از : محمد عمر قاسمی کاماریڈی
تاریخ عالم گواہ ہے کہ کامیابی اور اقبال مندی انہی لوگوں کا نصیب بنتی ہے جو زندگی میں کچھ کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، ترقی کی راہوں پر وہی اشخاص و رجال پہونچ پاتے ہیں جن کی ہمتیں بلند، شعور پختہ اور ضمیر بیدار ہوتا ہے، تاریخ اور اتہاس میں وہ جیالے ہمیشہ زندہ و تابندہ رہتے ہیں جو اپنا نقشِ پا اور نشانِ راہ چھوڑ جاتے ہیں، اور “کامیابی” در اصل ایک طویل سفر کا نتیجہ اور اس کی منزل ہوتی ہے؛ چناں چہ محنت اور سعی اس کا راستہ اور طریق ، دور اندیشی اور منصوبہ بندی زادِ راہ ، ہمتوں کی بلندی اور حوصلہ کی پختگی اس کی سواری ، صلاحیت اور استعداد اس کے لئے قطب نما ، کامیابی و ظفر یابی اس کی منزل ہے، اور ظاہر ہے کہ ترقی انہی لوگوں کا مقدر ہوتی ہے جو محنت اور کوشش کو اپنا نصب العین اور مقصدِ اصلی بنالیتے ہیں؛ کیوں کہ
یاد کرتا ہے زمانہ انہی انسانوں کو
روک لیتے ہیں جو بڑھتے ہوئے طوفانوں کو
کامیابی کی کلید محنت کے پردہ میں!
جس طرح زندہ دلی کا نام ہی زندگی ہے اسی طرح کام کرنا ہی کامیابی ہے؛ کیوں کہ جب انسان جہدِ مسلسل اور سعیٔ پیہم کی پوشاک زیب تن کرکے میدانِ عمل میں اُترتا ہے تو ترقی و سربلندی، کامیابی اور کامرانی اس کے قدم چومنے لگتی ہے، اسی لئے کہا جاتا ہے کہ کامیابی کے پسینے پر صرف اور صرف محنت کا حق ہوتا ہے۔
بس اپنے اندر جنون کی چنگاری بھڑکانے کی ضرورت ہوتی ہے؛ لیکن افسوس کہ ہماری صورت حال انتہائی ناگفتہ بہ ہے کہ ہماری قوم کو نہ ترقی اور بلندی کا شوق ہے نہ کچھ کرنے کا جذبہ، نہ شاندار ماضی کی خبر ہے نہ روشن مستقبل کی فکر، اولو العزم جیالوں کی داستانِ حیات سے شناسائی ہے نہ اوراقِ تاریخ پر نظر، بس بے نیل مرام زندگی گذر رہی ہے، ستم ظریفی کی انتہا یہ کہ نہ ہم خود محنت کرتے ہیں اور نہ کسی کی محنت ہماری آنکھوں میں جچتی ہے؛ یہی وجہ ہے کہ کوتاہ عملی و کسل مندی اور کام چوری ہماری طبیعت ثانیہ بن چکی ہے، اور محنت و مشقت سے بچنے کے لئے بہانہ سازی اور حیلہ بازی کا سہارا لیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ تو ناامید اور نامراد لوگوں کا طریقۂ کار اور وتیرہ خاص ہوا کرتا ہے اور کامیابی کا حصول محنت و سعی پر منحصر ہے، اگر ہم بھی اپنی زندگی میں کچھ انقلابی کام کرنا چاہتے ہیں تو سستی وکاہلی کی زنجیروں کو اتار کر اٹھ کھڑے ہونا پڑے گا ؛ یوں ہی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھنے اور حکومتوں کو کوسنے سے رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہوگا، اور دنیا کا دستور بھی ہے کہ ”کچھ پانے کے لئے کچھ کھونا پڑتا ہے“۔
