ڈاکٹرحافظ کرناٹکی
انسان جب اس دنیا میں پہلی بار وارد ہوا تو اس کے لیے یہ دھرتی بالکل نئی اور اجنبی تھی، اس لیے وہ تمام چیزوں سے ڈرتا تھا۔ ہر چیز کو ڈرتے ڈرتے چھوتا تھا، ہر طرف گھبرائی ہوئی نظریں ڈالتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ وہ بہت ساری چیزوں کو جان گیا اور زندگی کرنے کے طریقے سیکھ گیا۔جیسے جیسے انسان کا علم اور تجربہ بڑھتا گیا ویسے ویسے نہ صرف یہ کہ وہ اپنے خوف پر قابو پاتا گیا بلکہ وہ اس سرزمین پر فتح یابی کے پرچم بھی بلند کرتا چلا گیا۔ وہ جنگلوں اور پہاڑوں سے نکل کر بستیوں میں رہنے لگا۔ اور پھر آہستہ آہستہ اس نے بڑے بڑے شہر اور ملک آباد کرلیے اور دنیا کی بیشتر چیزوں کو مسخر کرلیا۔
آج سائنس اور ٹیکنالوجی اور تعلیم و تعلّم کا معیار اس قدر بلند ہو چکا ہے کہ انسان زمین کی سطح سے لے کر پاتال تک کی خبر لے آتا ہے۔ خلا سے لے کر سمندر کی گہرائیوں تک کی حقیقت سے آگاہ ہوچکاہے۔ قدرتی آفات مثلاً زلزلہ، طوفان، سیلاب، بجلی کا چمکنا، بادل کا گرجنا، ستاروں کا ٹوٹنا سبھی چیزوں سے واقف ہوچکا ہے اس کے باوجود وہ نہ تو اس کے اندر کا خوف مرا ہے۔ نہ وہ تو ہمات سے آزاد ہوا ہے اور نہ شگون اور بدشگونی کے چنگل سے چھٹکارا پاسکا ہے۔
اسلام دنیا کا سب سے جدید اور سب سے زیادہ سچا اور قیامت تک رہنے والا زندہ جاوید مذہب ہے۔ یہ مذہب دنیا کے سارے مذاہب کی روح کی خوشبو کو سمیٹ کر ان کے اندر پائی جانے والی ساری کمزوریوں کو دور کرکے انسان کو انسانیت کی سطح پر بلند کرنے والا ایسا مذہب ہے جو روحانی طور پر بندوں کو خدا سے بے حد قریب کردیتا ہے۔ اور صاف صاف کہتا ہے کہ ایمان والے ہر اچھی بری تقدیر پر کامل یقین رکھتے ہیں کہ جو کچھ بھی ہوتا ہے اس کے رب کی طرف سے ہوتا ہے۔ وہ خدا ہی ہے جس کی قدرت میں ساری کائنات ہے۔ سارا نظام ہے اور خدا ہی کی وہ ذات والا صفات ہے جو ہر طرح کی خیر و برکت کا منبع و مرکز ہے۔ اس کی منشا کے بغیر ایک پتّہ بھی نہیں ہلتا ہے۔ اس لئے اہل ایمان کو بجز خدا کے کسی کو اپنا حامی وناصر نہیں سمجھنا چاہیے اور نہ اس کے بتائے طور طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے کو اپنانا چاہیے۔ اسلام نے سچ مچ دنیا سے توہمات کو مٹانے کا بڑا کارنامہ انجام دیا اور ایمان والوں کو شگون و بدشگونی کے مکر جال سے نکال کر اطمینان و آزادی سے سانس لینے کا حوصلہ دیا۔ بھوت پریت، دیو، جن، روح، جادو اور ہر طرح کی بدعقیدگی سے نجات دلایا اور ایک خدا کی عبادت پر آمادہ کیا۔ مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ آج مسلمان بھی دوسرے مذاہب اور عقیدوں کے ماننے والوں کی طرح پھر سے توہمات اور شگون و بدشگونی کے جال میں پھنستے جارہے ہیں۔ حالاں کہ مسلمان وہ آخری امت ہے جس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دنیا کے ہر فرد تک خدائے واحد کا پیغام پہونچائے۔ اللہ اور رسول کی تعلیمات سے دوسروں کو آگاہ کرے اور لوگوں کو بتائے کہ اپنی زندگی میں رونما ہونیوالے سارے اچھے اور برے واقعات کو خدا کی مرضی جانو اور یقین جان لو کہ اگر اللہ تم کو فائدہ پہونچانا چاہے گا تو ساری دنیا مل کر بھی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہونچاسکے گی۔ اور اگر اللہ تم سے راضی نہ ہو اور تم سے رخ پھیر لے تو ساری دنیا اور ساری دنیا کی بے شمار بے اندازہ طاقت مل کر بھی تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچاسکے گی۔ کیوں کہ مالک اور حاکم صرف اور صرف خدا کی ذات ہے۔ مگر ہوا یہ کہ دنیا کے جس خطے میں اسلام کی روشنی پہونچی ہے وہ سارا خطہ نور ایمان سے منور تو ہوگیا مگر بعد میں لوگ پھر سے پرانے رسم و رواج، توہمات اور شگون و بدشگون کے چکر میں پھنس کر اسلامی تعلیمات سے دور ہونے لگے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ توہمات کے اس مکر جال میں اور اچھے برے شگون کے اس چکر میں صرف جاہل ہی نہیں پڑھے لکھے لوگ بھی گرفتار ہیں۔ اسی لیے باباؤں کا دربار، مقابر، مندر اور جھاڑپھوک کرنے والوں کی دکانیں آباد ہیں۔
اکثر دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ گھر میں بیٹھے آپس میں کسی سنجیدہ مسٔلے پر گفتگو کررہے ہیں کہ اچانک چھپکلی کی آواز آتی ہے اور وہ خاموش ہوجاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ ہم میں سے کوئی جھوٹ بول رہا ہے۔ یا یہ کہ یہ موقع اس قسم کی گفتگو کرنے کا نہیں ہے۔ کبھی کبھی تو بہت حیرت ہوتی ہے کہ دوپارٹی، دو تاجر جرح اور قدح کے بعد سودا طے کرلیتے ہیں مگر اس سے پہلے کہ معاہدہ پر دستخط ہوجائے چھپکلی کی آواز گونج اٹھتی ہے تو وہ لوگ سودا منسوخ کردیتے ہیں۔ معاہدہ ختم کردیتے ہیں۔
کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بہت مہذب اور شریف لوگ گھر سے سفر کے ارادے سے نکلتے ہیں وہ کافی دور نکل بھی جاتے ہیں کہ اچانک کوئی بلی راستہ کاٹ جاتی ہے۔ یاسامنے سے کوئی سانپ نکل آتا ہے تو وہ اسے براشگون سمجھتے ہیں اور ہر طرح کی تیاری کے ساتھ نکلے سفر کو ملتوی کرکے آدھے راستے سے گھرلوٹ آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں کہ اس نے بروقت درست فیصلہ کرکے اپنی جان بچالی۔ اس وقت اسے ذرا بھی خیال نہیں آتا ہے کہ موت برحق ہے۔ حیات وموت اللہ کے ہاتھ میں ہے، کسی بلّی اور سانپ کے اختیار میں یاکسی چھپکلی کی آواز میں ایسی کوئی طاقت اور تاثیر نہیں ہے کہ وہ انسان کو نفع یا نقصان پہونچاسکے۔
اللہ کل کائنات کا خالق ہے، اسی نے انسان، حیوان، اور چرندوپرند اور درند کو پیدا کیاہے۔ اور انسان کو اشرف المخلوقات بنایاہے۔ مگر یہ انسان جسے اسلامی تعلیمات نے اشرف المخلوقات کی کرسی پر بٹھایاہے اپنے آپ کو شگون وبدشگونی اور توہمات کی دلدل میں دھکیل کر ذلیل و خوار بنالیاہے۔ہندوستانی سماج میں یہ بات بڑی منحوس سمجھی جاتی ہے کہ کسی کے گھر پہ الّو بولے، محاورہ بھی بنالیا ہے کہ تمہارے بعد تمہاری حویلی میں الّو بھی نہیں بولے گا۔ الّو ایک پرندہ ہے جو رات میں شکار کے لیے نکلتا ہے۔ اب اگر یہ کسی کے گھر کی منڈیر پر بیٹھ گیا تو لوگ یہ مان لیتے ہیں کہ یہ گھر ویران ہوجائے گا۔ اور اس کے برے اثر سے محفوظ رہنے کے لیے گنڈے تعویزوں والے باباؤں کے ہتّھے چڑھ کر اپنی محنت کی کمائی بھی ضائع کرتے ہیں۔ اور اپنے ایمان کو بھی نقصان پہونچاتے ہیں۔ یہی حال ایک اور پرندے ٹیٹہری کا ہے۔ یہ بھی رات ہی میں سیروشکار کو نکلتا ہے۔ اس کی آواز کو لوگ موت کی خبر سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب اس کی آواز رات میں گونجتی ہے تو بدعقیدہ لوگ کہہ اٹھتے ہیں کہ آج ضرور کسی کی موت واقع ہوگی۔ گویاموت اللہ کے حکم کے تابع نہ ہو کر اس بے چاری اللہ کی ادنیٰ مخلوق ٹیٹہری کی آواز کے تابع ہو۔
کوّا، کبوتر، چمگادڑ، اور فاختہ کے حوالے سے بھی بہت سارے توہمات وابستہ ہیں۔توہمات اور بدشگونی و اچھے شگون کی اتنی ساری مثالیں بکھری ہوئی ہیں کہ اگر سب پر تفصیل سے لکھاجائے تو کتاب ہی لکھنی پڑے گی۔ دیمک، چیونٹی، گنگوار کیڑا، اور نہ جانے کن کن چیزوں سے اور جانداروں سے کس کس طرح کی باتیں وابستہ کرلی گئی ہیں۔ کوّا منڈیر پر بولے تو مہمان آنیوالا ہے، کبوتر چھت پر گرے تو برکت کانزول ہونے والاہے۔ چمگادڑ گھر میں چکر لگائے تو نکبت آنیوالی ہے۔ دیمک کے حوالے سے دونظریے ہیں، بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ جس گھر میں دیمک لگتی ہے اس گھر میں دھن کی بارش ہوتی ہے۔ جبکہ بعض لوگوں کا ماننا ہے کہ جس گھر میں دیمک لگتی ہے اس گھر کے لوگ دیمک صفت ہوتے ہیں اور وہ دوسروں کے گھروں کو پھل دار درختوں کو یالوگوں کے مستقبلوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ چیونٹی کے بارے میں عام تو ہم یہ پایا جاتا ہے کہ اگر گھرمیں کالی چیونٹیاں نکل رہی ہیں تو اس بات کی علامت ہے کہ گھر کے لوگ محنتی ہوں گے اور محنت سے زندگی کو کامیاب بنائیں گے۔ اور اگر لال چیونٹیاں نکلتی ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ گھر میں کوئی مصیبت آنیوالی ہے۔گنگوار کیڑے کو دولت اور خوشحالی کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ آپ ان تمام توہمات اور بدعقیدگی پر توجہ کریں تو محسوس ہوگا کہ لوگوں کا ایمان کس قدر کمزور ہوتا جارہا ہے۔
لوگ اپنے اچھے اور برے کی امید خدا کی ذات سے وابستہ کرنے کے بجائے روز مرہ زندگی میں واقع ہونے والے نہایت معمولی معمولی واقعے سے لگاتے ہیں۔ اور بعض لوگ تو اس پر اس قدر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کی خوشی اور ان کا رنج ان واقعات سے پوری طرح واضح ہوجاتا ہے۔ صورت حال تو اتنی خراب ہے کہ لوگ اپنے ہی اعضا کی حرکات و سکنات کو بھی شگون و بدشگونی سے جوڑ کر دیکھنے لگتے ہیں۔ مثلاً اگر ہاتھ کی ہتھیلی میں کھجلی ہورہی ہے تو یقینا دولت آنیوالی ہے۔اگر آنکھیں یا ایک آنکھ پھڑک رہی ہے تو کوئی انہونی ہونیوالی ہے۔ یاپھر کوئی مہمان آنیوالا ہے۔ یہی حال اماوس کی رات کا ہے۔ نوچندی کاہے۔ سارے کالے جادو اور سحر و ساحری کے کام اور مختلف قسم کے عملیات اور جنوں کے نکلنے اور بدروحوں کے بھٹکنے کے یہی اوقات اور یہی راتیں ہیں۔
چاند گرہن، سورج گرہن، ٹوٹتے ستارے، دمدار ستارے وغیرہ سے بھی بہت سارے توہمات وابستہ ہیں۔ اور ان صورت حال اور واقعات سے بھی بہت سارے شگون اور بدشگونی کے معاملے طے کیے جاتے ہیں۔ چاند گرہن اور سورج گرہن میں سب سے زیادہ اس بات کا خوف دلایا جاتا ہے کہ اگر حاملہ خواتین نے انہیں دیکھ لیا تو اس کے بچے یقینا لنگڑے، لولے، یااندھے ہوں گے۔ اگر غلطی سے کوئی حاملہ خاتون چاند گرہن یا سورج گرہن میں گھر سے باہر نکل آتی ہے تو پھر ان گرہنوں کے برے اثرات سے پاک کرنے کے لیے کئی طرح کی بدعات سے کام لیا جاتا ہے۔ طرح طرح کے باباؤں کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ اور یہ بابے لوگوں کو اور بھی زیادہ ڈرا کر اپنی دوکان چلانے بلکہ چمکانے میں لگ جاتے ہیں۔ کیا بہ حیثیت مسلمان کہ ہم نے یہ اقرار نہیں کیا ہے کہ ہم اپنی ہرطرح کی تقدیر پر اللہ کی ذات کے حوالے سے یقین رکھتے ہیں۔ اور ایمان لاتے ہیں۔ کیا ہم نے ایمان مجمل، ایمان مفصل نہیں پڑھی ہے؟ ظاہر ہے کہ ہم سبھوں نے پڑھی ہے،مگر ہم اپنے ایمان اور عقیدے پر دوسروں کے دلائے خوف سے قائم نہیں رہ پاتے ہیں۔
ہم نے اسلامی تعلیمات کو بھلا کر اللہ تعالیٰ اور رسول پاکؐ کی تعلیمات سے چشم پوشی برت کراللہ کے بنائے مہینوں، دنوں اور اوقات کو بھی اپنے حساب سے منحوس اور مبارک بنادیاہے۔
مسلمانوں کے یہاں یہ عام رواج بن گیا ہے کہ محرم اور صفر کے مہینے میں شادیاں نہیں ہوں گی یا نہیں کرنی چاہیے۔ کیوں کہ یہ دونوں مہینے نعوذباللہ منحوس یا غم کے مہینے ہیں۔
جبکہ اسلام میں اپنے قریبی سے قریبی رشتے داروں کا ماتم بھی تین دن سے زیادہ منانے کی اجازت نہیں ہے۔
’’بیماری خود سے متعدی نہیں ہوتی ہے۔ الّو کا گھر پہ بیٹھنا کوئی بری بات نہیں ہے اور ستارے کی کوئی تاثیر نہیں ہوتی ہے۔ سفر کی کوئی نحوست نہیں ہوتی ہے اور بدفالی کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے۔‘‘
’’ہم نے ہر انسان کا شگون اس کے گلے میں لٹکارکھاہے۔ اور قیامت کے روز ایک کتاب اس کے لیے نکالیں گے جس میں وہ کھلا ہوا ہر چیز کو پالے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ اپنی کتاب کو خود پڑھ اور اپنا محاسبہ کر۔‘‘(سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۳ -۱۴)
اور جب وہ انسان جو شگون لیتا تھا چیزوں سے اپنی کتاب پڑھے گا تو اندازہ لگائیے اس کا کیا حال ہوگا؟ دوسری چیزوں یا واقعات اور حالات سے شگون لینے والا انسان سراسر شرک میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ گویا وہ اپنی زندگی میں رونما ہونیوالے سارے واقعات کو کسی نہ کسی شگون اور بدشگونی کا نتیجہ سمجھتا ہے۔ اللہ کی مرضی اور منشا نہیں گردانتا ہے۔ اسی لئے بدشگونی، شگون اور توہم سے بچنا بے حد ضروری ہے نہیں توہم شرک میں مبتلا ہو کر اپنی دنیا اور آخرت دونوں خراب کرلیں گے۔