اروند شیکھر
کیا آپ کو یاد ہے کہ ہندوستانی فٹ بالروں نے ننگے پاؤں کھیل کر دنیا میں ہندوستانی فٹ بال کا سکہ جمایا تھا۔ فیفا کے اس وقت کے صدر سیپ بلیٹر نے ہندوستان کو ’عالمی فٹ بال کی سوئی ہوئی طاقت‘ سے تشبیہ دی تھی۔
ہندوستانی فٹ بال ٹیم نے اب تک دو ایشیائی کھیلوں میں گولڈ اور اے ایف سی ایشیائی کپ میں ایک بار چاندی کا تمغہ جیتا ہے۔ ہندوستان میں فٹ بال 19ویں صدی کے وسط میں برطانوی فوجیوں کے ساتھ آیا۔ کلکتہ فٹ بال کلب کا قیام بھی 1872میں ہوا۔ سووا بازار کلب پہلی ہندوستانی فٹ بال ٹیم تھی جس نے 1892میں ٹریڈس کپ جیتا تھا۔ اسی کے اگلے سال ملک میں انڈین فٹ بال ایسوسی ایشن کا قیام ہوا تھا لیکن اس میں ایک بھی ہندوستانی نہیں تھا۔ حالاں کہ انگلش فٹ بال لیگ میں جیوتش چندر گوہا اسٹار بن کر چمکے تھے اور 1937میں آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن قائم ہوا تھا لیکن اسے فیفا سے منسلک ہونے میں کافی وقت لگ گیا۔ ہندوستانی فٹ بال ٹیم نے پہلی اور آخری بار 1950 میں فیفا ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کیا لیکن کچھ وجوہات سے وہ اس مقابلہ میں شامل نہیں ہوپائی۔ تب ہندوستانی کھلاڑی عادتاً ننگے پاؤں ہی کھیلتے تھے اور ننگے پاؤں ہی انہوں نے دنیا میں ترنگا اونچا کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کے بعد 1951سے 1962کے دور کو ہندوستانی فٹ بال کا زرّیں دور کہا جاتا ہے۔ دہلی میں ہوئے 1951کے ایشیائی کھیلوں میں ہندوستانی فٹ بال ٹیم نے سید عبدالرحیم کی ٹریننگ میں ننگے پاؤں کھیلتے ہوئے جوتوں کے ساتھ کھیل رہے ایران کو ہرا کر گولڈ میڈل جیتا۔ 1954کے منیلا ایشیائی کھیلوں میں ہندوستان نے گروپ لیگ میں دوسرا مقام حاصل کیا۔ ملبورن میں 1956میں منعقد اولمپک کھیلوں میں ہندوستان کانسہ کے تمغہ سے محروم ہوگیا مگر یہ ہندوستانی ٹیم کی اب تک کی سب سے بڑی حصولیابی رہی ہے۔ اسی دور میں 1962کے جکارتہ ایشیائی کھیلوں میں ہندوستان نے جنوبی کوریا کو ہرا کر گولڈ میڈل جیتا۔ 1964 ایشیائی کپ میں ہندوستان نے سلور میڈل جیتا۔ مگر اس کے بعد ہندوستانی ٹیم کی کارکردگی میں کمی آنا شروع ہوگئی۔ 1960کے بعد ہندوستان کبھی اولمپک کے لیے کوالیفائی نہیں کرپایا ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ ہندوستان فیفا رینکنگ میں 99ویں مقام پر ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ فٹ بال جیسے سستے اور آسان کھیل میں ہندوستان پیچھے ہوگیا۔
گزشتہ دنوں کیے گئے ایک مطالعہ سے پتہ چلا ہے کہ ملک کی نئی نسل کو فٹ بال کے قواعد اور ضوابط کے تعلق سے معلومات ہی نہیں ہے۔ سینٹر آف اسپورٹس ریسرچ غازی آباد کی محقق ڈاکٹر کنشکا پانڈے کے مطالعہ سے واضح ہوا ہے کہ ملک کو فٹ بال طاقت بنانے کے راستے میں کتنے چیلنجز پیش ہیں۔
اس مطالعہ میں اتراکھنڈ، اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، ہریانہ اور دہلی میں بچوں میں فٹ بال کی نالج، اس کے تئیں بیداری وغیرہ کی جانچ کی گئی۔ اس کے لیے 8 سے 12سال کی عمر کے 3500بچوں کے درمیان سروے کیا گیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف 9فیصد یعنی 315بچے جانتے تھے کہ فٹ بال ٹیم میں 11کھلاڑی ہوتے ہیں۔ صرف455یعنی 13فیصد بچے جانتے تھے کہ ہیڈ کے ذریعہ بھی گول کیا جاسکتا ہے۔ یہی نہیں صرف ایک فیصد یعنی 35بچے جانتے تھے کہ فٹ بال کے میدان میں تین ریفری رہتے ہیں۔ 3500بچوں میں سے صرف 315یعنی 9فیصدبچے ہی بتاپائے کہ فٹ بال میں پیلے اور لال کارڈ دکھانے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ محض 315یعنی 9فیصد بچے ہی جانتے تھے کہ فٹ بال شوز کو اسٹڈ کہا جاتا ہے۔ یہی نہیں صرف35یعنی ایک فیصد بچے سنیل چھیتری کا نام جانتے تھے جبکہ 28فیصد بچوں کو کرکٹ کھلاڑی وراٹ کوہلی کا نام پتا تھا۔ ان نتائج کے باوجود فٹ بال کی صورت حال پوری طرح سے مایوس کن نہیں ہے۔ اگر لُکاچھپی اور کھو-کھو کو چھوڑ دیا جائے تو فٹ بال کے بارے میں زبردست لاعلمی کے باوجود فٹ بال کرکٹ کے بعد سب سے مقبول کھیل ہے۔ کم سے کم20فیصد بچے ایسے ہیں جنہوں نے زندگی میں کبھی نہ کبھی فٹ بال کے کھیل کا لطف اٹھایا ہے یا آج بھی اسے کھیلتے ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ ملک کے گاوؤں میں آج بھی فٹ بال کھیلا جارہا ہے یہ بات اور ہے کہ اس کے لیے ضروری میدان اور دیگر سہولتیں دستیاب نہیں ہیں۔ یہ حقیقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ کچھ کو چھوڑ کر ملک کے زیادہ تر فٹ بال میدان فیفا کے معیار پر کھرے نہیں اترتے۔ لیکن یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ شمال مشرقی ریاستوں بنگال، کیرالہ اور گوا جیسی ریاستوں کو چھوڑ کر ملک میں فٹ بال ثقافت مقبول نہیں ہے بلکہ اس میں کرکٹ کی بڑے پیمانہ پر مقبولیت میں دیگر کھیل کھوجاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں کرکٹ کے کھلاڑیوں کو جتنا پیسہ ملتا ہے اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے، اس کے مقابلہ میں دوسرے کھیل بہت پیچھے ہیں۔ مثال کے طور پر ہندوستانی فٹ بال ٹیم کو سیف-2023جیتنے کے لیے 50,000ڈالر کی انعامی رقم ملی، جبکہ ہندوستانی کرکٹ ٹیم کو عالمی ٹسٹ چمپئن شپ میں دوسرے مقام پر رہنے پر 800,000ڈالر ملے۔ فٹ بال ایسوسی ایشنز میں کھیل سے دور دور تک تعلق نہ رکھنے والے لیڈروں اور افسروں کا ان کی خودمختاری کو ختم کردینے والا دخل صحیح کھلاڑیوں کے انتخاب کے امکانات کو ختم کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سال 15اگست کو بین الاقوامی فٹ بال فیڈریشن (فیفا) نے آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن(اے آئی ایف ایف) کو معطل کرکے پابندی عائد کردی تھی۔
ان حالات کے دوران ہی آل انڈیا فٹ بال فیڈریشن نے 2047تک ہندوستان کو دنیا میں ایک فٹ بال طاقت کے طور پر فروغ دینے کا منصوبہ بنایا ہے، مگر ملک کے پالیسی سازوں کو ان سبھی چیلنجز کو پہچان کر انہیں دور کرنا ہوگا، تبھی ہندوستانی فٹ بال کا زرّیں دور واپس آئے گا۔rvr