سیف الرحمن
گزشتہ کئی دنوں سے سناتن دھرم کو لیکر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ کے بیٹے اور تمل ناڈو حکومت میں وزیر ادھیاندی اسٹالن کے ذریعے ایک سیمینار میں دیا گیا وہ بیان ہے جس میں وہ کہ رہے تھے کہ “کچھ چیزوں سے لڑا نہیں جاتا بلکہ اْسے ختم کر دیا جاتا ہے جیسے کہ کورونا،ڈینگو اور ملیریا، اسی طرح سناتن ہے جس سے لڑنا نہیں چاہئے بلکہ اسے ختم کر دینا چاہئے”، اسٹالن نے یہ بیان تمل ناڈو کے سماجی مساوات کے نظریہ کے مطابق دیا ہے، کیونکہ انیسویں صدی میں جب آریہ سماج،برہمو سماج جیسی تحریکیں ہندو سماج میں موجود غیر برابری و خواتین کے ساتھ مظالم کے خاتمے اور اس طرح کے دیگر سماجی برائیوں کے خلاف اصلاح کی مہم چلا رہے تھے تبھی سناتن نظریہ بھی سامنے آیا جو کہ ہندو سماج کے اْس قدیم فکر کی حفاظت کیلئے کھڑا ہوا جس میں برہمن،چھتریے،ویشیہ و شودر کی درجہ بندی والا نظام قائم تھا اور جس میں خواتین کو تمام طرح کے انسانی حقوق سے محروم رکھا جا رہا تھا،پھر اْسی سناتن نظریہ کی سیاسی شاخ ہندتوا کی شکل میں سامنے آئی جسے پہلے ہندو مہا سبھا اور بعد میں راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ و اس کے ذریعے قائم پورے سنگھ پریوار بشمول جن سنگھ پھر بھارتیہ جنتا پارٹی نے آگے بڑھایا اور کہیں نہ کہیں جہاں ایک طرف برہمو سماج،آریہ سماج وغیرہ کی وجہ سے بیسویں صدی آتے آتے تک ملک کے ریاستی قانون میں ہندو کوڈ بل جیسے اصلاح ہوئے و سماجی نظام میں بھی بہت سے اصلاحات ہوئے تو وہیں دوسری طرف سناتن دھرم بالخصوص اْس کے سیاسی شاخ ہندوتو اکے نظریہ نے اس طرح سے ہندو عوام کے اذہان پر قبضہ کیا ہے کہ آج 2024 میں ہندوتوا کا مطلب ہندوازم و ہندوازم کا مطلب ہندوتو نظر آ رہا ہے ،گرچہ اس کامیابی تک پہنچنے کیلئے ہندوتو کے علمبرداروں نے بہت سے معاملات میں تھوڑی سی لچک پیدا کیا ہے جیسے کہ خواتین کو ہر میدان میں جگہ دینے کا نعرہ دیا بلکہ اْن کے درمیان تنظیمیں بنائی اور طبقاتی تفریق کو “ہم سب ہندو” کے نعرے کے تحت ختم کر دینے کا اشارہ دیا،مگر بنیادی طور پر اس فکر کے حاملین کا اعتماد و یقین طبقاتی نظام والے و مرد حضرات کی افضلیت والے اْسی ورنا سسٹم پر قائم ہے، اور بارہا کبھی دبے زبانوں میں تو کبھی مضبوطی سے اسکا اظہار بھی کر دیا جاتا ہے جیسا کہ کْچھ دن پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی بہار کے صوبائی صدر سمراٹ چودھری نے کہا کہ برہمن ہمیشہ سے افضل تھے اور افضل ہے، باقی انکی پالیسیاں تو مکمل طور پر اسی رخ پر نظر آتی ہی ہے! اب جہاں تک بات ہے اسٹالن کے بیان کا تو اس کو سمجھنے کے لئے ہمیں تمل ناڈو کی سیاست اور وہاں کے سماجی مساوات کی جدوجہد کو سمجھنی ہوگی کہ تمل ناڈو کی زمین وہ ہے جہاں بھکتی آندولن بہت مضبوطی سے چلا اور ورنا سسٹم کا مضبوط گڑھ وہ پورا علاقہ ہوا کرتا تھا،تب طبقاتی تعصب و نابرابری کے خلاف پہلے جسٹس پارٹی کی تحریک چلی اور پھر مجاہد آزادی راماسوامی پیریار نے انڈین نیشنل کانگریس سے استعفیٰ دینے کے بعد 1926 میں سیلف ریسپیکٹ تحریک