آفاقی سوچ کے مظہر اداروں کا قیام ضروری

0

عبدالغفارصدیقی

تعلیمی نظام میں سب سے اہم ایشو نصاب تعلیم ہے اور سب سے کم اہمیت اسکول کی عمارت کی ہے ۔لیکن ہم سب سے زیادہ توجہ اسکول کی عمارت کو ہی دیتے ہیں ۔اس کی خوبصورتی سے متاثر ہوجاتے ہیں ۔کسی اسکول کا نصاب تعلیم کیسا ہے ؟اس پر سب سے کم توجہ دیتے ہیں،جب کہ ہماری نسلوں کی تعمیر میں سب سے اہم رول نصاب تعلیم کا ہے ۔بچے کو کیا پڑھایا جارہا ہے ؟یہ اصل سوال ہے جس پر ہمارے سرپرستوں کو توجہ دینی چاہئے ۔ کہاں پڑھایا جارہا ہے یا کون پڑھا رہا ہے؟ ان سوالوں کی حیثیت ثانوی ہے ۔ کہتے ہیں کہ دارالعلوم دیوبند کا آغاز ایک درخت کے نیچے ہوا تھا ۔صفہ نبوی جسے باقاعدہ تعلیم کا سب سے پہلا ادارہ ہونے کا شرف حاصل ہے ایک کھلے آسمان کے نیچے محض ایک چبوترہ تھا ۔گھاس پھونس سے بنی جھونپڑیوں میں بھی اچھی تعلیم دی جاسکتی ہے اگر نصاب تعلیم اچھا ہو اور عالیشان و ایئرکنڈیشنڈ عمارتوںمیں بھی مستقبل خراب کیا جاسکتا ہے،اگر نصاب تعلیم مفسد اخلاق و کردار ہو ۔عمارت کی شان و شوکت کو دیکھ کر ہی مسلم امت کے مال دار اور ذی حیثیت لوگوں کے بچے عیسائی مشنری اور ودھیا بھارتی کے ذریعہ چلائے جارہے اسکولوں میں پڑھ رہے ہیں۔ ان کی ایک مجبوری یہ ہے کہ ان کے شہر یا قصبات میں ان کے علاوہ معیاری ادارے ہی موجود نہیںہیں۔اگر ان کی قوم کے کسی فرد نے کوئی کوشش کی ہے اور اس کے یہاں سہولیات کم ہیں یا عمارت دیدہ زیب نہیں ہے تو وہ ان اداروں میں اپنے بچوں کو تعلیم دلانا کسر شان سمجھتے ہیں ۔بڑے بڑے دین دار گھرانوں کے ہی نہیں بلکہ حفاظ ،علماء اور ائمہ کے بچے بھی اعلیٰ کنوینٹ جیسے تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اوروہ یہ بات فخرسے بیان کرتے ہیں ۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے شہروں اور قصبات میں عصری تعلیم کے 99 فیصد معیاری ادارے وہ ہیں جن کو اسلام مخالف قوتیں چلا رہی ہیں۔ ہمیں سینٹ میری کے بارے میں معلوم ہے کہ عیسائی مشنری ان کا انتظام و انصرام دیکھتی ہے ،ہمیں ودھیا بھارتی کے بارے میں معلوم ہے کہ یہ آر ایس ایس کے تحت چل رہے ہیں ۔لیکن ہم شاید نہیں جانتے کہ ہمارے شہروں میںبیشتر پرائیوٹ تعلیمی ادارے جن کو برادران وطن چلا رہے ہیں وہ بھی سنگھ زدہ افراد کے ہی ہیں ۔جن کا نصاب تعلیم جھوٹ اور سماجی انتشار کی تعلیم پر مبنی ہے ۔اگر ہم یہ مان بھی لیں کہ عیسائی مشنری کے ذریعہ چلائے جارہے اداروں کا نصاب تعلیم کسی حد تک سیکولر ہے حالانکہ یہ ماننے کو دل نہیں چاہتا ۔اس لیے کہ جس قوم نے ہمارے ملک پر قبضہ کیا ہو اور غلام بنایا ہو ،وہ آخر کس طرح ہماری خیر خواہ ہوسکتی ہے کہ ایک زر کثیر اور اپنی افرادی قوت ہماری نسلوں کی تعلیم و تربیت پر صرف کرے ؟ اسی طرح سنگھی تعلیمی اداروں میں کیوں کر مسلمانوں سے عزت و احترام اور محبت و الفت کا سبق پڑھایا جاسکتا ہے ؟
