آنند نگر مہراج گنج: الحاج گلزار اعظمی کے سانحہ ارتحال پر مرکزی حافظ شجاعت فیض عام چیریٹیبل ٹرسٹ کے جنرل سکریٹری مولانا شمس الہدی قاسمی کی صدارت میں حافظ شجاعت ٹرسٹ کے آفس میں ایک تعزیتی نشست کا انعقاد کیا گیا جس میں مولانا شمس الہدی قاسمی صاحب نے کہا کی گلزار اعظمی صاحب جمعیۃ کے مضبوط قلعہ اور آہنی دیوار تھے۔ امت کا درد آپ کے قلب و جگر میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا ۔ مجھے کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوگی کی گلزار اعظمی کی تخلیق عوام کے ٹیستے ہوئے زخموں پر مرہم رکھنے کے لیے ہی ہوئی تھی۔ گلزار اعظمی نے اپنی پوری جوانی و بڑھاپا معصوم مسلمانوں کی بالا دستی کے لیے وقف کر رکھی تھی۔ اگر کسی بھی مکتبِ فکر کے لوگوں کو کوئی تکلیف پہونچتی تو مرحوم غم سے کراہ اٹھتے ، آپ کا چین و سکون چھین جاتا۔ یقینًا آپ جمعیۃ کے بیباک و نڈر جانباز تھے۔ آپ نے اپنی زندگی میں بےشمار محروسین کو قانونی چارہ جوئی سے آزاد کرایا، اس میں کچھ ایسے تھے جن کو سنگین مقدمات میں فرضی پھنسایا گیا تھا، اور بعض تو ایسے تھے جن کو پھانسی کی سزا تک ہو گئی تھی۔ لیکن مرحوم نے بڑے ہی چابک دستی سے وکیلوں کی پینل کے ذریعہ ایسے لوگوں کو زنداں سے نکال والدین کے پاس بھیج کر یعقوب و یوسف کے قصے کو اعلیٰ نمونہ کی شکل میں پیش کیا ۔ مولانا شمس الہدی نے نشست میں موجود غموں سے نڈھال لوگوں کو ڈھارس بندھاتے ہوئے اپنے دل پر پتھر رکھ کر مزید کہا کی اگر اللہ نے دار فانی سے گلزار اعظمی کو اٹھا لیا تو کوئی بات نہیں ۔ یہ رب کا اٹل قانون ہے، ہم بلا قیل و قال اپنے آپ کو اس کے حضور سرنگوں کر دیں۔ کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ بھی تو نہیں ہے۔ ہم اللہ کی امانت ہیں۔ کوئی بعید بھی نہیں کی اللہ ربّ العزّت مرحوم کے بدل میں پھر کوئی عظیم سپہ سالار پیدا کر دے۔ اس لیے آپ بے فکر رہیں۔ اللہ کی رحمت سے مایوس بالکل نہ ہوں ۔آنا جانا لگا رہے گا اس زمین پر آسمان کے نیچے بڑے بڑے لوگ آئے اور چلے گئے۔ حضرت آدم سے لیکر پیارے لاڈلے حبیب تک سارے انبیاء اللہ کے پیارے ہو گئے۔ مرحوم تو محض اللہ کے نیک بندے تھے۔ مجھے اللہ کی ذات سے پورا یقین ہے کہ انشاء اللہ اللہ پھر کسی حق گو، محروسین کی کفالت کرنے والا پیدا فرماۓ گا۔ نشست میں موجود ٹرسٹ کے جنرل سپروائزر حافظ عبید الرحمٰن الحسینی نے کہا کہ مولانا کے جانے سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا بھرنا مشکل ہے ۔ تعزیتی نشست میں موجود سیکڑوں لوگوں نے اپنی نم آنکھوں سے مولانا کے لیے ایصالِ ثواب کا اہتمام کیا۔ آخر میں قاسمی صاحب نے رو رو کر مرحوم کے لیے دعا کی۔ آپ مرحوم کے اوصاف حمیدہ کو یاد کر ففک ففک و تڑپ تڑپ اس قدر آہ وگریہ زاری کر رہے تھے جیسے کوئی یتیم والدین کی وفات پر روتا ہے۔ اس موقع پر ٹرسٹ کے ذمہ داران کے علاوہ کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوئے۔
زمین چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
نہ گورے سکندر نہ ہے قبر دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے