راہل گاندھی
جو بات دل سے نکلتی ہے ، دل میں اترتی ہے
پچھلے سال اپنے گھریعنی مادر وطن کے آنگن میں میں 145دنوں تک پیدل چلا ۔ سمندر کے ساحل سے میں نے شروعات کی اور دھول، دھوپ، بارش سے ہو کر گزرا۔ جنگلوں ، چراگاہوں، شہروں، کھیتوں ، گائوں ، ندیوں اور پہاڑو ں سے ہوتے ہوئے میں محبوب کشمیر کی نرم برف تک پہنچا۔
راستے میں بہت سے لوگوں نے مجھ سے پوچھا، یہ آپ کیوں کررہے ہیں ۔ آج بھی کئی لوگ مجھ سے اس یاترا کے مقاصد کے بارے میں پوچھتے ہیں۔ آپ کیا تلاش کررہے تھے؟ آپ کو کیا ملا؟
اصل میں میں اس چیز کو سمجھنا چاہتا تھا جو میرے دل کے اتنے قریب ہے۔ جس نے مجھے موت سے آنکھیں چار کرنے اور چیلنج کا مقابلہ کرنے کی خواہش پیدا کی، جس نے مجھے درد اور بے عزتی سہنے کی طاقت دی اور جس کے لیے میں اب سب کچھ نچھاور کرسکتا ہوں۔
دراصل میں جاننا چاہتا تھا کہ وہ چیز آخر کیا ہے، جس سے میں اتنا پیار کرتا ہوں؟ یہ دھرتی؟ یہ پہاڑ؟ یہ سمندر؟ یہ لوگ یا کوئی نظریہ؟ شاید میں اپنے دل کو ہی سمجھنا چاہتا تھا۔ وہ کیا ہے، جس نے میرے دل کو کس شدت سے پکڑ رکھا ہے؟
سالوں سے روزانہ ورزش میں تقریباً ہر شام میں 8سے 10کلو میٹر دوڑ لگا تا رہا ہوں ،میں نے سوچا بس پچیس؟ میں تو آرام سے 25کلو میٹر چل لوں گا، مجھے پکا یقین تھا کہ یہ ایک آسان پد یاترا ہوگی، لیکن جلد ہی درد سے میرا سامنا ہوا، میرے گھٹنے کی پرانی چوٹ جو لمبے علاج کے بعد ٹھیک ہوگئی تھی پھر سے ابھر آئی۔ اگلی صبح لوہے کے کنٹینر کی تنہائی میں میرے آنکھوں میں آنسو تھے ۔ باقی بچے 3800کلو میٹر کیسے چلوں گا ؟ میرا غرور چور چور ہو چکا تھا۔
علی الصباح سے ہی یاترا شروع ہوجاتی تھی اور ٹھیک اس کے ساتھ ہی درد بھی۔ ایک بھوکے بھیڑئیے کی طرح درد ہر جگہ میرا پیچھا کرتا اور میرے رکنے کا انتظار کرتا ۔ کچھ دنوں بعد میرے پرانے ڈاکٹر دوست آئے ۔ انہوںنے کچھ مشورے بھی دئیے، مگر درد جوں کا توں رہا۔
لیکن تبھی کچھ انوکھا تجربہ ہوایہ ایک نئے سفر کی شروعات تھی، جب بھی میرا دل ڈوبنے لگتا ، میںسوچتا کہ میں اب اور نہیں چل پائوں گا۔ اچانک کوئی آتا ہے اور مجھے چلنے کی طاقت دے جاتا ہے۔ کبھی خوبصورت تحریر والی 8سال کی ایک پیاری بچی، کبھی کیلے کے چپس کے ساتھ ایک معمر بزرگ خاتون، کبھی ایک آدمی جو بھیڑ کو چیرتے ہوئے آئے اور مجھے گلے لگائے اور غائب ہوجائے۔ جیسے کوئی خاموش اور ان دیکھی آدرش طاقت میری مدد کررہی ہو۔ گھنے جنگلوں میں جگنوئوں کی طرح وہ ہر جگہ موجود تھیں، جو مجھے واقعی اس کی ضرورت تھی۔ یہ طاقت میری راہ روشن کرنے اور مدد کرنے وہاں پہلے سے تھیں۔
پدیاترا آگے بڑھتی گئی ، لوگ اپنے مسائل لے کر آتے رہے ، شروعات میں میں نے سب کو اپنی بات بتانی چاہی ، میں نے حتی الامکان سمجھانے کی کوشش کی ، میں نے لوگوں کی پریشانیوں اور ان کے حل پر باتیں کیں ۔ جلد ہی لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی اور میرے گھٹنے کا درد بدستور جاری رہا- ایسے میں میں نے لوگوں کو محض دیکھنا اور سننا شروع کیا۔ یاترا کا شور بہت تھا ، لوگ نعرے لگا کر تصویریں کھینچتے ، باتیں کرتے اور دھکا مکی کرتے ہوئے چلتے تھے۔ روز انہ کا یہی معمول تھا، ہر روز 8سے 10گھنٹے میں لوگوں کی باتیں سنتا اور گھٹنے کی درد کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتا۔ پھر ایک دن میں نے ایک دم انجانے اور پراصرار خاموشی کو محسوس کی۔ سوائے اس شخص کی آواز کے جو میرا ہاتھ پکڑے مجھ سے بات کررہا تھا۔ مجھے اور کچھ بھی سنائی نہیں دے رہا تھا۔ میرے اندر کی آواز جو بچپن سے مجھ سے کہتی اور سنتی آرہی تھی ، خاموش ہونے لگی۔ ایسا لگا جیسے مجھ سے کوئی چیز ہمیشہ کے لیے چھوٹ رہی ہو۔ وہ ایک کسان تھا اور مجھ سے اپنی فصل کے بارے میں بتا رہا تھا ، اس نے روتے ہوئے کپاس کی سڑی ہوئی لڑیاں دکھائیں، مجھے اس کے ہاتھوں میں برسوں کی تکلیف اور الم دکھائی دی۔ اپنے بچوں کے مستقبل کو لے کر اس کا ڈر میں نے محسوس کیا۔ اس کی آنکھوں کے کٹورے ، تمام بھوکی راتوں کا حال بتاتے تھے۔ اس نے کہا کہ اپنے مرحوم والد کے لیے کچھ بھی نہیں کرپایا، اس نے کہاکہ کبھی کبھی اپنی بیٹی کو دینے کے لیے اس کے ہاتھ میں ایک کوڑی بھی نہیں ہوتی۔ شرمندگی اور محرومی کے وہ لمحے جو اس نے جیون ساتھی کے سامنے محسوس کیے۔ ایسا لگا میرے دل میں پیوست ہوگئے۔ میں کچھ بول نہیں پایا، بے بس ہو کر میں رکا اور اس کسان کو بانہوں میں بھر لیا۔
اب بار بار یہی ہونے لگا، اجلی ہنسی والے بچے آئے ، مائیں آئیں ، طلبا آئے، سب سے مل کر یہی جذبہ مجھ تک آیا، ایسا ہی تجربہ دکانداروں ، بڑھیوں ، موچیوں ، نائیوں ، کاریگروں اور مزدوروں کے ساتھ بھی ہوا۔ فوجیوں کے ساتھ یہی محسوس ہوا۔ اب میں ہجوم کو شور کو اور خود کو سن ہی نہیں پارہا تھا۔ میرا دھیان اس شخص سے ہٹتا ہی نہیں تھا جو میرے کان میں کچھ کہہ رہا ہوتا۔ آس پاس کا شور وغل اور میرے اندر چھپا ہوا پر امید، مجھ پر فیصلہ دینے والا آدمی نہ جانے کہاں غائب ہوچکا تھا ،جب کوئی طالب علم کہتا کہ اسے فیل ہونے کا ڈر ستا رہا ہے ، مجھے اس کا ڈر محسوس ہوتا، چلتے چلتے ایک دن سڑک پر بھیک مانگنے کو مجبور بچوں کا ایک جھنڈ میرے سامنے آگیا، وہ بچے ٹھنڈ سے کانپ رہے تھے ، انہیں دیکھ کر میں نے طے کیا جب تک سردی برداشت کر سکوں گا یہی ٹی شرٹ پہنوں گا۔
میرے شق کی وجہ سے اچانک خود بخود مجھے محسوس ہونے لگا کہ میرا مادر وطن مجھ پر ظاہر ہونے لگا تھا کہ زمین محض ایک ٹکڑا نہیں ہے ، کچھ تاثر ات کا گچھا بھر نہیں ہے ، نہ ہی کسی ایک مذہب، ثقافت یا خاص تاریخ کا مظہر ہے، نہ ہی کوئی خاص ذات بلکہ ہر ایک ہندوستانی کی پارہ پارہ آواز ہے بھارت ماتا- چاہے وہ کمزور ہو یا مضبوط، ان آوازوں میں جو خوشی ہے، جو خوف، جو درد ہے وہی بھارت ماتا ہے۔
بھارت ماتا کی اس آواز کو سننے کے لیے میری اپنی آواز کو ، میری اپنی خواہشات کو، آپ کے اندیشوں کو خاموش ہونا پڑے گا۔وقتاً فوقتاً بھارت ماتا کسی اپنے کے ہی کان میں کچھ سرگوشی کرتی ہے، مگر تبھی جب اپنے اندر کا میں پوری طرح پرسکون ہو ، جیسے سوچ اور فکر میں ڈوبے ہوئے شخص کی خاموشی بھارت ماتا کسی اپنے کے کان میں کچھ نہ کچھ سرگوشی کرتی ہے، مگر تبھی جب اسے اپنے کا ’ اتم‘ پوری طرح پرسکون ہو جیسے ایک آدمی کی دھیان میں خاموشی ۔
سب کچھ کتنا آسان تھا۔ بھارت ماتا کی آتما وہ موتی ہے، جسے میں اپنے اندر کی ندی میں تلاش کررہا تھا جو صرف بھارت ماتا کی سبھی مخلوق کے لہراتے ہوئے غیر معمولی اور وسیع سمندر میں ہی پا یا جاسکتا ہے۔
(مضمون نگار ممبر لوک سبھا اور کانگریس کے سابق صدر ہیں )
मेरी भारत माता – जमीन का टुकड़ा-भर नहीं, कुछ धारणाओं का गुच्छा-भर भी नहीं है, बल्कि हर एक भारतीय की पारा-पारा आवाज़ है। pic.twitter.com/SdqpuOxo95
— Rahul Gandhi (@RahulGandhi) August 15, 2023