طارق نعمان
دینِ اسلام ایک آفاقی اور ہمہ گیر دین ہے جس میں زندگی گزارنے کے تمام تر طریقے اور انسانی ضروریات کی تکمیل کی مکمل تفصیلات ملتی ہیں حقوق انسانی کی جتنی رعایت اور احترام کی تاکید ہمیں دینِ اسلام میں ملتی ہے وہ دوسرے مذاہب میں کہیں نہیں ملتی پھر حقوق انسانی میں بطور خاص معمر افراد کے حقوق کا معاملہ درپیش ہو تو اسلام کا رویہ محض عدل و انصاف تک محدود نہیں رہتا بلکہ سراسر احسان پر مبنی قرار پاتا ہے۔ ہمارا دین اس قدر خوبصورت اور آسان ہے کہ یہ عمر رسیدہ افراد کی خدمت اور ان کی عزت و تکریم کو باعث برکت قرار دیتا ہے۔ حضورؐکی حیات مبارکہ کا بغور مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ آپؐ عمر رسیدہ افراد کا بے حد ادب و احترام فرمایا کرتے تھے جس کی ایک جھلک ہمیں فتح مکہ کے بعد رونما ہونے والے حیرت انگیز واقعات میں نظر آتی ہے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بوڑھے والد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ مبارک پر اسلام قبول کرنے کے لیے مجلس میں لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعظیم میں کیا الفاظ ارشاد فرمائے۔حضرت ابوبکر صدیقؓ فرماتے ہیں:میں اپنے والد محترم حضرت ابو قحافہ رضی اللہ عنہ کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں لایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ اپنے والدِ بزرگوار کو گھر میں ہی رکھتے، میں خود وہاں آجاتا۔ یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں، بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے؛ حالاں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی ہر صورت تعظیم کی جائے، آپ ؐنے بزرگوں کی تعظیم کو اجلال الٰہی کا حصہ قرار دیا ہے۔
بوڑھے مسلمان کی تعظیم ،اللہ کی تعظیم :حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا:بوڑھے مسلمانوں کی تعظیم کرنا اللہ تعالی کی تعظیم کا حصہ ہے۔ اسی طرح بزرگوں کی عزت و تکریم کی عظمت کے بارے میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:بے شک میری امت کے معمر افراد کی عزت و تکریم میری بزرگی و عظمت سے ہے۔
بوڑھوں کا نماز میں بھی خیال رکھنا:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سن رسیدہ افراد کے ساتھ احساس ہمدردی کی اس سے بڑی مثال کیا ہو سکتی ہے کہ باجماعت نماز میں عمر رسیدہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے قرأت میں تخفیف فرمانے کی تاکید فرماتے جیسا کہ حدیث مبارک سے ثابت ہے۔ حضرت ابو مسعود انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ایک شخص عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ!خدا کی قسم، میں صبح کی نماز سے فلاں کی وجہ سے رہ جاتا ہوں جو ہمیں لمبی نماز پڑھاتے ہیں۔ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس روز سے زیادہ ناراض نہیں دیکھا۔ فرمایا تم میں سے کچھ لوگ نفرت دلانے والے ہیں۔ پس جو تم میںسے لوگوں کو نماز پڑھائے تو ہلکی پڑھانی چاہیے کیونکہ ان میں کمزور، بوڑھے اور ضرورت مندبھی ہوتے ہیں۔
سماجی اور معاشرتی معاملات میں بڑوں کی تکریم:حضرت حسن بن مسلم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ اللہ کے جلال اور بزرگوں کی تعظیم میں سے ہے کہ اس مسلمان کی تعظیم کرنا جس کے بال سفید ہو چکے ہیں۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارے بڑوں کے ساتھ ہی تم میں خیر و برکت ہے۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک پیالہ پیش کیا گیا تو آپ نے اس میں سے نوش فرمایا اور آپ کے دائیں جانب ایک نو عمر لڑکا تھا اور بائیں جانب عمر رسیدہ حضرات تھے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لڑکے!کیا تم اجازت دیتے ہو کہ میں یہ عمر رسیدہ لوگوں کو دے دوں۔ (بخاری، 2: 829، رقم: 2224)اس حدیث مبارک میں غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معمر افراد کے بائیں جانب بیٹھے ہونے کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچوں سے اجازت بھی مانگی، مذکورہ احادیث مبارکہ سے عمر رسیدہ افراد کی عزت و تکریم کا درس ہمیں اسوہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتا ہے۔ حضورﷺ نے ہر طرح کے سماجی اور معاشرتی معاملات میں بھی بڑوں کی تکریم اور ان کے ادب و احترام کا حکم دیا ہے۔ درج بالا احادیث مبارکہ سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر موقع پر بوڑھوں کا لحاظ فرمایا اور ان کا اکرام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، ہر قسم کی رشتہ داری اور تعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اقتصادی، معاشرتی، اخلاقی اور معاشی حقوق کی ادائیگی کا حکم دیا ہے وہاں بالخصوص عمر رسیدہ افراد کو بہت سے حقوق دئیے ہیں۔ انہیں قابل عزت و تکریم اور باعث برکت و رحمت قرار دیا گیا ہے۔
رب کا انعام اپنے بوڑھے بندے پر: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب مسلمان بندہ چالیس سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس سے تین طرح کی بلائیں دور کردیتا ہے، جنون، کوڑھ اور برص اور جب پچاس سال کا ہوجاتاہے تو اللہ تعالی اس کے حساب میں تخفیف کر دیتا ہے اور جب ساٹھ سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اسے اپنی طرف جھکنا نصیب فرماتا ہے اور جب ستر سال کی عمر کا ہو جاتا ہے تو آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کا ہو جاتا ہے تو اللہ تعالی اس کی نیکیاں ثابت رکھتا ہے اور اس کی برائیاں مٹا دیتا ہے اور جب نوے سال کا ہوتا ہے تو اللہ تعالی اس کے اگلے پچھلے گناہ معاف فرماتا ہے اور اس کے گھرانے کے آدمیوں کے بارے میں اسے شفاعت کرنے والا بناتا ہے اور آسمانوں میں لکھ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کی زمین میں اس کا قیدی ہے اور اس کے گھر والوں کے حق میں اس کی سفارش قبول فرماتے ہیں۔
عہدخلافت راشدہ اور عمررسیدہ لوگ: عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ عہد خلافت راشدہ میں بھی عمر رسیدہ افراد کے حقوق کا خصوصی خیال رکھا گیا اور انہیں کئی مراعات دی گئیں جو بوڑھے افراد کام کاج کے قابل نہیں تھے ان کے لیے وظائف مقرر کر دیئے جاتے۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم عمر رسیدہ افراد کی بھی امداد کی جاتی۔ جس کا عہد فاروقی کی درج ذیل مثال سے واضح اندازہ ہوتا ہے۔ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایک جگہ سے گزر رہے تھے دیکھا کہ ایک نابینا بوڑھا بھیک مانگ رہا ہے آپ نے بھیک مانگنے کا سبب دریافت کیا تو اس نے کہا الجزیۃ والحاجۃ یعنی جزیہ اور معاشی ضروریات نے مجبور کر دیا ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اپنے گھر لے جا کر کچھ عطا کیا پھر بیت المال میں لے جا کر خزانچی کو حکم دیا انظریدا واضرباہ یعنی یہ اور اس قسم کے دوسرے حاجت مندوں کی تفتیش کرو یہ انصاف نہ ہو گا کہ ہم نے جوانی میں ان سے فائدہ اٹھایا اور اب بڑھاپے میں ہم ان کو بھول جائیں۔ الغرض اس کا اور اس قسم کے دوسرے معززین کا بیت المال سے وظیفہ جاری ہو گیا اور ان سے جزیہ ساقط ہو گیا۔ دور حاضر کی نوجوان نسل کو دین اسلام کی تعلیمات اور عملی مثالوں کے ذریعے طبقات انسانی بالخصوص معمر افراد کی تکریم کے لیے رہنمائی فراہم کرنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل پیرا ہو کر انسانیت کے اس اہم طبقے کے ساتھ نرم گفتاری، حسن سلوک اور جذبہ خیر خواہی اختیار کریں۔ ان کے حقوق احسن طریقے سے پورے کریں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے معاشرے کو ضعیف العمر اشخاص کی قدر و منزلت پہچاننے کی توفیق عطا فرمائے۔( آمین )