یہ نصاب تعلیم کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ہر طرف سے مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں،یہ ماب لنچرس کون ہیں ،زعفرانی اداروں کے تعلیم یافتہ۔یہ اسلام کے خلاف نعرے بازی کرنے والے کون ہیں ،سنگھ کی شاخائوں کے تربیت یافتہ۔ یہ نصاب تعلیم کا ہی ثمرہ ہے کہ ہر طرف نفرت کا زہر اگلا جارہا ہے ۔جن تعلیمی اداروں میں گزشتہ سو سال سے نفرت کا سبق پڑھایا جارہا ہو،جہاں مسلمانوں کو حملہ آوار بتایا جارہا ہو ،جہاں انھیں ہندو دشمن ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جارہا ہو ،وہاں کے فارغین سے مظفر نگر اسکول جیسے شرمناک حادثوں کی ہی امید کی جاسکتی ہے ۔ان اسکولوں میں زیر تعلیم بیشترمسلم بچوں کو پہلا کلمہ تو دور اپنے دین کا نام بھی یاد نہیں ہے ،انھیں نہیں معلوم کہ توحید کیا ہے ؟ہمارے نبیؐ کون ہیں ؟پھر ہم یہ کیسے توقع کررہے ہیں کہ ہماری نسلیں اسلام پر عمل کرنے والی اور اس کی علم بردار بنیں گی ۔
یہ تو ان اداروں کی بات ہوئی جن کو چلانے والے کسی نہ کسی درجہ میں اسلام اور مسلمانوں سے عصبیت رکھتے ہیں ۔رہے سرکاری تعلیمی ادارے تو وہاں پرائمری اور جونیئر اداروں میں تعلیم ایک مذاق بن کر رہ گئی ہے ۔ان کے علاوہ مسلمان جو تعلیمی ادارے چلا رہے ہیں ان کی دو قسمیں ہیں ۔ایک دینی تعلیمی ادارے اور دوسرے عصری تعلیمی ادارے ۔اول الذکر کی بھی کئی قسمیں ہیں ۔ایک مکتب کا نظام ہے جہاں ہر مسجد یا مدرسہ میں امام مسجد محلہ کے سو ڈیڑھ سو بچوں کو یعلمون ،تعلمون کی گردان کرارہے ہیں ،کچھ مدارس میں شعبہ حفظ و تجوید ہے ،کچھ اداروں میں مولویت تک اور بڑے اداروں میں افتاء و دورہ حدیث تک کی تعلیم کا نظم ہے ۔ثانی الذکر یعنی عصری تعلیمی اداروں کی اگر ہم قسمیں کریں تو پرائمری ،جونیئر ،ہائی اسکول اور انٹر کالج میں تقسیم کرسکتے ہیں اس میں انگلش اور ہندی میڈیم دونوں طرح کے ہیں ۔ بیشتر عصری تعلیمی اداروں میں وہی نصاب تعلیم رائج ہے جو غیر مسلم پبلشرز نے شائع کیا ہے ۔زیادہ تر اسکول مالکان کمیشن کے چکر میں کتابوں کے مواد سے کوئی بحث نہیں کرتے۔ اس لیے ان کے نتائج بھی وہی نکلتے ہیں جو دوسرے اداروں کے ہیں۔ایسے تعلیمی ادارے جن کے نصاب تعلیم میں اسلامی تصورتعلیم کا خیال رکھا گیا ہو اور جن کا ماحول اخلاقی اقدار پر مبنی ہو ،انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔
نصاب تعلیم دراصل مقصد تعلیم کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔پہلے ہمارے مدارس و اسکولوں کو اپنا مقصد متعین کرنا چاہئے اس کے بعد اس مقصد کو حاصل کرنے والا نصاب تعلیم منتخب کرنا چاہئے ۔عام طور پرتعلیم کا ایک ہی مقصد سامنے رہتاہے کہ ہمیں لکھنا پڑھنا آجائے ،ہماری نالج میں اضافہ ہو اور جس پیشہ کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں اس میں مہارت ہو۔جب کہ سب سے پہلے ہمارے تعلیمی اداروں کامقصد یہ ہونا چاہئے کہ ہم اپنی نئی نسلوں کو انسانیت کا خادم اور خیر خواہ بنائیں اور مسلم بچوں کو اسلام کی صحیح تعلیم سے روشناس کرائیں۔ اس لیے کہ مسلم بچوں کی دنیا کا مستقبل اگر عصری تعلیم پر منحصر ہے تو ان کی اخروی اور ابدی زندگی کی کامیابی ان کے دین سے وابستہ ہے ۔میری رائے میںنصاب تعلیم منتخب کرتے وقت درج ذیل امور کا دھیان رکھنا چاہئے ۔
نصاب تعلیم کسی مذہب ،کسی فرقہ و مسلک کے خلاف نہ ہو۔ہمارا ملک مختلف مذاہب کا گہوارہ ہے ۔یہاں ایک مذہب کے ماننے والوں میں بھی مختلف الخیال افراد اور فرقے پائے جاتے ہیں ۔اس لیے نصاب تعلیم میں اپنے دین و مذہب کی مثبت تعلیم دی جائے اور دوسرے مذاہب پر تنقید سے گریز کیا جائے ۔ان کی خامیوں اور کمزوریوں کا ذکر نہ کیا جائے ۔کوشش کی جائے کہ مختلف مذاہب کی انسانیت پر مبنی تعلیم کو شامل نصاب کیا جائے تاکہ سماج میں مذہبی منافرت پیدا نہ ہو ۔اسی طرح دینی تعلیمی اداروں میں قرآن و حدیث پر مبنی تعلیم دی جائے ۔اپنے مسلک کی افضلیت ثابت کرنے کے لیے دیگر مسالک کی غلط تصویر پیش نہ کی جائے ۔اللہ اور رسولؐ پر ایمان لانے والے علماء اور ذمہ داران مدارس کو زیب نہیں دیتا کہ وہ اپنے علاوہ دوسرے مسالک کی توہین و تحقیر کریں ،یا اُن کے علماء کی تحریروں کو مسخ کرکے پیش کریں جن کو امت کا سواد اعظم مسلمان تسلیم کرتا ہے ۔موجودہ سماج میں جو بین المذاہب نفرت ہے اور مسلم امت میں جو مسلکی انتشار ہے اس کی اصل وجہ یہی ہے کہ ہمارا نصاب تعلیم خود کی برتری اور مقابل کی تحقیر پر مبنی ہے ۔دوسری چیز جس کو ہمارے نصاب کا حصہ ہونا چاہئے وہ ’اخلاقیات ‘ہے۔ عام انسانی اخلاق جو ہمیشہ یکساں رہی ہیں، ان کو پیدا کرنے والا نصاب ہی باکردار نسلیں تیار کرسکتا ہے ۔ہم جانتے ہیں کے بے کردار قوموں کی قسمت میں حکمرانی نہیں بلکہ غلامی ہے ۔اخلاقیات کی یہ تعلیم صرف کتابی نہ ہو ،صرف اسلاف کے واقعات پر مبنی نہ ہو بلکہ تعلیمی نظام سے جڑا ہر شخص باکردار ہونا چاہئے ۔خواہ مجلس انتظامی کے افراد ہوں یا اساتذہ یہاں تک کہ اسکول کے صفائی کارکن تک میں اخلاقی جوہر ہونا چاہئے ۔بچے کی شخصیت سازی میں ہر فرد کا رول ہوتا ہے ۔اگر وہ اپنے اساتذہ کو جھوٹا اور مکار یا بد کردار دیکھے گا تو خودبھی ویسا ہی بنے گا ۔بغیر اخلاقیات کے تعلیم سرکس کے جانور پیدا کرسکتی ہے انسان نہیں۔
نصاب تعلیم میں ایک اہم چیزصداقت پر مبنی مواد ہے ۔موجودہ نصاب تعلیم میں جو تاریخ ہم پڑھارہے ہیں اس کا بیشتر حصہ جھوٹ پر مبنی ہے ۔اسی لیے دہلی کی ایک ٹیچر نے حال ہی میں مسلم بچوں سے کہا کہ ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی رول نہیں ہے ۔موجودہ سماج میں بڑھتی ہوئی نفرت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جھوٹ پر مبنی کتابیں ہمارے نصاب کا حصہ ہیں۔
نصاب تعلیم سماج میں محبت و یگانگت ،کمزوروں اور غریبوں سے ہمدردی ،تعمیری سوچ پیدا کرنے والا ہونا چاہئے ۔طلبہ میں تلاش حق اور قبول حق کی صلاحیت پیدا کرنے والا ہونا چاہئے ۔ہر طالب علم کے اندر یہ عزم پیدا کرنے والا ہونا چاہئے کہ وہ ملک اور سماج کے لیے کچھ ایساکرجائے کہ تاریخ میں اس کا نام سنہرے حروف سے لکھا جائے ۔نصاب تعلیم طلبہ کو محض مادیت کا غلام بنانے والا اور پیسہ کے لیے ضمیر بیچ دینے والا نہیں ہونا چاہئے ۔تعلیمی نظام میں نصاب تعلیم ایک سانچے کی مانند ہے ،جیسا سانچہ ہوگا ویسے ہی کردار ڈھل کر سماج میں آئیں گے اور ملک و قوم کا مستقبل بھی انھیں سانچوں کے مطابق ہوگا ۔٭٭

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS