جنوبی افریقہ کے شہر جوہانسبرگ میں آج اختتام کو پہنچنے والے ’برکس‘ (BRICS) کے 15ویں سربراہی اجلاس پر سب کی نگاہیں ٹکی ہوئی تھیں۔ قیاس کیاجارہاتھا کہ مغرب کے مالیاتی اثر و نفوذ کا مقابلہ کرنے کیلئے بنائی گئی تنظیم کا دائرہ وسیع کیے جانے پر اتفاق رائے ہوگا۔ یہ قیاس درست ثابت ہوا اور 40ممالک کی درخواست رکنیت میں 6ممالک کو برکس میں کل وقتی رکن کے طور پر شامل کیے جانے کا فیصلہ کیاگیا۔برازیل، روس، انڈیا، چین اور سائوتھ افریقہ پر مشتمل 5 ممالک کے اس گروپ میں مصر، ایتھوپیا، ایران، ارجنٹائنا، متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب بھی شامل ہوں گے۔ان نئے ممالک کی رکنیت کا اطلاق یکم جنوری 2024 سے ہوگا۔
برکس کی رکنیت میں توسیع پر کافی عرصے سے بحث ہو رہی تھی۔ توسیع کارسمی اعلان بھلے ہی جنوبی افریقہ کے صدر سریل رامافوسا نے کیا لیکن وزیراعظم نریندر مودی کا دعویٰ ہے کہ ان ممالک کورکنیت دیے جانے کے سلسلے میں ہندوستان کی پہل اور سرگرمی کازیادہ اہم کردار رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان ہمیشہ سے ہی اس فورم کی توسیع کے حق میں رہا ہے اوراس کا موقف ہے کہ اس طرح کی توسیع ’برکس ‘کو مزید مضبوط اور مؤثر بنائے گی۔لیکن ایسے ممالک کی شمولیت جو چین کے حلقہ اثر میں ہوں، ہندوستان کیلئے پسندیدہ نہیں ہونا چاہیے۔غالباًاسی کے پیش نظروزیراعظم نریندر مودی نے نئے ممالک کی رکنیت کیلئے طے کردہ معیارات میں چند ایک ترمیم بھی پیش کیں لیکن اس کی پذیرائی نہیں ہوسکی۔
2009میں دنیا کی چار ابھرتی ہوئی معیشتوں برازیل، روس، انڈیا، چین نے اس کا آغاز کیاتھا۔تعلیم کو بہتر بنانے، ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان ہم آہنگی، ممالک کے درمیان سیاسی تعلقات نیز اقتصادی امداد اور تحفظ برقرار رکھنے اور اندرونی تنازعات حل کرنے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کی ثقافت کی حفاظت کاعزم لے کر شروع ہونے والے اس گروپ میں2010میں جنوبی افریقہ بھی شامل ہوگیا۔ اب جو نئے ممالک برکس میں شامل ہونے والے ہیں، ان تمام کے ساتھ ہندوستان کے مضبوط اور تاریخی تعلقات ہیں۔ لیکن ان تعلقات کے باوجود خدشہ یہ ہے کہ نئے ممالک کی شمولیت سے اس گروپ میں چین کا تسلط کہیں بڑھ نہ جائے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ چین حال کے دنوں میں بڑی کامیابی کے ساتھ عالمی تعلقات میں بڑھتے ’عدم استحکام‘ کو اپنے حق میں استعمال کرتا آرہاہے۔ایسے ممالک جو کل تک امریکہ کے زیر نگیں تھے، اب ان کا جھکائو چین کی جانب ہوتا جارہا ہے۔ چین کھلے لفظوں میں دنیا کے ممالک کو یہ پیغام دیتاآرہاہے کہ اس کے ساتھ ہاتھ ملانے سے امن، استحکام اور تجارت کے سنہرے مواقع ملیں گے جب کہ امریکہ سے تعلق کانتیجہ عدم استحکام اور جنگ کے علاوہ کچھ نہیں ملنے والا ہے۔ چین کا پیغام بہت سے ممالک نے قبول بھی کیا اور اس کے دائرۂ اثر میں آچکے ہیں۔ ان ہی ممالک میں ایران اورسعودی عرب بھی شامل ہیں۔ یہ دونوں اسلامی ممالک مشرقی وسطیٰ میں بالادستی کی جنگ بھی لڑرہے ہیں۔ ایران تو خیر سے امریکہ کو شیطان بزرگ کہتاآرہاہے لیکن سعودی عرب امریکہ کو علانیہ طور پر اپنا سرپرست اعلیٰ سمجھتا ہے۔ان سب کے باوجود ان دونوں کے درمیان کئی تنازعات حل کرانے میں چین نے ثالث کا کردار ادا کیا ہے۔اس طرح یہ دونوں ہی ممالک بھلے ہی ایک دوسرے کے مخالف ہوں لیکن ہندوستان کے مقابلے چین سے زیادہ قریب ہیں۔برکس کی رکنیت کے بعد عین خدشہ ہے کہ یہ چین کے حلقہ اثر میں شامل ہوکر ہندوستان کیلئے دردسر کے نئے مواقع نہ پیدا کردیں۔
ویسے بھی ہندوستان پہلے سے ہی چین کی توسیع پسندانہ حکمت عملی کا شکار ہوتاآرہاہے۔ ایک طرف چین،ہندوستان کے ساتھ تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنے کی بات کرتا ہے لیکن دوسری جانب کئی بار ہندوستان سرحد کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ کبھی وادی گلوان میں ہندوستان کی زمینوں پر چینی قبضہ کی خبریں آتی ہیںتو کبھی مشرقی سرحدوں میں چینی بستیوں کا ذکر سننے میں آتا ہے۔2014 میں تقریباً 1000 چینی فوجی جموں و کشمیر کے چومار علاقے میں داخل ہوئے تھے۔2018 کو بھوٹان کے ڈوکلام تنازع کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان مہینوںسنگین کشیدگی رہی اور سرحدی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل صف آرا ہوگئیں۔ دریائے گلوان کے کنارے 14ویں پٹرولنگ پوائنٹ پر دونوں ممالک کے فوجیوں کے درمیان تو خونریز جھڑپیں بھی ہوچکی ہیں۔ اسی طرح اروناچل پردیش کے سبانسیری ضلع میں چینی فوج کی طرف سے گاؤں آباد کرنے کی شکایتیںآئیں۔ چین کی اس ہندوستان مخالف توسیع پسندانہ پالیسی کے مدنظر چین سے قربت رکھنے والے ممالک کی ’برکس‘ میں شمولیت پر ہندوستان کو شادیانے بجانے کے بجائے محتاط رویہ اپنانے کی ضرورت ہے۔
[email protected]
’برکس‘ کی توسیع
سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
Click 👉 https://bit.ly/followRRS