امیتابھ کانت
بھارت کے جی 20شیرپا
ہیلن کلارک
پی ایم این سی ایچ بورڈکی صدر
خواتین ، بچوں اور نوعمروں کی صحت میں سرمایہ کاری عالمی سطح پر پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے اہم ہے ۔ ہر سال، تمام جی 20 ممالک میں، ماؤں، نوزائیدہ بچوں، بچوں، اور نوعمروں میں تقریباً 20 لاکھ ایسی اموات ہوتی ہیں جن کی روک تھام کی جا سکتی ہے ، ان میں مردہ بچوں کی پیدائش بھی شامل ہے ۔ (2،1) حالیہ برسوں میں، ان منفی نتائج کے کلیدی محرکات میں انگریزی کے چار “سی” شامل ہیں: کووڈ 19، کنفلیکٹ (تنازعہ)، کلائمٹ چینج (موسمیاتی تبدیلی)، اورکوسٹ آف لیونگ کرائسس ( زندگی کے بحران کی قیمت)۔ ان عوامل نے مل کر خواتین، بچوں اور نوعمروں کی صحت و تندرستی کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔ نظامی امتیاز اور شدید موسمی واقعات میں اضافہ، خوراک کا عدم تحفظ اور غربت خواتین، بچوں اور نوعمروں کی صحت میں کمی کی بڑی وجوہات ہیں۔سال2000 میں، موسمیاتی ہنگامی صورتحال پہلے ہی دنیا بھر میں 150000 سے زیادہ اموات اور بیماری کے بڑھتے ہوئے عالمی بوجھ کے لیے ذمہ دار تھی، ان میں 88فیصدبچے شامل تھے ۔(3یا4) ایک اندازے کے مطابق موسمیاتی ہنگامی صورتحال سے بے گھر ہونے والے 80فیصد افرادمیں سے اکثر خواتین ہیں، جس کی بڑی وجہ صنفوں کے درمیان معاشی اور سماجی تفاوت ہے ۔ (5)
اس طرح کے عدم مساوات، ماحولیاتی نقصان، اور انسانی جانوں و سرمائے کا نقصان انتہائی تکلیف دہ ہے اوراس کے نتائج خواتین پر سب سے زیادہ منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں، جس سے “غربت کی نسوانیت” بڑھ جاتی ہے ۔ پوری دنیا میں،تعلیم کی سطح یکساں ہونے کے باوجود مردوں کے مقابلے میں خواتین کم کماتی ہیں ۔
عالمی آبادی کی دو تہائی جی۔ 20 ممالک میں رہتی ہے اور وہ جو اقدامات اجتماعی طور پر کرتے ہیں وہ عالمی سطح پر ہوتے ہیں۔ اب جی 20 کو خواتین، بچوں اور نوعمروں کی صحت کو بہتر بنانے اور زندگی کے قابل امتناع نقصان سے نمٹنے کے لیے کام کرنا چاہیے ۔ ہندوستان اس وقت جی 20 کی صدارت پرکر رہا ہے اور وہ عالمی سطح پر صحت کی خدمات حاصل کرنے اور حفظان صحت کی خدمات کی فراہمی کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے ۔ مثال کے طور پر، بھارت نے 2021 میں شروع کی گئی ڈیجیٹل حکمت عملی کے حصے کے طور پر ڈیجیٹل صحت کے حل کے لیے متعدد اقدامات تجویز کیے ہیں۔ (7) ان ڈیجیٹل آلات نے حفاظتی ٹیکوں کے کوریج کی نگرانی کے لیے ایک بلین لوگوں کا رجسٹریشن کرایا اور 1.78 بلین سے زیادہ کووڈ19 ویکسین کی خوراکیں فراہم کی۔ بھارت نے صحت عامہ پر موسمیاتی بحران کے جاری اثرات اور وبائی امراض کی بہتر تیاری اور ردعمل کی کوششوں کے پیش نظر موسمیاتی-صحت کے اثرات پر بھی اقدامات کرنے کی تجویز پیش کی ہے ۔ لیکن یہاں یہ بات یہ یقینی بنانی ضروری ہے کہ یہ اقدامات صنف اور عمر کے لحاظ سے حساس ہوں، مثال کے طور پر خواتین پر مرکوز ڈیجیٹل صحت کی خدمات کو ترجیح دینے کے ذریعہ۔
اچھے طریقوں کا اشتراک اور مشترکہ چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک کے مابین تعاون اہم ہے ۔ مثال کے طور پر، موسمیاتی تبدیلی مؤثر موافقت کے لیے دونوں نظامی طریقوں کی ضرورت ہوتی ہے اور، ممالک کے لیے مالی وسائل کو بڑھانے اور جنوبی جنوب اور شمالی جنوب کے مابین تعاون کے ذریعہ تکنیکی صلاحیتوں کو بڑھانے میں ایک دوسرے کی کوششوں کو حمایت حاصل ہونا شامل ہے ۔ جی 20 ممالک کو خواتین، بچوں اور نوعمروں کو درپیش صحت و بہبود کے چیلنجوں پر قابو پانے کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کرنے چاہئے۔