چلائی، پھر دراودر کزاگڈم کے نام سے مستقل فکری و سماجی تبدیلی کی تحریک کی بنیاد ڈالی گئی جس کا اثر دیکھتے ہی دیکھتے پورے تمل ناڈو میں پھیل گیا اور جنوبی ہند کے دِیگر علاقوں میں بھی اس کے اثرات مرتب ہوئے جس کے بعد سے آج تک وہاں پر یا تو وہ ہندو رہیں جو کہ مذہب پر اعتماد نہیں کرتے ہوئے صرف انسانیت کا نظریہ مانتے ہیں یا پھر وہ لوگ ہیں جو کہ ہندوازم پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن ورنا سسٹم کو نہیں مانتے بلکہ دراوڑ تمل قومیت پر یقین رکھتے ہیں اور سماجی مساوات و حقوقِ نسواں اور عقلیت پسندی کی بات کرتے ہیں، اس طرح تمل ناڈو برہمنوادی نظریہ کے خلاف ایک مرکز کی حیثیت اختیار کر لیا جس کے سانچے میں ڈھلی سیاست نے بھی وہاں پر جنم لیا چنانچہ پیریار کے ساتھی سی.این انادورائی نے 1949 میں دراویدا منیترا کزاگم (ڈی.ایم.کے) کی بنیاد ڈالی اور پھر تمل ناڈو میں حکومت بھی قائم کی جس میں سی.این.انادرائی مدارس اسٹیٹ کے وزیر اعلیٰ بھی ہوئے پھر اسی تحریکِ کے اثر سے 1956 میں تمل ناڈو صوبہ بھی قائم ہوا جس کے پہلے وزیرِ اعلیٰ سی. این. انادرائی ہی بنے، آگے چل کر ڈی.ایم.کے سے ہی ٹوٹ کر 1972 میں ایم.جی راماچندرن نے آل انڈیا انا درودا منیترا کزگم (اے.آئی.ڈی.ایم.کے) قائم کیا ،جس کے بعد سے ہی آج تک یہ دونوں پارٹیاں ہی تمل ناڈو پر حکومت کر رہی ہے جو کہ اس دریوڑ نظریہ کی تمل ناڈو میں پکڑ کو ظاہر کرتا ہے! اب اگر ہم اسٹالن کے سناتن کو ختم کرنے والے بیان کو سمجھنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ یہ جنوبی ہند سمیت پورے ملک میں ہندوازم سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے الگ الگ نظریاتی گروپس کی نظریاتی لڑائی ہے جیسا کہ ہر ایک مذہب کے ماننے والوں میں اور ہر نظریہ کے ماننے والوں کے اندرونی افکار کے درمیان ہوتا ہے، اب اگر ان تمام نکات کو سامنے رکھتے ہوئے دیکھا جائے تو اسٹالن کے اس بیان پر ہنگامہ آرائی کا کوئی جواز نہیں بنتا ہے!مگر چونکہ 2024 کا لوک سبھا انتخاب بہت قریب ہے اور انڈیا اتحاد کے مضبوط شکل اختیار لینے کے بعد جو لڑائی 2019 میں یکطرفہ تھی وہ اب 2024 کیلئے آرپار کی بن گئی ہے لہٰذا وہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس کے سارے پْرانے کارڈ ناکام ہوتے نظر آرہے ہیں اْس نے اس موضوع کو اْچک لیا اور اسٹالن کے بیان کو مکمل طور پر توڑ مرڑوڑ کر اسے 2024 کیلئے اپنا پْل بنانے کی کوشش کر رہی ہے جس میں کارپوریٹ میڈیا بھاجپا کا مکمل ساتھ نبھا رہا ہے, بھارتیہ جنتا پارٹی کے اس ہنگامہ کی ایک وجہ اور بھی ہے کہ سماجی مساوات کی تحریک نے جنوبی ہند سے نکل کر پورے ملک میں پیر پسارا جس کے تحت بابو جگدیو پرساد نے تحریک چلائی پھر بعد میں جے.پی تحریک و لالو پرساد یادو ،ملائم سنگھ یادو وغیرہ کے ذریعے بہار و اْتر پردیش میں سماجی مساوات کے نعرے کے ساتھ مکمل سیاسی انقلاب برپا ہوا جس کے اثرات ملک بھر پر پڑے اور اب گزشتہ چند سالوں میں خاص کر 2014 کے بعد سے شمالی ہند کے بھی اندر و ملک کے الگ الگ علاقوں میں بھی اب سیاسی تبدیلی سے آگے بڑھ کر نظریاتی تبدیلی کے آثار نظر آرہے ہیں جس کی ایک تصویر پیریار کے یوم ولادت پر تیجسوی یادو و اکھلیش یادو کے ذریعے خصوصی پوسٹ کرنے میں بھی دکھا اور پرفیسر،طلباء و طالبات و دانشوران کے درمیان اس موضوع پر مسلسل گفتگو و عام نوجوانوں کے درمیان بھی اس نریٹو پر مبنی پروگرامس دیکھے جارہے ہیں، یہ نظریاتی تبدیلی کے آثار اور اس نریٹو کا گفتگو میں بڑھتے جانا ہندوتو نظریہ کیلئے بھی خطرے کے گھنٹی بنتا جا رہا ہے کیونکہ اگر شیڈیول کاسٹ امبیڈکر کے نظریہ کو اور او.بی.سی پیریار کے نظریہ کو سمجھنے سمجھانے لگے تو ہندوتو کے نظریہ کا ان کے سامنے ٹک پانا شاید ہی ممکن ہو اور پھر سو سال و سوا سو سال کی محنت پر پانی پھر جائے!اب جب کہ سٹالن کے بیان کے بعد اس پر ہنگامہ آرائی شروع ہوئی تو یہ انڈیا اتحاد کیلئے ایک بڑا امتحان تھا کہ وہ کیسے بھاجپا کے نریٹو کو ناکام کر کے اس معاملے میں بھی اپنا کھیل کھیل جائے، جس میں انڈیا اتحاد ناکام ثابت ہوا ہے اور آج پوری میڈیا اس معاملے کو لیکر انڈیا اتحاد کو یکطرفہ ٹارگیٹ کر رہا ہے ساتھ ہی پوری بھارتیہ جنتا پارٹی نئی روح کے ساتھ انڈیا پر حملہ آور ہوکر کہیں نہ کہیں انڈیا کی شبیہ خراب کرنے میں کچھ حد تک ہی صحیح کامیاب ثابت ہو رہی ہے، گرچہ اس کا بہت زیادہ نقصان اتحاد کو نہیں ہوگا ،مگر ہونا یہ چاہئے تھا کہ جیسے ہی ویڈیو وائرل کرکے بھاجپا و کارپوریٹ میڈیا نے اپنا کھیل شروع کیا ویسے ہی پہلے اس بحث کو دبانے کیلئے بھاجپا کے اتحادی جیتن رام مانجھی کے برہمن مخالف و شری رام مخالف بیانات کو تو اسی طرح رام داس اٹھاولے اور بھاجپا و این.ڈی.اے کے اور دیگر کئی لیڈران کے ایسے بیانات جوکہ سناتن نظریہ و ہندوتوا نظریہ کے خلاف ہیں اْسے پوری طرح سے پھیلا دینا چاہیئے تاکہ خود بھاجپا لیڈران و کارپوریٹ میڈیا اس موضوع پر خاموش ہو جاتی اور پھر اس کے بعد اسی موقع کو استعمال کرتے ہوئے برہمن وادی نظریہ کو اچھے سے گھیر کر سماجی مساوات کے سبھی تحریکوں پر گفتگو شروع کر دی جاتی جس کے آڑ میں بھاجپا و آر.ایس.ایس کے مقاصد،نظریات،پالیسیز و بیانات اور لٹریچر کو خوب ایکسپوز کیا جاتا! اس بحث کے بعد انڈیا اتحاد کو فوری طور پر اپوروانند،یوگیندر یادو،مولانا سجّاد نعمانی،دلیپ سی منڈل جیسے دانشور حضرات کو لیکر ایسا تھینک ٹینک قائم کرنا چاہیے جو کہ ایسے پروپیگنڈے و نریٹو کے معاملات میں فوری طور پر کاؤنٹر نریٹو کا پلان و مواد تیار کر سکے اور سوشل میڈیا ٹیم فوری طور پر اس پر کام کر سکے کیونکہ اگر آپ مستقل نریٹو کا کاؤنٹر کرنے و اپنا نریٹو سیٹ کرنے و ایجنڈا سیٹنگ کیلئے تیار نہیں رہیں گے تو شاید آپ سب کچھ کر کے بھی 2024 کی لڑائی ہار جائے، کیونکہ آپ کیلئے مضبوط اتحاد بنا کر کم سے کم ساڑھے چار سو سیٹ پر آرپار کی لڑائی دینے کے بعد سب سے اہم یہی ہے کہ آپ میڈیا،سوشل میڈیا،انٹیلیکچوئل ڈیبیٹ سے لیکر ڈور ٹو ڈور تک نریٹو،پروپگینڈہ،ایجنڈا سیٹنگ کے محاذ پر مستقل بھاری بنے رہے اور اس محاذ پر بھاجپا و این.ڈی.اے کو ہر طرح سے بیک فٹ پر رکھے رہیں۔
[email protected]