امریکہ بنے گا برکس کیلئے چیلنج

0

اکثر اچھے صحافی یا تجزیہ کار بھی کسی ایک میدان میں ہی ماہر ہوتے ہیں مگر دنیا کی تبدیلیوں سے بے خبر نہیں رہتے، تبدیلیوں کو سمجھنے کے لیے ان کی نظر اس پر رہتی ہے کہ بڑے ممالک یا بڑے گروپوںکی سرگرمیاں کیا ہیں، اس لیے برکس اوراس کے حالیہ سربراہ اجلاس پر سینئر صحافی اور تجزیہ کار قربان علی کے تجزیے کو سمجھنا ضروری ہے۔ قربان علی کے مطابق، ’ برکس دنیا کی بڑی اقتصادی طاقتوں کے گروپ کے طور پر ابھر رہا ہے، اس لیے اس کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے اہم ملکوں کی دلچسپی ناقابل فہم نہیں ہے۔ 2001 میں برطانوی ماہر اقتصادیات جم او نیل نے ایک ریسرچ پیپر تیار کیا تھا۔ اس کا عنوان ’’بلڈنگ بیٹر گلوبل اکنامک برکس (Building Better Global Economic BRICs)‘‘ تھا۔ اس میں برازیل، روس، انڈیا، چین کی مناسبت سے پہلی بار برک (BRIC) لفظ استعمال کیا گیا تھا، یہ لفظ ریسرچر روپا پروشوتمن نے استعمال کیا تھا۔ اس ریسرچ پیپر میں برک کا تقابل جی-7 ممالک سے کرکے متوقع حالات کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی گئی تھی اور یہ بات کہی گئی تھی کہ 2050 تک برکس ممالک کی اکنامی دنیا کے امیر ترین جی-7 ملکوں کی جگہ لے لے گی۔ آج اس گروپ کو دیکھنے پر یہی لگتا ہے کہ ریسرچ پیپر میں صحیح اندازہ لگایا گیا تھا۔ برک جو بعد میں جنوبی افریقہ کے شامل ہو جانے کے بعد برکس بن گیا، دنیا میں اس کی تجارت کی حصہ داری 17 فیصد ہے جس کے آئندہ کچھ برسوں میں 29فیصد ہو جانے کا امکان ہے۔ برکس ممالک کی جی ڈی پی دنیا کی جی ڈی پی کا تقریباً 27 فیصد ہے۔ اقتصادی اور دفاعی طور پر اس ملک کے مستحکم ہونے کی وجہ سے بھی بڑی تعداد میں ممالک اس سے وابستہ ہونا چاہتے ہیں۔ 23 ممالک نے تو باضابطہ طور پر برکس کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے عرضی دی ہے۔ان میں سے 6 ملکوں کو رکنیت دینے کا فیصلہ کیاگیاہے۔‘
قربان علی کے مطابق، ’یہ کہنے میں تامل نہیں ہے کہ بشمول امریکہ جی-7 ممالک کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ ذکر بے محل نہ ہوگا کہ جی-7 میں کنیڈا،فرانس، جرمنی، اٹلی،جاپان، برطانیہ، امریکہ ہیں۔ آئندہ کچھ برسوں میں جی-7 ممالک کی معیشت برکس ممالک کی معیشت سے پچھڑنے کا امکان ہے ۔ ویسے یہ اتنی آسانی سے بھی نہیں ہوگا۔ برکس کی راہ میں سب سے بڑا چیلنج امریکہ ہے۔ وہ اس لیے کہ اب تک امریکہ کی جو اجارہ داری ڈالر کی وجہ سے رہی ہے، وہ ختم ہونے جا رہی ہے۔ اس کی تازہ مثال یہ ہے کہ چین کے سربراہ شی جن پنگ جب روس گئے تھے تو روسی سربراہ ولادیمیر پوتن نے کہا تھا کہ ہم ایشیائی، افریقی اور لاطینی امریکی ممالک کے ساتھ چین کی کرنسی یوآن میں تجارت کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت ارجنٹینا سمیت 24 ملکوں نے بین الاقوامی تجارت کے لیے ڈالر کے بجالے چین کی کرنسی یوآن کا استعمال شروع کر دیا ہے۔ برازیل نے بھی چین کے ساتھ یوآن میں تجارت شروع کر دی ہے اور یہ دونوں ہی لاطینی امریکہ کے بڑے ممالک ہیں۔ دوسری طرف ہندوستان سمیت کئی ممالک روس کے ساتھ خام تیل کی خریداری روبل اور اپنی کرنسی میں کر رہے ہیں۔ یہ سب بدلتے حالات کا اشارہ ہیں اور یہ حالات امریکہ کے حق میں نہیں ہیں، اس لیے امریکہ کا برکس کے لیے چیلنج بننا فطری ہوگا۔‘
سینئر صحافی قربان علی کے مطابق، ’برک جو بعد میں برکس بن گیا، اس کی تشکیل کا بنیادی مقصد غریبی،بے روزگاری، نوجوانوں کی آبادی اور موسمیاتی تبدیلی وغیرہ پر فوکس کرنا تھا مگر روس کا یوکرین پر حملہ کرنا دیگر ملکوں کے لیے ہی باعث تشویش نہیں ہے، برکس ممالک کے لیے بھی درد سر بن گیا ہے۔دوسری طرف چینی سربراہ شی جن پنگ کا طریقۂ کار بھی برکس کے لیے مسئلہ بن رہا ہے۔ حالیہ سربراہ اجلاس میں جنوبی افریقہ میں بہ نفس نفیس موجود ہونے کے باوجود برکس فورم کی میٹنگ میں وہ شامل نہیں ہوئے۔ اپنی جگہ وزیر تجارت کو بھیج دیا۔ انہوں نے ہی شی کی تقریر پڑھ کر سنائی جس میں امریکہ پر سخت تنقید کی گئی تھی۔ دوسری طرف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ نے یوکرین جنگ کے سلسلے میں ولادیمیر پوتن کے خلاف وارنٹ جاری کررکھا ہے، انٹرنیشنل کریمنل کورٹ کا ایک رکن ملک جنوبی افریقہ بھی ہے، اس لیے روسی سربراہ نے بہ نفیس نفیس 15 ویں برکس سربراہ اجلاس میں شرکت نہیں کی، اجلاس سے خطاب ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے کیا، البتہ اپنی جگہ اپنے وزیرخارجہ سرگئی لاوروف کو بھیجا۔۔۔۔اس بار برکس سربراہ اجلاس میں 30 سے زیادہ ممالک کے سربراہان نے شرکت کی۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوتیریس بھی شامل ہوئے۔ برکس کی بڑھتی مقبولیت کے ساتھ ہندوستان کے لیے تشویش کی بات یہ ہے کہ چین کا دبدبہ بڑھ رہا ہے۔ روس اور برازیل جیسے ممالک اس کی حمایت کررہے ہیں۔ ایسے میں ہندوستان الگ تھلگ پڑ گیا ہے، کیونکہ جنوبی افریقہ کے علاوہ واضح طور پر اس کا کوئی اور حامی نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن 13 ممالک نے برکس سے وابستہ ہونے کے عرضی دی ہے، ان میں ایران، ارجنٹینا، مصر اور انڈویشیا بھی ہندوستان کی تشویش بڑھا رہے ہیں مگر اچھی بات یہ ہے کہ حکومت ہند بدلتے حالات سے واقف ہے اور ہندوستان تبدیلیوں کے مطابق ہی قدم اٹھا رہا ہے، فیصلے لے رہا ہے۔‘ n
(نمائندہ روزنامہ راشٹریہ سہارا سے گفتگو پر مبنی)

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS