مسائل حل کرنے میں دنیا کی 85 فیصد آبادی کی نمائندگی کرنے والا یہ گروپ دلچسپی دکھاتا تو اس کی تصویر بہت بہتر ہوتی۔ اعلامیہ میں یہ اتفاق رائے پیدا کرنا ہی جی20- کی بڑی کمزوری بھی مانی جاتی ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے ٹھوس پالیسیاں نہیں بن پاتی ہیں اور اسی لئے بعض تجزیہ نگار جی20- کو ایک ناکام پلیٹ فارم مانتے ہیں۔ تقریباً اسی پہلو کا اظہار ماحولیات کے مسائل، غریب اور ترقی پذیر ممالک کے اقتصاد اور قرض سے متعلق پریشانیوں، گرین انرجی کو بڑھاوا دینے اور کوئلہ اور دیگر فوسل انرجیوں کے استعمال کو کم کرنے جیسے مسائل پر کوئی قابل عمل خطہ نہ ہونے سے پتہ چلتا ہے۔ جی20- کی ایک کامیابی یہ بھی رہی کہ یہاں سے دنیا کو ایک کنبہ، ایک فیملی اور ایک مستقبل کا نعرہ دیا گیا، لیکن ملکی سطح پر ہندوستان کو بانٹا جاتا ہے اور یہ سب کچھ نریندر مودی کی قیادت والی سرکار میں ہو رہا ہے۔ تو کیا دنیا کو یہ پیغام سمجھ میں آئے گا؟ کیا قول و عمل کا وہی تضاد یہاں بھی نہیں نظر آ رہا ہے جو اس کے اعلامیہ کے اندر جھلکتا ہے؟ اگر ایسے پلیٹ فارموں کو مو¿ثر بنانا ہے تو دنیا کے لیڈران کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پردوں اور بینروں سے جس طرح دہلی کی غریبی کو نہیں چھپایا جا سکتا ہے، ویسے ہی خوبصورت الفاظ سے جی20- جیسے گروپوں کی کامیابی کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ میڈیا کی آزادی، سوالات پوچھنے والوں کو تحفظ اور غریبوں کو چھپانے کے بجائے غربت کو ختم کرنے والی پالیسیاں بنانے سے ہی ایسی تنظیموں کو وقار ملے گا، ورنہ لیڈران اپنی سستی شہرت اور انتخابات میں اپنی شبیہ چمکانے کےلئے ہی ان پلیٹ فارموں کا استعمال کریں گے اور آخر کار اپنی اصل حیثیت کھو دیں گے۔
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS