عبیداللّٰہ ناصر
پرانی کہاوت ہے بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی! یہی کچھ ہندوستان کے آئین کی حالت ہو گئی ہے، اسے تل تل کر کے تو بہت پہلے سے مارا جا رہا ہے،اس کی روح کو تو روز لہولہان کیا جاتا رہا ہے لیکن اب اس کے الفاظ کو بھی ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ تعزیرات ہند اور ضابطہ فوجداری میں تبدیلی کرنے کے بعد وزیراعظم کی اقتصادی امور کمیٹی کے سربراہ وویک دیو را کا ایک پورٹل میں چھپا حالیہ مضمون بلی کو تھیلے سے باہر لانے کے مترادف ہے، اگرچہ یہ کہہ کر اس سے پلا جھاڑا جا رہا ہے کہ یہ وویک دیو را کے نجی خیالات ہیں، لیکن یہ ممکن نہیں ہے کہ وزیراعظم کی مشاورتی کمیٹی کا سربراہ کوئی بات، وہ بھی ڈنکے کی چوٹ پر ان کی مرضی کے بغیر کہہ سکے اور اگر انہوں نے اتنی بڑی بات وزیراعظم کی مرضی کے بغیر کہہ دی ہے تو آئین کی حرمت اور عظمت برقرار رکھنے اور عوام کو یہ یقین دلانے کے لیے کہ آئین ہند سے کوئی چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی، مسٹر وویک دیو را کو ان کے عہدہ سے فی الفور نکال باہر کیوں نہیں کیا گیا؟ اگر وویک وزیراعظم کے مشیروں میں شامل نہ ہوتے تو بیشک اسے ان کی ذاتی رائے سمجھا جا سکتا تھا لیکن ان کی جو حیثیت ہے، اس میں انہیں ببانگ دہل اتنے حساس مسئلہ پر اس طرح کی رائے پیش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
تلخ اور تاریخی حقیقت یہ ہے کہ آر ایس ایس شروع سے ہی آئین ہند کی مخالف رہی ہے۔ ملک کے بہترین دماغ جب دستور ساز اسمبلی میں آئین ہند تیار کرنے کے لیے ایک ایک نکتہ، ایک ایک دفعہ کے لیے ہفتوں بحث کرتے تھے، تب جا کر اسے منظوری ملتی تھی اور ڈاکٹر امبیڈکر کی قیادت میں ڈرافٹنگ کمیٹی اسے الفاظ کا جامہ پہناتی تھی، اس وقت آر ایس ایس اسے سعی لا حاصل کہہ کر اس کا مذاق اڑاتی تھی۔آر ایس ایس کے نظریہ ساز گرو گولوالکر کا کہنا تھا کہ ہمارے رشیوں منیوں کی تیار کردہ منواسمرتی جب ہمارے پاس موجود ہے تو ہمیں کسی دوسرے آئین کی ضرورت ہی نہیں ہے، منو اسمرتی کو ہی آئین ہند کے طور پر قبول کر لیا جانا چاہیے۔ مگر ہمارے روشن ضمیر لیڈروں نے اس احمقانہ اور دقیانوسی خیال کو مسترد کر دیا اور زبردست محنت، لگن، خلوص اور نیک نیتی کے ساتھ ایک ایسا دستاویز ہمیں دیا جو ہندوستان کو عالمی برادری میں ایک ترقی پسند، روشن خیال، انسانی اقدار کا پاسدار رکن بنانے میں مددگار ثابت ہوا۔ ہندوستان کا آئین دنیا کا ضخیم ترین آئین ہی نہیں ہے بلکہ یہ ہماری پرانی قدروں، جنگ آزادی میں بابائے قوم مہاتما گاندھی کے آدرشوں اور اصولوں کے ساتھ ہی ساتھ جدید اور قدیم کا حسین امتزاج بھی ہے۔یہ اس آئین کی ہی دین ہے کہ جب پڑوس میں ہی نہیں دنیا کے زیادہ تر، خصوصی طور سے نو آزاد ملکوں میں جمہوریت کا تصور بھی نہیں تھا، جواہر لعل نہرو کی قیادت میں آزاد ہندوستان نے اپنا سفر ہی بطور جمہوری ملک شروع کیا تھا اور اس نے صدیوں سے ظلم، استحصال اور نابرابری کا شکار رہے عوام کو برابری کے حقوق دیے بلکہ ایک ماں جیسے اپنے کمزور بچے کا کچھ زیادہ ہی خیال رکھتی ہے، اسی طرح اس مظلوم طبقہ کو زیادہ مراعات دے کر اسے سماج میں برابری کے مقام پر کھڑا کرنے کا بھی راستہ ہموار کیا۔ مذہب کے نام پر ہندوستان کے سینے پر آرا چلا لیکن ہمارے آئین نے سبھی مذہبی اقلیتوں کو یکساں حقوق اور اختیارات دے کر ان کی بھی دلجوئی کی۔ہندوستان جیسے متنوع ملک کو ایک لڑی میں ایسا پرویا کہ مختلف تہذیبوں، مذاہب، زبان، علاقہ کی اپنی خصوصیات بھی برقرار رہیں اور وہ سب مختلف رنگ کے پھولوں سے بنے ایک خوبصورت گلدستہ کے طور پر ہندوستان کی عظمت میں چار چاند بھی لگاتی رہیں۔آئین کو مرتب کر کے اسے ایک دستاویزی شکل میں دستور ساز اسمبلی کو سونپتے ہوئے اس آئین کے معمار ڈاکٹر امبیڈکر نے بہت بڑی بات کہی تھی، انہوں نے کہا تھا کہ ’کوئی آئین چاہے جتنا بھی اچھا ہو، اس کی اچھائی کا انحصار اسے نافذ کرنے والے افراد پر ہوتا ہے، ٹھیک ویسے ہی جیسے قصائی کے ہاتھ میں چھری جان لیتی ہے، لیکن ڈاکٹر کے ہاتھ میں چھری جان بچاتی ہے۔‘نہرو سے لے کر مودی تک کے دور کو دیکھیں تو ڈاکٹر امبیڈکر کے مذکورہ خیالات ہر ہر قدم پر سچ ثابت ہو رہے ہیں۔
آئین کوئی الہامی کتاب نہیں ہے جس میں تبدیلی ناممکن ہو، وقت اور ضرورت کے حساب سے اس میں ترمیم کی گنجائش رکھی گئی ہے اور سیکڑوں ترامیم ہو بھی چکی ہیں لیکن اس کے جو بنیادی اصول ہیں، انہیں تبدیل نہیں کیا جاسکتا، سپریم کورٹ کی گیارہ رکنی آئینی بنچ نے کیشو نند بھارتی کیس میں یہ بات واضح کر دی تھی، اب وویک دیو را اپنے مذکورہ مضمون میں اس فیصلہ کو غلط بتا رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ پارلیمنٹ چاہے تو نیا آئین مرتب کرسکتی ہے جبکہ قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ دستور ساز اسمبلی کی جگہ نہیں لے سکتی، اب یہ بات دیگر ہے کہ حکومت نئی دستور ساز اسمبلی تشکیل کر کے اسے نیا آئین تیار کرنے کی ذمہ داری سونپ دے۔ وویک دیو را کا مضمون شاید حکومت کی اسی منشا کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔در اصل آر ایس ایس کو دلتوں، خواتین اور مذہبی اقلیتوں خاص کر مسلمانوں اور عیسائیوں کو یکساں حقوق دینے سے شدید اختلاف ہے اور آئین میں وہ ایسی تبدیلی چاہتے ہیں جس سے ان طبقوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنا کر رکھا جا سکے۔1967میں جب ڈاکٹر لوہیا کی کوششوں سے کانگریس مخالف محاذ تیار ہوا اور آر ایس ایس کو حکومت میں شامل ہونے کا موقع ملا تبھی اندرا گاندھی چوکنی ہوگئی تھیں اورسمجھ گئی تھیں کہ ایک دن آر ایس ایس اتنی طاقتور ہوسکتی ہے کہ وہ ہندوستان کے سیکولرازم کے لیے خطرہ بن جائے، تبھی انہوں نے ایمرجنسی کے زمانہ میں آئین ہند کی تمہید میں ہی سیکولرازم اور سوشلزم کو شامل کراد یا تھا۔ آر ایس ایس والے آج یہی بات کہتے ہیں کہ اصل آئین جو بابا صاحب امبیڈکر نے دستور ساز اسمبلی کو پیش کیا تھا، اس میں سیکولرازم اور سوشلزم جیسے الفاظ شامل نہیں تھے، اس لیے انہیں ہٹایا جانا چاہیے۔