عبدالعزیز
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، اپنے گھروں کے سوا دوسرے کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو جب تک کہ گھر والوں کی اجاز نہ لے لو اور گھر والوں پر سلام نہ بھیج لو، یہ طریقہ تمہارے لئے بہتر ہے۔ توقع ہے کہ تم اس کا خیال رکھو گے۔ پھر اگر وہاں کسی کو نہ پاؤ تو داخل نہ ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہوجاؤ، یہ تمہارے لئے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے‘‘۔(سورۃ النور، آیت:27)
جاہلیت میں اہل عرب کا طریقہ یہ تھا کہ وہ حییتم صباحاً حییتم مساحاً(صبح بخیر، شام بخیر)کہتے ہوئے بے تکلف ایک دوسرے کے گھر میں گھس جاتے تھے اور بسا اوقات گھر والوں پر اور ان کی عورتوں پر نادیدنی حالت میں نگاہیں پڑجاتی تھیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی اصطلاح کے لئے یہ اصول مقرر کیا کہ ہر شخص کو اپنے رہنے کی جگہ میں رازداری(Privacy) کا حق حاصل ہے اور کسی دوسرے شخص کے لئے جائز نہیں کہ وہ اس کی رازداری میں اس کی مرضی اور اجازت کے بغیر خلل انداز ہو۔ اس حکم کے نازل ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں جو آداب اور قواعد جاری فرمائے انھیں ہم ذیل میں نمبروار بیان کرتے ہیں:
(1) حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے رازداری کے اس حق کو صرف گھروں میں داخل ہونے کے سوال تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسے ایک عام حق قرار دیا، جس کی رو سے دوسرے کے گھر میں جھانکنا، باہر سے نگاہ ڈالنا، حتیٰ کہ دوسرے کا خط اس کی اجازت کے بغیر پڑھنا بھی ممنوع ہے۔ حضرت ثوبانؓ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد کردہ غلام) کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’اذا دخل البصر فلا اذن‘ ’’جب نگاہ داخل ہوگئی تو پھر خود داخل ہونے کے لئے اجازت مانگنے کا کیا موقع رہا‘‘(ابو داؤد)۔ حضرت ہُزَیل بن شُرخبِیل کہتے ہیں ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں حاضر ہوااور عین دروازے پر کھڑا ہوکر اجازت مانگنے لگا۔ حضورؐ نے اسے فرمایا ’ہٰکذا عنک، فانما لاستیذان من النظر‘’’پرے ہٹ کر کھڑے ہو، اجازت مانگنے کا حکم تو اس لئے ہے کہ نگاہ نہ پڑے‘‘(ابوداؤد)۔ حضورؐ کا اپنا قاعدہ یہ تھا کہ جب کسی کے یہاں تشریف لے جاتے تو دروازے کے عین سامنے کھڑے نہ ہوتے، کیونکہ اُس زمانے میں گھروں کے دروازوں پر پردے نہ لٹکائے جاتے تھے۔ آپ دروازے کے دائیں یا بائیں کھڑے ہوکر اجازت طلب فرمایا کرتے تھے (ابو داؤد)۔
حضرت انسؓ خادم رسول اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے آنحضرتؐ کے حجرے میں باہر سے جھانکا۔ حضورؐ اس وقت ایک تیر ہاتھ میں لئے ہوتے تھے۔ آپ اس کی طرف اس طرح بڑھے جیسے کہ اس کے پیٹ میں گھونپ دیں گے (ابو داؤد)۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا، (جس نے اپنے بھائی کی اجازت کے بغیر اس کے خط میں نظر دوڑائی وہ گویا آگ میں جھانکتا ہے‘‘(ابو داؤد)۔ صحیحین میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا ’’اگر کوئی شخص تیرے گھر میں جھانکے اور تو ایک کنکری مار کر اس کی آنکھ پھوڑ دے تو کچھ گناہ نہیں‘‘۔ اسی مضمون کی ایک اور حدیث میں ہے ’’جس نے کسی گھر میں جھانکا اور گھر والوں نے اس کی آنکھ پھوڑ دی تو ان پر کچھ مواخذہ نہیں‘‘۔ امام شافعیؒ نے اس ارشاد کو بالکل لفظی معنوں میں لیا ہے اور وہ جھانکنے والے کی آنکھ پھوڑ دینے کو جائز رکھتے ہیں، لیکن حنفیہ اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ یہ حکم محض نگاہ ڈالنے کی صورت میں نہیں ہے بلکہ اس صورت میں ہے جبکہ کوئی شخص گھر میں بلا اجازت گھس آئے اور گھر والوں کے روکنے پر وہ باز نہ آئے اور گھر والے اس کی مزاحمت کریں۔ اس کشمکش اور مزاحمت میں اس کی آنکھ پھوڑ دی جائے یا کوئی اور عضو ٹوٹ جائے تو گھر والوں پر کوئی مواخذہ نہیں ہوگا۔ (احکام القرآن جصّاص، ج 3، ص 385)
(2) فقہاء نے نگاہ ہی کے حکم میں سماعت کو بھی شامل کیا ہے۔ مثلاً اندھا آدمی اگر بلا اجازت آئے تو اس کی نگاہ نہیں پڑے گی، مگر اس کے کان تو گھر والوں کی باتیں بلا اجازت سنیں گے۔ یہ چیز بھی نظر ہی کی طرح رازداری کے حق میں بے جا مداخلت ہے۔
(3) اجازت لینے کا حکم صرف دوسروں کے گھر جانے کی صورت ہی میں نہیں ہے بلکہ خود اپنی ماں، بہنوں کے پاس بھی جانے کی صورت میں ہے۔ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا میں اپنی ماں کے پاس جاتے وقت بھی اجازت طلب کروں؟ آپؐ نے فرمایا ہاں۔ اس نے کہا کہ میرے سوا ان کی خدمت کرنے والااور کوئی نہیں ہے ، کیا ہر بار جب میں ان کے پاس جاؤں تو اجازت مانگوں؟ فرمایا، ’’کیا تو پسند کرتا ہے کہ اپنی ماں کو برہنہ دیکھے‘‘ (ابن جریر عن عطاء بن یسار مرسلاً)۔ عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے، ’’اپنی ماں بہنوں کے پاس بھی جاؤ تو اجازت لے کر جاؤ‘‘ (ابن کثیر)۔ بلکہ ابن مسعود تو کہتے ہیں کہ اپنے گھر میں اپنی بیوی کے پاس جاتے ہوئے بھی آدمی کو کم از کم کھنکار دینا چاہئے۔ ان کی بیوی زینب کی روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود جب کبھی گھر میں آنے لگتے تو پہلے کوئی ایسی آواز کر دیتے تھے جس سے معلوم ہوجائے کہ وہ آرہے ہیں۔ وہ اسے پسند نہ کرتے تھے کہ اچانک گھر میں آن کھڑے ہوں (ابن جریر)
(4) اجازت طلب کرنے کے حکم سے صرف یہ صورت مستثنیٰ ہے کہ کسی کے گھر پر اچانک کوئی مصیبت آجائے، مثلاً آگ لگ جائے یا کوئی چور گھس آئے۔ ایسے مواقع پر مدد کے لئے بلا اجازت جاسکتے ہیں۔
(5) اوّل جب استیذان کا قاعدہ مقرر کیا گیا تو لوگ اس کے آداب سے واقف نہ تھے۔ ایک دفعہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں آیا اور دروازے سے پکار کر کہنے لگا ’’کیا میں گھس آؤں‘‘؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لونڈی روضہ سے فرمایا یہ شخص اجازت مانگنے کا طریقہ نہیں جانتا۔ ذرا اٹھ کر اسے بتائو کہ یوں کہنا چاہئے ’السلام علیکم أدخل‘ (ابن جریر، ابو داؤد)۔ جابر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں اپنے مرحوم والد کے قرضوں کے سلسلے میں آنحضرتؐ کے یہاں گیا اور دروازہ کھٹکھٹایا۔ آپؐ نے پوچھا کون ہے؟ میں نے عرض کیا’’میں ہوں‘‘۔ آپ نے دو تین مرتبہ فرمایا، ’’میں ہوں، میں ہوں‘‘؟ یعنی اس ’میں ہوں‘ سے کوئی کیا سمجھے کہ تم کون ہو (ابو داؤد)۔ ایک صاحب خَلَدہ بن حنبل ایک کام سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور سلام کے بغیر یونہی جابیٹھے۔ آپؐ نے فرمایا باہر جاؤ اور السلام علیکم کہہ کر اندر آؤ (ابو داؤد)۔ استیذان کا صحیح طریقہ یہ تھا کہ آدمی اپنا نام بتاکر اجازت طلب کرے۔ حضرت عمرؓ کے متعلق روایت ہے کہ وہ حضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوتے تو عرض کرتے السلام علیک یا رسول اللہ، ایدخل عمر‘ (ابو داؤد)۔ اجازت لینے کے لئے حضورؐ نے زیادہ سے زیادہ تین مرتبہ پکارنے کی حد مقرر کردی اور فرمایا اگر تیسری مرتبہ پکارنے پر بھی جواب نہ آئے تو واپس ہوجاؤ ((بخاری، مسلم، ابو داؤد)۔ یہی حضورؐ کا اپنا طریقہ بھی تھا۔ ایک مرتبہ آپ حضرت سعد بن عُبادہ کے یہاں گئے اور السلام علیکم ورحمۃ اللہ کہہ کر دو دفعہ اجازت طلب کی مگر اندر سے جواب نہ آیا۔ تیسری مرتبہ جواب نہ ملنے پر آپ واپس ہوگئے۔ حضرت سعد اندر سے دوڑ کر آئے اور عرض کیا، یا رسول اللہ میں آپ کی آواز سن رہا تھا مگر میرا جی چاہتا تھا کہ آپ کی زبان مبارک سے میرے لئے جتنی بار بھی سلام و رحمت کی دعا نکل جائے اچھا ہے، اس لئے میں بہت آہستہ آہستہ جواب دیتا رہا (ابو دااؤد، احمد)۔ یہ تین مرتبہ پکارنا پے درپے نہ ہونا چاہئے بلکہ ذرا ٹھہر ٹھہر کر پکارنا چاہئے تاکہ صاحب خانہ کو اگر کوئی مشغولیت جواب دینے میں مانع ہو تو اسے فارغ ہونے کا موقع مل جائے۔
(6) اجازت یا تو خود صاحب خانہ کی معتبر ہے یا پھر کسی ایسے شخص کی جس کے متعلق آدمی یہ سمجھنے میں حق بجانب ہو کہ وہ صاحب خانہ کی طرف سے اجازت دے رہا ہے، مثلاً گھر کا خادم یا کوئی اور ذمہ دار قسم کا فرد۔ کوئی چھوٹا سا بچہ اگر کہہ دے کہ آجاؤ تو اس پر اعتماد کرکے داخل نہیں ہوجانا چاہئے۔
(7) اجازت طلب کرنے میں بے جا اصرار کرنا یا اجازت نہ ملنے کی صورت میں دروازے پر جم کر کھڑے ہوجانا جائز نہیں ہے۔ اگر تین دفعہ استیذان کے بعد صاحب خانہ کی طرف سے اجازت نہ ملے یا وہ ملنے سے انکار کر دے تو واپس چلے جانا چاہئے۔ (تفہیم القرآن) ٭٭٭