ایسا لگ رہا ہے کہ براعظم افریقہ ایک بار پھر خانہ جنگی کی طرف جارہا ہے۔ چند ہفتے قبل افریقہ کے پسماندہ ترین علاقوںمیں شامل ساحل خطے کے ایک ملک نائیجر میں تختہ پلٹ کے بعد پورے خطے کا ماحول پراگندہ ہوگیا ہے تو دوسری طرف آج علی الصباح سینٹرل افریقی ملک گیبون میں تختہ پلٹ کی کاررو ائی عمل میں آئی۔ یہ کارروائی غیرمتوقع اور اچانک ہوئی۔ وہاں پر فوج نے ٹیلی ویژن پر آکر اعلان کیا ہے کہ دوران الیکشن کرپشن، تشدد اور بوگس ووٹنگ کی وجہ سے جمہوری حکومت کا قیام مشکل ہوگیا تھا، لہٰذا فوج نے اقتدار ہاتھ میں لے کر تمام جمہوری اداروں کو تحلیل کردیا ہے۔ خیال رہے کہ گزشتہ شام ہی گیبون کے صدر علی بونگواوڈمبا کو لگاتار تیسری مدت کے لئے ملک کا صدر منتخب کرلیا گیا ہے۔ ٹیلی ویژن چینل پر جن فوجی حکمرانوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے امن کو برقرار رکھنے کے لئے موجودہ حکومت کو ختم کردیا ہے، اس دوران راجدھانی گبننیس میں گولے باری کی آوازیں سنائی دی۔ خیال رہے کہ گیبون کے زیادہ تر حزب اختلاف کے لیڈروںاور پارٹیوں نے انتخابات کو فرضی واڑہ قرار دیا تھا۔ اس تازہ ترین صورت حال کا سب سے دلچسپ پہلویہ ہے کہ کانکنی کی صنعت سے وابستہ فرانسیسی کمپنی ایرامیٹ کی سرگرمیوں کو روک دیا گیا ہے۔ ایرامیٹ نے آج خود بیان دے کر کہا ہے کہ ملک میں فوجی کارروائی کے پیش نظر اسٹاف کے تحفظ کو مدنظر رکھتے ہوئے کمپنی نے اپنی تمام سرگرمیاں موقوف کردی ہیں۔ ایرامیٹ کے 8ہزار ملازمین جو اس کمپنی کے مختلف علاقوںمیں کام کوانجام دے رہے تھے اور مختلف علاقوں میں کانکنی میں مصروف تھے آج کام پر نہیں آئے۔ گیبون کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی سرزمین میں میگنیز کی دھات بڑی مقدارمیں پائی جاتی ہے جواسٹیل بنانے اور بیٹری بنانے میں استعمال ہوتی ہے۔ بہرکیف پچھلے دوسالوں میں افریقہ کے ساحل علاقوں میں جوکہ فرانس کے اثرورسوخ والا علاقہ ہے کئی بغاوتیں ہوچکی ہیں۔ ابھی فرانس نائیجر میں بغاوت سے پیدا ہونے والی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ نائیجر میں فوجی حکمرانوں نے اعلان کیا ہے کہ وہ فرانس کے اثرورسوخ والے علاقائی گروپ ای سی او ڈبلیو اے ایس کے کسی بھی ممکنہ حملے کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تیار ہیں۔ نائیجر میں بھی فرانسیسی کمپنیوںکو سپلائی کیا جانے والا یورینیم اور سونا ایکسپورٹ ہونا بند ہوگیا ہے۔ اس کا براہ راست اثر فرانسیسی توانائی کے سیکٹر پر پڑے گا۔ خاص طور سے فرانس کے اندر بجلی کی پیداواریورینیم کی افزودگی سے کی جاتی ہے اورنائیجر اکیلا ایسا ملک ہے جہاں سے وہ اپنی ضروریات کا 40فیصد یورینیم حاصل کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صورت حال فرانس کے لئے ناقابل برداشت اس لئے ہے کیونکہ اس سے قبل برکینیافاسو اور مالے میں فرانس کو منہ کی کھانی پڑی ہے اور ثانی الذکر دونوں ممالک سے فرانسیسی افواج نے اپنا بوریا بستر باندھ لیا ہے۔ ان تینوں ممالک نائیجر، برکینیا فاسو اور مالے میں فرانس کے خلاف عوامی سطح پر کئی مظاہرے دیکھے گئے ہیں۔ برکینیا فاسو کے عوام نے بغاوت کے فوراً بعد فرانسیسی سفارت خانے کو گھیر لیا تھا اور فرانس و برکینیا فاسو کے درمیان زبردست مذاکرات اور غیرجانبدار فریقوں کی مصالحت کے بعد فرانسیسی سفارت خانے کا محاصرہ ختم ہوا تھا۔ اب تازہ ترین صورت حال یہ ہے کہ نائیجر میں وہاں کے فوجی حکمرانوں نے فرانس کے سفیر سے ملک چھوڑنے کا حکم دے دیا ہے، مگر فرانس نے کہہ دیا ہے کہ اس کا سفیر ملک نہیں چھوڑے گا، جبکہ نائیجر کے معزول حکمراں محمد بیزم ابھی بھی فوج کی حراست میں ہیں۔ نائیجر کے فوجیوںنے واضح کردیا ہے کہ اگر ان کے ملک کے خلاف کوئی بھی کارروائی ہوئی یا معزول وزیراعظم کو رہا کروانے کی کوشش کی گئی تو وہ ان کو جان سے مار ڈالیںگے۔ یہ پوری صورت حال ساحل اور مرکزی افریقہ میں خانہ جنگی کی طرف ایک واضح اشارہ ہے۔ ای سی او ڈبلیو اے ایس (ایکوس) کے 15ممالک بینن، برکینافاسو، کابوورڈ، آور کوسٹ، گامبیا، غنہ، سیرالیون، گنیا، گنیابیسائو، لائبیریا، مالے، نائیجر ہیگل اور ٹونگو ہیں۔ ساحل خطے کے 15ممالک میں سے تین ممالک فرانس سے بغاوت کرچکے ہیں، جبکہ فرانسیسی حکمرانوں کا کہنا ہے کہ اگر باقی 13ممالک نائیجر میں جمہوری حکومت کو بحال کرانے کی کوشش کریںگے تو وہ ان کا ساتھ دے گا۔ ساحل ممالک کی تنظیم نے مختلف حربوںاور ہتھکنڈوں سے نائیجر، برکینیافاسو اور مالے پر دبائو ڈالنے کی کوشش کی ہے۔ اس سلسلے میں نائیجیریا کے صدر غیرمعمولی سرگرمیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور فوجی کارروائی کرکے نائیجر میں جمہوری حکومت کو بحال کرنے کی بات کہہ رہے ہیں، مگرایک اور افریقی اور مذکورہ بالا تنظیم کا ممبر چاڈ کسی بھی فوجی کارروائی کے خلاف ہے۔ خیال رہے کہ چاڈ میں بھی فرانس کے منظورنظر ادریس اینوئی عدم تحفظات کا اظہار کرچکے ہیں۔ چاڈ کے موجودہ حکمراں فرانس سے اچھے تعلقات رکھتے ہیں اس کے باوجود انہوں نے کسی بھی فوجی کارروائی سے انکار کیا ہے۔ خاص طورپر چاڈ کا کہناہے کہ کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات میں اس 15رکنی اقتصادی تنظیم کی فوجی مداخلت غیرمناسب ہے۔ ادریس اپنے والد کی موت کے بعد چاڈ کے صدر بنائے گئے تھے۔ اگرچہ چاڈ میں ایک عبوری سیاسی انتظامیہ کام کر رہی ہے، جس کی قیادت ادریس ہی کر رہے ہیں، ادریس ہی اپنے والد کی طرح فوجی ہیں اور اپنے ملک کی فوج کے سربراہ تھے۔ اب اس عبوری سرکار میں جو تیور دکھائے ہیں وہ بھی حیران کرنے والے ہیں۔ چاڈ میں کوئی منتخب حکومت نہیں تھی اورنہ ہی اس بات کا امکان ہے کہ وہاں کوئی منتخب حکمراں مستقبل قریب میں اقتدار سنبھالے گا۔ یہی صورت حال برکینیا فاسو میں ہے۔ وہاں کے معزول صدر فرانس سے قربت رکھتے تھے اور خود ایک منتخب حکومت کو بے دخل کرکے قبضہ کرکے مسند پر بیٹھے تھے۔ فوجی حکمرانوں نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد انتخابات کے انعقاد میں کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی تھی، مگر چونکہ وہ فرانس کے لاڈلے تھے لہٰذا برسراقتدار رہے۔ برکینیا فاسو میں ان کی فرانس کے تئیں حد سے زیادہ نرمی کے خلاف وہاںکی فوج میں پھر بغاوت ہوئی اور آج حالات فرانس کے خلاف ہیں۔ برکینیا فاسو کے حکمراں مالے کے ساتھ مل کر نائیجر میں فوجی حکمرانوں کا دفاع کرنے کے لئے تیار کھڑے ہیں۔ ان تینوںممالک کی فوج ہائی الرٹ پر ہے، کب کیا ہوجائے کچھ نہیں پتہ۔ علاقائی تنظیم نے پہلے ہی اپنا ارادہ صاف کردیا ہے کہ وہ تمام مصالحتی امکانات کو استعمال کرنے کے بعد کسی وقت بھی فوجی کارروائی کرسکتے ہیں۔
جیسا کہ اوپر کے سطور میں بتایا گیا ہے کہ ساحل علاقے میں 15ملکوں کی ایک اقتصادی تنظیم ای سی او ڈبلیو اے ایس (ایکواس) پورے خطے کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں لئے ہوئے ہے۔ اس کا اپنا الگ بینک ہے اور مشترکہ کرنسی ہے، یہ ممالک اپنے اقتصادی، تجارتی اور بہت حد تک فوجی مفادات کے لئے ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کے پیچھے فرانس کی اخلاقی، سیاسی، سفارتی اور اقتصادی حمایت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فرانس کسی بھی فوجی تصادم میں براہ راست یا بالواسطہ طورپر شامل ہوکر نائیجر یا اس کے حامی تینوں ملک پر فوجی کارروائی کرسکتا ہے اور اب جبکہ گیبون میں بھی حالات نے ایک نااتفاقی رخ اختیار کیا ہے جس کی وجہ سے اس بات کا اندیشہ برقرار ہے کہ قرب و جوار کے کئی ممالک فرانس کے خلاف جذبات میں آکر شدت اختیار کرجائیں اور یہ پورا خطہ کسی فوجی تصادم کا شکار نہ ہوجائے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ گیبون میں انتخابات میں دھاندلیوں کے خلاف احتجاج ظاہر کیا جارہا ہو۔ 2016 میں الیکشن کے دوران تشدد اورکرپشن کی واقعات کے خلاف احتجاج ہوا تھا۔ یہ صدر علی بونگوں اوڈمبیا کی دوسری میقات کا الیکشن تھا۔ بونگوں سے قبل ان کے ابا صدر تھے اور انہوں نے ملک کو جمہوری نظام کی طرف لانے میں کافی اہم رول ادا کیا تھا۔
الیکشن کے دوران اپوزیشن مسلسل دھاندلیوں کا الزام لگا رہا تھا اوراس کا ردعمل ہے کہ فوج کو مداخلت کرنی پڑی۔گیبون میں اس سے قبل بغاوت کی کوشش کی گئی تھی، جس کو ناکام بنا دیا گیا تھا۔ اپوزیشن کے الزامات کے دوران فرانس نے کہا تھا کہ اس نے انتخابی نتائج کے خیرمقدم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ کئی مبصرین کو لگ رہا تھا کہ فرانس اس ملک میں فوجی مداخلت کرسکتا ہے مگر اس امکان کو نظرانداز اس لئے کیا جارہا ہے کہ وہاں فرانس نے خارجہ پالیسی میںتبدیلی کی ہے اور وہ اس وقت تک فوجی مداخلت نہیں کرتاجب تک اس سے کہا نہ جائے۔ نائیجر میں فرانس کی مداخلت کا امکان اس لئے ہے کہ یہ ممالک فرانس سے ایسا کرنے کو کہہ سکتے ہیں۔
جنرل برنس اولیگوئی نگیسما جو گیبون میں صدارتی گارڈ کے انچارج ہیں، کو عبوری انتظامیہ کا لیڈر بنایا گیا ہے۔ یعنی اب وہاں ایک عبوری حکومت کے سربراہ جنرل برنس اولیگوئی نگیسما ہوںگے۔ گزشتہ سنیچر کو گیبون میں صدارتی انتخابات کے دوران زبردست گڑبڑی کی وجہ سے مغربی ساحل ملک میں عوام میں ناراضگی پھیل گئی تھی اور کئی مقامات پر مظاہرے ہوئے تھے۔ 2018 میں الیکشن کے دوران بھی جب صدر علی بونگو پر انتخابات کے دوران کرپشن کے الزامات لگے تھے مگرکسی طرح انہوںنے زورزبردستی سے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھنے میں کامیابی حاصل کرلی تھی۔ اس مرتبہ تیسری مرتبہ بونگو نے الیکشن 64.27 فیصد کی سبقت حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی تھی مگراس مرتبہ عوامی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے فوج نے بونگو کواقتدار سے بے دخل کرکے اقتدار پر قبضہ کرلیا۔اس خاندان کے خلاف گیبون میں زبردست ناراضگی ہے۔
فرانس سے آزادی ملنے کے بعد سے ہی معزول صدر کا خاندان ملک پر راج کر رہا تھا۔ معزول صدر علی بونگو 2009 کے بعد سے ہی اقتدار میں ہیں۔ یہ خاندان پورے ملک پر سیاسی طورپر حاوی رہا ہے۔ اس سے قبل بھی علی بونگو کے خلاف بغاوت کی کوشش ہوچکی تھی مگر اس کو ناکام بنادیا گیا۔
بونگونے 2009 میں اپنے والد کی موت کے بعد اقتدار سنبھالا۔ ان کے والد بونگو سینئر 42سال تک اقتدار میں رہے۔ ان کا شمار اس وقت کے دنیا کے امیرترن حکمرانوںمیں ہوتا تھا۔ گیبون تیل اور دیگرمعدنی وسائل سے مالامال ہے۔ بونگو کے خاندان نے اس دولت کو لوٹ لوٹ کر اپنے آپ کواقتصادی اور سیاسی طور پرمضبوط کرلیا۔ باپ کے مزاج کا اثر ان کے بیٹے علی بونگو پر بھی پڑا۔ وہ انتہائی سخت مزاج ، کینہ پرور اور مغرور لیڈر تھے۔ ان کی ایک تصویر نے میڈیا اور سوشل میڈیا میں بہت گشت کیا تھا جس میں وہ غیرملکی دورے پر رخصت ہورہے تھے اور ان کے سرپر چھتری تھی مگران کی کابینہ کے تمام وزراء بارش میں بھیگ رہے تھے۔ ان لیڈروں اور وزیروں میں خواتین بھی تھیں۔ یہ تصویر بتاتی ہے کہ گیبون کے حکمراں کس قدر مغروراور تاناشاہ تھے اور عوام کے تئیں ان کا رویہ کس قدر سرد اور آمرانہ تھا۔ یہی رویہ اور غیرجمہوری انداز ان کے زوال کا سبب بنا ہے۔
٭٭٭
کیا براعظم افریقہ خانہ جنگی کے دہانے پر ہے؟
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS