ریاکاری سے بچیں اور اپنے رب کو راضی کریں

0

محمدمدثرحسین اشرفی

عصر حاضر میں معاشرے میں جہاں بہت ساری برائیاں دن بہ دن پھیلتی جارہی ہیں، وہیں اعمال صالحہ میں چند مکار قسم کے لوگ، ریا جیسے ناسور شامل کرکے لوگوں میں اپنی واہ واہی کی خاطر اپنے رب کی ناراضگی مول لے رہے ہیں -مگر ایسے لوگ پل بھر کے لئے بھی تامل نہیں کرتے، کہ عبادات میں ریا کوشامل کرکے جس سے واہ واہی کی امید یاکسی طمع یاحرص کے متمنی ہیں، ایسے لوگ اگر خوش بھی ہوجائیں تو کیا وہ آپ کی دنیا وآخرت سنوار دیں گے؟ نہیں اور ہرگز نہیں! اس کے برعکس اگر عبادات محض خلوص وللٰہیت کے ساتھ کی جائے،اس کی رضا کے لیے اعمال صالحہ کیے جائیں، توپروردگارعالم جو قادر مطلق ہے، اگر وہ راضی ہوجائے تو یقین جانئے کہ آپ کی دنیا وآخرت روشن وتابناک ہیں -اسلام ایک پاکیزہ اور صاف ستھرامذہب ہے -اس میں ریا کوشرک اصغر کہاگیاہے،جس سے احتراز بہر حال لازم وضروری ہے-
اللہ تبارک وتعالی قرآن عظیم میں ارشادفرماتاہے۔(ترجمہ) جوآخرت کی کھیتی چاہے ہم اس کے لیے اس کی کھیتی بڑھائیں اورجودنیاکی کھیتی چاہے ہم اسے اس میں کچھ دیں گے اور آخرت میں اس کاکچھ حصہ نہیں۔حضرت علامہ پیرکرم شاہ ازہری مندرجہ بالااسی آیت کریمہ کی تفسیر میں رقمطرازہیں: “انسان جن مشاغل میں دن رات مشغول رہتاہے، جن مقاصدکے حصول کے لیے وہ تگ ودوکرتاہے، اس سے اگروہ اپنی آخرت سنوارناچاہتاہے اور اپنے رب کریم کوراضی کرناچاہتاہے تواسے مبارک ہو، اسے اس کی محنت سے کم ازکم دس گنازیادہ اجرملے گا، اور اگر اس کے عمل میں عجزونیاز زیادہ ہو تو اجربھی اسی نسبت سے بڑھتاجائے گا -اس کی آخرت سنورجائے گی اور جولوگ صبح سے لے کرشام تک پسینہ میں شرابوربھاگے پھرتے ہیں، رات بھر فکر اور سوچ کے گردابوں میں پٹخنیاں کھاتے رہتے ہیں اور اس سے ان کامقصد عاقبت سنوارنانہیں بلکہ دنیا میں جاہ وجلال حاصل کرنا اور دولت وثروت کے انباہ جمع کرنا ہے، تو ان کے متعلق ایک بات تویہ ہے کہ آخرت کی زندگی میں ان کے لیے کوئی آرام وآسائش اور کوئی عزت وپذیرائی نہیں ہوگی -رہی دنیاجس کے لیے وہ دیوانوں کی طرح مارے مارے پھرتے ہیں۔
اس میں سے بھی انہیں اتنا تو نہیں ملے گا کہ ان کی حسرت پوری ہوسکے البتہ کچھ نہ کچھ انہیں دے ہی دیاجائے گا -اس آیت کی صحیح تفسیر ایک ارشادنبوی سے ہوتی ہے -نبی مکرم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جواخروی زندگی کی بہتری کے لیے عمل کرتاہے اللہ تعالی اس کی پریشانیوں کودورکردیتاہے، اس کے دل کوغنی کردیتاہے اور دنیا ذلیل ہوکراس کے پاس حاضرہوتی ہے اور جو آدمی دنیاکی نیت سے کام کاج میں مصروف رہتاہے، اللہ تعالی اس کی یکسوئی اور طمانیت کودرہم برہم کردیتاہے اور اس کے فقر کواس کی آنکھوں کے سامنے رکھ دیتاہے اور دنیامیں سے اسے اتناہی ملتاہے جتنااللہ تعالی نے اس کے لیے لکھاہے۔ریا کاری کبیرہ گناہ ہے-ایک حدیث شریف میں اللہ کے رسول صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ بروز حشر قاری قرآن، سخی جنہوں نے راہ خدامیں مال صرف کئے، اور شہید جو فی سبیل اللہ شہید کیے گئے -ان تینوں کو ریاکاری کے عوض جہنم بھیج دیاجائے گا -مزید آقائے دوجہاں صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایاکہ اللہ تعالی کی مخلوق میں سے سب سے پہلے ان ہی تین آدمیوں سے جہنم بھڑکایاجائے گا -افسوس کہ آج ریاکاری کی بلااس قدر بڑھ گئی کہ کچھ اہل علم بھی اس میں ملوث نظر آرہے ہیں -تف ہے ایسے اہل علم پر جن کی نیت میں خلوص نہیں، مدارس میں اساتذہ کرام نے محنت ومشقت سے جو تعلیم دی،چاہئے تو یہ تھاکہ اس تعلیم وتربیت کاصحیح استعمال کرتے، مگر نام ونمود اور شہرت کی خاطر اساتذہ کرام کی تعلیم فراموش کرکے نہ صرف یہ کہ اساتذہ کرام کی دل شکنی کی ہے، بلکہ اپنے والدین کریمین کے خوابوں کوبھی چکناچور کیا ہے -جنہوں نے یہ سوچ کر دینی تعلیم سے آراستہ کیے کہ میرا لعل فراغت کے بعد خلوص دل سے دین کی خدمات انجام دے گا -لہٰذا جو بھی اس کبیرہ گناہ میں ملوث ہیں وہ اس سے باز آئیں، نیز دین کی خدمات واشاعت کے سلسلے میں اپنے اسلاف کے متبع رہیں، اور بجائے اہل دنیا کو خوش کرنے کے اپنے رب تعالی کو راضی کریں –

سوشل میڈیا پر ہمارے ساتھ جڑنے کے لیے یہاں کلک کریں۔ Click 👉 https://bit.ly/followRRS