اول، جی۔ 20ممالک کو صحت کے نظام کو مستحکم کرنے ، ضروری صحت خدمات تک رسائی کو بڑھانے اور صحت کے سماجی عوامل جیسے غربت اور صنفی عدم مساوات کو دور کرنے کے لیے کراس کٹنگ فنانسنگ کو ترجیح دینی چاہیے ۔ صنفی نظریہ کے ذریعہ فزیکل اور ڈیجیٹل انفراسٹرکچر میں سرمایہ کاری بلا معاوضہ کام کے بوجھ کو کم کر سکتی ہے ، فلاح و بہبود کو بہتر بنا سکتی ہے ، ملازمتیں پیدا کر سکتی ہے ، افرادی قوت کی شرکت میں اضافہ کر سکتی ہے ، ڈیجیٹل صنفی فرق کو کم کر سکتی ہے ، پیداواری صلاحیت کو بڑھا سکتی ہے اور اقتصادی ترقی کو فروغ دے سکتی ہے ۔
دوم، متعدد ممالک صحت کے اخراجات کی وبائی مرض سے پہلے کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ یہ دنیا بھر میں خواتین، بچوں اور نوعمروں کی صحت کو متاثر کر رہا ہے ۔ صحت کے لیے مزید ترقیاتی امداد کو راغب کر کے اور قرض کے بوجھ کو کم کرنے کے لیے پائیدار حل تلاش کر کے اپنے نظامِ صحت کو مضبوط بنانے کے لیے عالمی کوششوں کی ضرورت ہے ۔ جی۔ 20کو اس کی وکالت کرنی چاہیے ۔
سوم، ہمیں پالیسیوں اور پروگراموں کی مؤثر طریقے سے نگرانی کرنے اورنافذ کرنے کے لیے مضبوط ڈیٹا سسٹم کی ضرورت ہے ۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ جی۔20 ممالک عالمی جی ڈی پی کا تقریباً 85فیصد، عالمی آبادی کا دو تہائی حصہ اور اہم سیاسی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہ تحقیق کو آگے بڑھانے اور صحت کی نئی اور بہتر ٹیکنالوجیوں اور ویکسین کی ترقی کے لیے بہتر پوزیشن میں ہیں۔ ان شعبوں میں سرمایہ کاری اور فیصلے کرتے وقت، خواتین، بچوں اور نوعمروں کو بامعنی طور پر شامل کرنا ضروری ہے ۔
چہارم، بچپن کے ابتدائی سالوں میں خاندان کے لیے دوستانہ پالیسیاں اور عالمی سماجی تحفظ سمیت سرمایہ کاری بہت اہم ہے ۔ اس طرح کی سرمایہ کاری علمی سرمائے کو فروغ دے سکتی ہے ، فکری مہارتوں کا مکمل مجموعہ، جو بنیادی طور پر پیدائش سے پہلے اور بچپن کے ابتدائی دورمیں پرورش پاتا ہے ، جو انسانی صلاحیتوں کا تعین کرتا ہے ، جس سے جامع اقتصادی ترقی ہوتی ہے ۔ پورے جی۔ 20میں نوجوانوں کی بے روزگاری سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کی مہارتوں جیسے کہ ڈیجیٹل خواندگی، اور ٹیکنالوجی سے چلنے والی اور ماحولیاتی طور پر شعوری ترقی کی تعمیر کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔
جی۔20 کو خواتین، بچوں اور نوعمروں کی صحت اور فلاح و بہبود کو اپنے ایجنڈے میں مستقل بنیاد بنا کر ترجیح دینی چاہیے ۔ اس کے لیے وقف، بہتر اور پائیدار مالی اعانت کے ساتھ ساتھ مزید عالمی ہم آہنگی اور یکجہتی کی ضرورت ہے تاکہ کوئی خاتون، بچہ، نوعمر یا ملک پیچھے نہ رہ جائے ۔
دنیا بھر میں پائیدار اقتصادی ترقی کے لیے خواتین، بچوں اور نوعمروں کی صحت اور تندرستی ضروری ہے ۔ جی۔ 20 کی مضبوط قیادت کے بغیر اسے بہتر نہیں بنایا جا سکتا۔
تعارف:
امیتابھ کانت: امیتابھ کانت ہندوستان کے جی۔ 20 شیرپا ہیں، جی۔ 20 میں ملک کی نمائندگی کر رہے ہیں، اس سے قبل وہ نیتی آیوگ کے سی ای او کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں۔
محترمہ ہیلن کلارک: پی ایم این سی ایچ بورڈ کی صدر اور نیوزی لینڈ کی سابق وزیر اعظم ہیں۔
qqq