لیکن یہاں بھی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ان کے راستے میں آ جاتا ہے۔ 1992میں جب بابری مسجد شہید کی گئی تھی تو وزیراعظم نرسمہا راؤ نے اترپردیش سمیت بی جے پی کی تین ریاستی حکومتوں کو برخاست کر دیا تھا، یہ معاملہ سپریم کورٹ گیا اور اس نے اس برخاستگی کو درست قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہندوستان کا آئین سیکولر ہے اور سیکولرازم کے ساتھ کوئی کھلواڑ برداشت نہیں کیا جاسکتا۔ ان سب باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ مودی حکومت نیا آئین مرتب کرنے کی تیاری کر چکی ہے۔ویسے بھی آئین کی روح کو تو وہ اکثر و بیشتر پامال کرتی ہی رہتی ہے ۔
آئینی اداروں پر سنگھ پریوار کے نظریات والے سربراہوں کو بٹھا کر مودی جی نے ان کی افادیت، معنویت اور غیر جانبداری پہلے ہی ختم کر دی ہے، اب وہ سفید ہاتھی بن چکے ہیں۔ جو سرکاری ایجنسیاں ہیں جیسے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ، سی بی آئی وغیرہ وہ حکم کی غلام بن چکی ہیں، الیکشن کمیشن جو سب سے پاک و صاف شفاف اور بیحد غیرجانبدار ہونا چاہیے اور جو کبھی اتنا نیک نام تھا کہ بہت سے ملکوں کے الیکشن کمیشن کے سربراہان یہاں تربیت لینے آتے تھے، آج اس پر سیاسی پارٹیوں اور عوام ہی نہیں خود سپریم کورٹ نے بھی عدم اطمینان ظاہر کرتے ہوئے اس کی تقرریوں میں شفافی لانے کے لیے کچھ رہنما اصول جاری کیے، ان میں سے ایک ہے کہ تقرری ایک تین رکنی کمیٹی کرے گی جس میں وزیراعظم، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور لوک سبھا میں حزب اختلاف کے لیڈر شامل ہوں گے۔ اب مودی سرکار نے نیا قانون بناکر چیف جسٹس کی جگہ کسی کابینی وزیر کو شامل کیا ہے، اس طرح تقرری کمیٹی کو ہی مضحکہ خیز بنا دیا ہے، ظاہر ہے کابینی وزیر وہی کرے گا جو وزیراعظم چاہیںگے۔اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مودی سرکار نے آئینی اداروں کوکس حد تک بے ریڑھ کا بنا دیا ہے۔
اٹل جی کے زمانہ میں آئین پر نظر ثانی کے لیے سپریم کورٹ کے سبکدوش چیف جسٹس چندرچوڑ کی قیادت میں ایک کمیٹی بنی تھی جس نے حتمی رپورٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ آئین نے ہمیں نہیں بلکہ ہم نے آئین کو ناکام کیا ہے یعنی ہم خود آئینی اصولوں اور اقدار پر کھرے نہیں اترے ہیں۔ اس لیے آئین پر نظر ثانی کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اپنی کارکردگی اور طرز حکمرانی کو آئین کے سانچے میں ایمانداری سے ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ایک بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ یہ آئین ہی ہندوستان کی سالمیت، وحدت اور اتحاد کا ضامن ہے، یہ رسی اگر ٹوٹ گئی تو ہندوستان بکھرجائے گا۔ ہندوستان کی سلامتی کے لیے آئین کا تحفظ ضروری ہے اور اس کا تحفظ ایک ایک ہندوستانی کامقدس فریضہ ہے ۔
(مضمون نگار سینئر صحافی و سیاسی تجزیہ نگار ہیں)
[email protected]