ندائے حق
اسد مرزا
’’اس ہفتے،عالمی سیاسی رہنما نئی دہلی میں سالانہ G-20 سربراہی اجلاس میں شامل ہونے کے لیے جمع ہو رہے ہیں، جو جنوبی ایشیا میں ہونے والا پہلا G-20اجلاس ہے۔اس اجلاس سے قبل واشنگٹن امریکہ میںقائم پیو ریسرچ سینٹر کے ایک نئے سروے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر 23 ممالک میں ہندوستان کے بارے میں رائے عامہ زیادہ تر مثبت پائی جاتی ہے۔‘‘
پیو سینٹر کے نئے سروے میں ہندوستان اور ہندوستان کے اندر و باہر اس کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ دوسرے ممالک کے بارے میں ہندوستانیوں کے خیالات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ ذیل میں 20 فروری سے 22 مئی 2023 تک بھارت سمیت 24 ممالک میں 30,861 افراد کے سروے سے کچھ اہم نتائج درج کیے گئے ہیں، جیسے کہ:
ہندوستانیوں کو دوسروں کے مقابلے میں یہ یقین کرنے کا زیادہ امکان ہے کہ ہندوستان کی طاقت بڑھ رہی ہے۔ تقریباً سات میں سے دس ہندوستانیوں کا خیال ہے کہ ان کا ملک حال ہی میں زیادہ بااثر ہوا ہے۔
وزیر اعظم مودی ہندوستان میں مقبول ہیں، لیکن بین الاقوامی سطح پر ان کی حمایت کے تئیں ملے جلے نتائج سامنے آئے ہیں۔ تقریباً 8 میں سے 10ہندوستانی (79%) مودی کے بارے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیںجن میں 55% کی اکثریت بہت سازگار نظریہ رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں، 12 ممالک کے سروے میں 37 فیصد کا اوسط ہے، جن میں سے زیادہ تر درمیانی آمدنی والے ہیں، ان کا نظریہ یہ ہے کہ خارجہ پالیسی کے صحیح انتخاب کے لیے انھیں مودی پر اعتماد ہے۔ غیر ممالک میں کینیا کے باشندوں میں سے خاص طور پر پراعتماد ہیں، 60 فیصد نے کہا کہ وہ مودی پر عالمی معاملات کے حوالے سے صحیح کام کرنے کے لیے بھروسہ کرسکتے ہیں، جبکہ ارجنٹینا کے شہری اس معاملے پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار کرتے نظر آئے۔
مزید برآں ہندوستان کے بارے میں یورپی ممالک کے رویے وقت کے ساتھ مزید منفی ہو گئے ہیں۔ ان پانچوں یورپی ممالک میں جہاں ماضی کے اعداد و شمار دستیاب ہیں، ہندوستان کے بارے میں سازگار خیالات میں تقریباً 10 فیصد پوائنٹس یا اس سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔ سب سے بڑی تبدیلی فرانس میں دیکھی گئی ہے، جہاں 2008 میں 70 فیصد کے مقابلے میں اب صرف 39 فیصد لوگ ہندوستان کے بارے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔
ہندوستان سے باہر، سروے کیے گئے بہت سے ممالک میں زیادہ تر افراد نے ہندوستان اور مودی کے بارے میں مثبت رائے پیش نہیں کی ا ور امریکہ میں 40% افراد ایسے بھی تھے جنہوں نے کہا کہ انھوں نے مودی کا نام کبھی نہیں سناہے۔
ہندوستان کے بارے میں خیالات
اسرائیل میں ہندوستان کے بارے میں خیالات سب سے زیادہ مثبت ہیں، جہاں 71 فیصد لوگوںکا کہنا ہے کہ وہ ہندوستان کے بارے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔ ہندوستان اور اسرائیل دونوں I2U2 کا حصہ ہیں – ہندوستان، اسرائیل، امریکہ اور متحدہ عرب امارات کے درمیان شراکت داری – اور ہندوستان اسرائیلی ہتھیاروں کی برآمدات کے لیے سرفہرست مقام ہے۔ ہندوستان کو کینیا، نائیجیریا اور برطانیہ میں بھی خاص طور پر مثبت طریقے سے دیکھا جاتا ہے، جہاں کم از کم 6 میں سے 10 افراد کا کہنا ہے کہ وہ ملک کے بارے میں سازگار نظریہ رکھتے ہیں۔ کینیا اور نائیجیریا میں بھی تقریباً ایک چوتھائی افراد ہندوستان کے بارے میں بہت مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس، جنوبی افریقہ بھارت کومثبت نظر سے زیادہ تنقیدی نظر سے دیکھتے ہیں۔ تقریباً آدھے کا کہنا تھا کہ ان کا ہندوستان کے بارے میں ایک نامناسب نظریہ ہے – بشمول 36% انتہائی غیرمثبت نظریہ رکھتے ہیں، جبکہ 28% نے مثبت رائے ظاہر کی۔ نیدرلینڈز اور اسپین میں نصف کے قریب افراد نے یہ بھی کہا کہ وہ ہندوستان کے بارے میں تنقیدی رائے رکھتے ہیں۔
مزید برآں سروے کے نتائج سے یہ بھی دیکھنے کو ملا ہے کہ ہندوستان اور مودی کو دائیں بازو کے عناصر میں زیادہ مثبت انداز میں دیکھا جاتا ہے۔ سیاسی نظریہ بھی اس میں کردار ادا کرتا ہے کہ کچھ معاملات میں ہندوستان کا اندازہ کیسے لگایا جاتا ہے۔ ہنگری، آسٹریلیا اور اسرائیل میں، سیاسی دائیں بازو والے بائیں بازو والوں کے مقابلے ہندوستان کے بارے میں زیادہ سازگار خیالات رکھتے ہیں۔ امریکہ میں اس کے برعکس لبرلز کا قدامت پسندوں کے مقابلے میں 10 فیصد زیادہ امکان ہے کہ وہ ہندوستان کے بارے میں موافق رائے رکھتے ہیں۔
اسی طرح یورپ کی کچھ عوامی پارٹیوں کے حامیوں میں ہندوستان کے بارے میں سازگار خیالات زیادہ ہیں، لیکن یہ سبھی دائیں بازو کی پارٹیاں ہیں۔ یونان میں، یونانی حل کی حامی – ایک دائیں بازو کی مقبول پارٹی سریزا(Syriaz) کے حا می جو کہ ایک بائیں بازو کی عوامی پارٹی ہے،اس کے حامیوں کے مقابلے میں زیادہ تر افراد ہندوستان بارے میں مثبت نظریہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح، اٹلی میں سینٹرسٹ فائیو اسٹار موومنٹ (Five Star Movement)کے حامی، فرانس میں دائیں جھکاؤ والی نیشنل ریلی (National Rally)اور اسپین میں دائیں بازو کی ووکس (Vox)پارٹی ہندوستان کو زیادہ مثبت انداز میں دیکھتے ہیں ۔
وزیراعظم نریندر مودی پر اعتماد
پی ایم مودی کے بارے میں رائے ملی جلی پائی گئی ہے، 40 فیصد کے قریب افراد نے کہا ہے کہ انہیں عالمی معاملات کے حوالے سے صحیح کام کرنے کے لیے مودی پر کوئی بھروسہ نہیں ہے اور 37 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ انہیں کم از کم کچھ اعتماد ہے۔
میکسیکن اور برازیلین خاص طور پر مودی کی تنقید کرتے ہیں، جنہیں اکثر ہندو قوم پرست نظریہ کو فروغ دینے اور بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی قیادت کرنے کے طور پر بیان کیا جاتا ہے، جسے کچھ ماہرین دائیں بازو کی جماعت قرار دیتے ہیں۔ ان ممالک میں کم از کم نصف کا کہنا ہے کہ انہیں خارجہ پالیسی کے صحیح انتخاب کے لیے ان پر اعتماد نہیں ہے۔ ارجنٹینا، جنوبی افریقہ، جنوبی کوریا اور امریکہ میں رہنے والوں میں بھی ہندوستان کے وزیر اعظم پر اعتماد کی کمی کا فیصد زیادہ ہے ۔اس کے برعکس، جاپان، کینیا اور نائیجیریا کے لوگوں کو مودی کی صلاحیتوں پر زیادہ اعتماد ہے۔ کینیا کے لوگ خاص طور پر پرُاعتماد ہیں، 60 فیصد اکثریت کے ساتھ کہ انہیں مودی پر عالمی معاملات کے حوالے سے صحیح کام کرنے کے لیے کم از کم کچھ اعتماد ہے۔انڈونیشیا، جاپان اور جنوبی کوریا میں مودی پر اعتماد میں رائے دینے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے۔ یہ فرق جنوبی کوریا میں سب سے زیادہ ہے، جہاں 2015 میں 34 فیصد کے مقابلے میں اب صرف 16% ان کی حمایت میں نظر آتے ہیں۔
ہندوستانیوں کے درمیان پی ایم مودی
ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی، جو 2014 سے اقتدار میں ہیں اور دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن ہیں، انھیں ہندوستانی بالغوں کی اکثریت میں پسند کیا جاتا ہے۔ ہندوستان میں تقریباً 8 میں سے10 افراد وزیر اعظم کے بارے میں موافق نظریہ رکھتے ہیں، جن میں 55 فیصد وہ بھی شامل ہیں جن کا نظریہ بہت اچھا ہے۔ جبکہ سروے کے مطابق ہر پانچواں ہندوستانی مودی کے بارے میں ناگوار رائے بھی رکھتا ہے۔
مجموعی طور پر دیکھا جائے تو وزیر اعظم کی ہندوستان میں مقبولیت میں کوئی فرق نہیں پڑا ہے، لیکن سروے کی رپورٹ سے صاف ظاہر ہے کہ عالمی سطح پر انھیں اب وہ مقبولیت حاصل نہیں ہے جو 2015 میں حاصل تھی۔ اگر عالمی سطح پر ان کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا تو اب تک ان کے حامی اس بات کا ڈھنڈورا پیٹ پیٹ کر ہر ہندوستانی کو باور کراتے کہ وزیر اعظم کتنے مقبول ہیں اور انھیں ایک عالمی رہنما کے طور پر دیکھا جاتا ہے /لیکن ایک ہفتہ گزرجانے کے باوجود بھی ابھی تک ایسا کچھ سامنے نہیں آیا ہے اس سے صاف ظاہر ہے کہ اصلیت میڈیا کے دعوؤں کے بالکل برخلاف ہے اور عالمی سطح پر مودی کی مقبولیت میں کمی رونما ہوئی ہے۔
(مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ، ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمزدبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