ڈاکٹر مفتی تنظیم عالم قاسمی
اللہ تعالیٰ نے ہر زمانے میں اپنے لاکھوں کروڑوں بندوں میں سے نبی اور رسول کو منتخب کیا اور انہیں ہادی بنا کر مبعوث فرمایا ۔ نبوت کا تعلق انتخاب اور فیصلۂ خداوندی سے ہے ۔کسی کی خواہش ، دولت اور جائداد یا حسب و نسب سے اس کا تعلق نہیں ہے ، ٹھیک اسی طرح ہر نبی اور رسول کے متبعین اور پیروکاروں کا انتخاب بھی اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔ جس کے بارے میں خدا کو علم تھا کہ یہ کار نبوت کو آگے بڑھا سکتا ہے یا کم از کم حسب منشا دین کی پیروی کر سکتا ہے ، اسے ایمان کے لئے منتخب کر کے ہدایت سے سرفراز کیااور نبی کے حواریین میں شامل فرمایا۔ رسول اکرم ؐ کی بعثت کے بعد ان خوش نصیب لوگوں کا انتخاب بھی اللہ کی طرف سے ہوا جنہوں نے آپؐ پر ایمان لایا اور آپؐ کی صحبت بابرکت جن کو نصیب ہوئی جن کو دنیا ’’صحابہ‘‘ کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اہل علم کی تشریح کے مطابق ’’ صحابی‘‘ اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے رسول اکرم ؐ سے ایمان کی حالت میں ملاقات کی ہو اور ایمان پر ہی ان کا خاتمہ ہوا ہو۔ خواہ طویل صحبت ہو یا نہ ہو، روایت کی ہو یا نہ کی ہو، بالغ ہو یا نابالغ، بس ایمان کی حالت میں حضورؐ سے ملاقات ہوگئی اور موت تک اسی پر قائم رہا ، ان کا مقدر جاگ اٹھا ، ان کی قسمت اور سعادت کا کیا کہنا۔ ساری دنیا مل کر بھی ان کے مقام و مرتبہ کو حاصل نہیں کر سکتی، مرتبہ کے اعتبار سب سے کمتر اور غیر معروف صحابی کے بارے میں بھی تمام اہل سنت والجماعت علماء کا اتفاق ہے کہ لاکھوں اولیاء مل کر بھی ان کے مقام کو نہیں پہنچ سکتے ۔یہ رسول اکرم ؐ کی غیر معمولی عظمت اور آپؐ کے حددرجہ تقدس اور مقام و مرتبہ کی بات ہے کہ جو بھی ایمان کے حال میں ایک سکینڈ کے لئے آپؐ سے ملا اور اس نے اس سعادت کو سنبھال کر رکھا ،آپؐ کی نظر نے اسے سونا اور کندن بنا دیا۔ ایمان سے قبل ان کی کوئی حیثیت نہیں تھی لیکن جیسے ہی صحبت نبوی انہیں حاصل ہوئی وہ کیمیا اور آفتاب و ماہتاب بن گئے۔ قرآن و احادیث میں ان کی عظمت اور تقدس کو مختلف انداز میں بیان کیا گیا ہے، ایک جگہ ارشاد باری ہے:(ترجمہ) یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہے ، ان کے لئے بخشش اور بڑا اجر ہے‘‘۔امتحان ان کے ایمان کا اللہ تعالیٰ نے خود لیا، ان کو تپایا، آزمایا ، مختلف کٹھن راہوں سے گزارا ، وہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت اور اجر عظیم کا اعلان فرمایا ۔ اس سے کسی مخصوص صحابی کی عظمت و فضیلت کو بیان کرنا مقصد نہیںہے بلکہ کسی تفریق کے بغیرتمام صحابہ مراد ہیں۔ رسول اکرم ؐ نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا :لوگو! میرے صحابہ کے حق میں اللہ سے ڈرو ، میرے بعد انہیں تنقید کا نشانہ مت بنانا۔ ایک اور موقع پر ارشاد فرمایا:لوگو! میرے صحابہ کی تکریم و تعظیم کرو کیوں کہ وہ تم میں سے برگزیدہ اور منتخب کئے ہوئے ہیں ( مشکوٰۃ ) ۔
وحی کے ذریعے رسول اکرم ؐ کو صحابۂ کرام کے باہمی اختلاف اور بعد کے لوگوں کی ان سے بدگمانیوں کا علم ہو گیا تھا اس لئے آپؐ نے مختلف پیرائے میں صحابۂ کرام کی عظمت اور ان کے مقام و مرتبہ کو بیان کرتے ہوئے ان سے محبت اور ان کے اکرام کی تعلیم دی اور ان کے شخصی یا اجتماعی خطا سے صرف نظر کرنے کا حکم دیا، کیوں کہ وہ اپنے عمل میں مخلص تھے ، اپنے اخلاص کے سبب عنداللہ وہ مغفور اور ماجور ہیں، اب اگر ان کی شان میں کوئی زبان درازی کرتا ہے تو خود اپنے لئے ہلاکت کا سامان فراہم کررہا ہے۔
صحابۂ کرام کی شان میں کسی طرح کے طعن و تشنیع سے بچنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ پورا دین ہم تک ان کے ذریعے ہی پہنچا ، ان میں سے کسی پر سب و شتم اور طعن و تشنیع سے ان پر اعتماد متزلزل ہوجاتا ہے اور ان پر اعتماد کا متزلزل ہونا دین کو منہدم کردیتا ہے۔ رسول اکرم ؐ کی صبح و شام ، اقوال و گفتار ،حرکات و سکنات اور اخلاق و کردار کو انہوں نے آگے بڑھایا، تابعین نے ان سے سیکھا اور تبع تابعین تک پہنچایا اور ان کے بعد یہ سلسلہ چلتا رہا ، یہاں تک کہ ہم اور آپ دین اسلام کے ایک مکمل نظا م کے ساتھ زندہ ہیں، صحابۂ کرام جو اس مذہب اسلام کے پہلے راوی اور پہلے سپاہی ہیں ،اگر واقعتاً مطعون ہو جائیں تو ہمارے پاس پھر کیا باقی رہے گا؟ حالاںکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں دین اسلام کو سمجھنے ، عمل کرنے اور اس کی تبلیغ و اشاعت کے لئے منتخب کیا ، ان پر اعتراض در اصل انتخاب خداوندی پر اعتراض ہے کہ جن نفوس قدسیہ کا اللہ تعالیٰ نے نبی کی صحبت کے لئے انتخاب کیا وہ ( نعوذباللہ) اس لائق نہیں تھے کہ ان پر اعتماد کیا جائے یا ان کے ذریعے دین کو سمجھا جا سکے۔ پھر قابل غور پہلو یہ بھی ہے کہ صحابہ ٔ کرام کو رسول اکرم ؐ کی صحبت کی برکت سے یہ مقام ملا ، گویا یہ لوگ آپ سے راست فیض یافتہ، تربیت یافتہ اور راست آپ کے شاگرد ہیں ۔ دنیا کا دستور ہے کہ استاذ جتنے باکمال ہوتے ہیں شاگرد بھی اتنے ہی باکمال نکلتے ہیں، غیر محسوس طریقے پر استاذ اور شیخ کی صفات شاگردوں کی طرف منتقل ہوتی ہیں، اس لئے شاگرد کی ناکامی استاذ کی ناکامی تصور کی جاتی ہے ۔ اگر کسی مدرسہ یا اسکول کے بچے ناکام اور بداخلاقی کے مرتکب ہوتے ہیں تو ان کے اساتذہ کی طرف انگلی اٹھتی ہے کہ ان کے کیسے استاذ ہیں ، ان کو کیا سکھایا اور کیا پڑھایا؟ ٹھیک اسی طرح صحابۂ کرام پر تنقید در حقیقت حضورؐ کی تربیت اور شاگردیت پر تنقید اور طعن ہے کہ آپؐ نے کامیاب معلم کا حق ادا نہ کیا یاآپؐ کی تربیت مؤثر نہ ہو سکی جب کہ یہ تمام باتیں باتفاق امت اصل کے خلاف ہیں۔ صحابہ کی عظمت کا انکار نبی کی عظمت کا انکار ہے جس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ، اس لئے نصوص شرعیہ میں بارہا ان نفوس قدسیہ کی عظمت کا اعلان کرتے ہوئے ان کے تقدس کا اظہار کیا گیا ہے۔
اہل بیت سے محبت نجات کا ذریعہ ہے ، اس پر سب مسلمانوں کا ایمان ہے۔ کیوں کہ یہ وہ پاکیزہ افراد ہیں جن کی نسبت سرکار دوجہاں ؐ کی طرف ہے ، اس نسبت نے انہیں پاکیزہ اور مرکز محبت و الفت بنادیا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ ان کی محبت اور تعریف میں ایسا طرز اختیار کیا جائے جس سے دیگر صحابہ کی عظمت متأثر ہو جائے یا ان کی محبت میں مبالغہ اختیار کرتے ہوئے دیگر صحابہ کو تنقید اور سب شتم کا نشانہ بنایا جائے، جیسے رسول اکرم ؐ کی ذات گرامی سے محبت ایمان کا جز ہے، دین و مذہب کی پوری عمارت اسی پر کھڑی ہے ، اگر یہ متزلزل ہوجائے تواسلام کی پوری عمارت منہدم ہوجائے گی لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ آپ ؐ کی محبت میں حضرت موسیٰ یا حضرت عیسیٰ کی تنقیص اور توہین کی جائے یا آپؐ کی عظمت اس طرح بیان کی جائے جس سے دیگر انبیائے کرام کے تقدس کو ٹھیس پہنچتی ہو ۔ یزید کے دور حکومت میں سیدنا حضرت حسین ؓ کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا تاریخ اسے معاف نہیں کر سکتی اور نہ ہی اسے اس حوالے سے اچھے الفاظ میں یاد کیا جا سکتا ہے لیکن اس کی وجہ سے حضرت معاویہ ؓ کی شان میں گستاخانہ کلمات ہرگز نہیں کہے جا سکتے، ان پر تنقید لعن و طعن یا کسی طرح کا بھی ادنیٰ سے ادنیٰ سے اہانت آمیز لفظ کا استعمال بھی قطعاً جائز نہیں چوں کہ وہ بہر حال صحابی ہیں اور ہر صحابی کا احترام واجب ہے۔ حضرت نوح علیہ السلام ایک پیغمبر تھے لیکن ان کا بیٹا کنعان ایمان میں داخل نہیں ہوا، کفر اور شرک سے بڑا کوئی ظلم اور گناہ نہیں ہے تو کیا کنعان کی وجہ سے حضرت نوح کی عظمت پر کوئی حرف آئے گا؟ اگر نہیں اور ہرگز نہیں تو اصحاب رسول ؐ کے تقدس پربھی ان کے آباء یا اولاد کی وجہ سے کسی طرح کا داغ نہیں لگایا جا سکتا۔
کوئی انسان جب اپنی زبان پر قابو کھو بیٹھتا ہے تو اپنے بڑوں اور بزرگوں پر تنقید اور لعن طن شروع کردیتا ہے اور جسارت کرتے کرتے صحابۂ کرام اور انبیائے کرام تک جا پہنچتا ہے ،وہ اشخاص جن کی مغفرت اور عصمت کا اعلان عرش سے کیا گیا ہے ، اپنے دو حرف کے علم یا چند ٹکوں کے نشے میں انہیں بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنانے کی جرأت کر بیٹھتا ہے جسے کوئی بھی سچا مسلمان برداشت نہیں کر سکتا۔ بعض صحابۂ کرام پر نفاق کی الزام تراشی اور تہمت بھی کسی مسلمان کے لئے ناقابل تحمل ہے، اس سے دین پر سے اعتماد ختم ہونے کے ساتھ انتخاب خداوندی اور عظمت نبی پر اعتراض ہوتا ہے۔ یہ تو کہا جا سکتا ہے کہ بعض منافقین ان کا لبادہ اوڑھ کر ان کی صفوں میں گھس گئے تھے جیسے آج بھی بعض چور نیکوں کا لباس اوڑھ کر لوگوں کو دھوکہ دیتے ہیں ، اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ بعض نیک افراد چور ہو گئے ، چورتو شروع سے نیک تھا ہی نہیں۔ ایسے لوگ جنہوں نے دل سے ایمان قبول نہیں کیا تھا، وہ بعض مفاد کے لئے ایمان ظاہر کرتے اور مسلمانوں کی طرح اعمال بھی کرتے مگر وہ سچے مسلمان نہیں تھے، ان کی وجہ سے یہ ہرگز نہیں کہا جا سکتا کہ بعض صحابہ منافق تھے۔ اس لئے کہ وہ شروع ہی سے صحابی نہیں تھے ، ان پر صحابی کا اطلاق درست نہیں ہے، اس لئے کہ صحابی تو اسے کہا جاتا ہے جس نے دل سے خدا کی وحدانیت اور رسول کی رسالت کا اقرار کیا ہو اور منافق اس سے محروم ہے تو صحابہ کی فہرست میں وہ شروع سے ہی شامل نہیں ہے۔
متعدد روایتوں میں ہے کہ رسول اکرم ؐ نے اپنے بعض صحابہ کی طرف منافقت کی نسبت کی ہے ، یاد رہے کہ ان تمام جگہوں میں صحابہ سے مراد ظاہراً کلمہ پڑھنے والے مسلمان ہیں جن کو اس وقت کے کفار مسلمان سمجھتے تھے حالاںکہ وہ مسلمان نہیں تھے ۔ اصطلاحی و شرعی معنوں میں جن کو صحابہ کہا جاتا ہے ان میں ایک فرد بھی منافق نہیں تھا ، نفاق تو دور کی بات ہے ایک کے ایمان میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا۔ آج کے دور میں اس طرح کے موہوم جملے جن سے مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ سے بدظنی یا شک و شبہ پیدا ہو سکتا ہے، ان کا استعمال جائز نہیں ہے۔ ظاہری معنی میں بھی منافقین کو صحابہ سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا کہ اس سے دیگر صحابۂ کرام کی عظمت و تقدس متأثر ہوتا ہے اور اس طرح کی باتوں سے ایک سچے مسلمان کی روح کانپ اٹھتی ہے۔