مشاہداتِ زمانہ گواہ ہے کہ کام یاب تو وہی شخص ہوگا جو بےتکان محنت و مشقت کرے، اور مشکل کن اور صبر آزما حالات اور جاں گسل آزمائشوں میں صبر و استقامت کا دامن تھامے رکھے، لوگوں کی اول فول بگواس اور دشنام طرازیوں کی پرواہ کیے بغیر اور نکتہ چینوں کی تلخ نوائی اور سخت کلامی پر شکستہ دل اور کبیدہ خاطر ہونے کے بجائے اپنی منزل اور اپنے گول پر پوری توجہ مرکوز کریں کیوں کہ محنت کے بغیر کوئی کامیابی نہیں اور محنت کے بعد کوئی محرومی نہیں، اور اس کے برخلاف یوں ہی شیخ چلی کی طرح محنت کے بغیر کامیابی اور ترقی کے خواب دیکھنا حماقت کے علاوہ کچھ نہیں، سچ تو یہ ہے کہ
بے دلی کیا یونہی دن گذر جائیں گے
صرف زندہ رہیں ہم تو مرجائیں گے
ہماری عدیم الفرصتی کا بحران:
ہمارے زمانہ کا سب سے بڑا المیہ اور ناسور یہ ہے کہ جب بھی کسی شخص سے ملاقات ہوتی اور اسے کسی ذمہ داری کی تفویض کی جائے یا تعمیلِ امر کی بات کہی جائے تو اس وقت سامنے والے کی زبان پر یہی شکوہ تازہ دم ہوتا ہے کہ “فرصت نہیں ہے ” “وقت نہیں ملتا”، اور تعجب کی بات تو یہ کہ بہت سے لوگوں کو تو کام کچھ ہوتا نہیں؛ لیکن پھر بھی سارا دن مصروف اور مشغول رہتے ہیں، دراصل یہ سب مقصد سے بے خبری اور منزل کی عدم تعیین اور منظم و مؤثر منصوبہ بندی نہ ہونے کا نقصان ہوتا ہے؛ ورنہ مصروفیت کوئی وجہ نہیں، کام کرنے والوں نے یہ تو اپنے تنگ وقت اور عدیم الفرصتی کے باوجود تنہا وہ کام کرگئے، جن پر آج بھی پوری دنیا رشک کرتی ہیں، تو پھر ہماری مصروفیتیں کس درجہ کی ! الغرض یہاں پر بطورِ مثال اور عبرت کے لئے تاریخ اسلام کے صرف ایک شخص کی تصویر پیش کرنا ضروری سمجھتا ہوں اور وہ بائیس لاکھ مربع میل کا حکمران سیدنا حضرت عمر بن خطاب ؓ کی شخصیت ہے، ”امیر المؤمنین سے بڑھ کر مصروف ترین اور عدیم الفرصت کون ہوسکتا ہے مگر فرصت کی فراوانی کا حال یہ ہے کہ زکات کا اونٹ بھاگ گیا اس کی تلاش کے لئے خود ہی نکلے ہوئے ہیں، ایک بدو کے یہاں رات کو ولادت کا مرحلہ ہے اس کا خیمہ مدینہ کے باہر ہے تو آپ خود اپنی زوجہ مکرمہ کو لیکر اس کے پاس پہونچتے ہیں اور جب تک بخیریت تولد نہیں ہوجاتا وہاں سے ہٹتے نہیں ، ایک عورت خالی ہانڈی آگ پر چڑھائے ہوئے ہے آپ کو معلوم ہوتا ہے تو بیت المال سے کھانے کا سامان خود لے جاتے ہیں خود آگ جلاتے ہیں ، خود پکاتے ہیں، خود بچوں کو کھلاتے ہیں اور کس قدر خوش ہوکر آتے ہیں“(اقتباس: از حدیث درد دل)
اور بزبانِ حال یہ کہہ گئے :
”وقتِ فُرصت ہے کہاں، کام ابھی باقی ہے“
یاد رکھنا چاہیے کہ کام کرنے والے اس طرح بھی کام کرکے چلے جاتے ہیں لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ کچھ کام کرنے کا عہد کریں، محنت کا مزاج بنائیں ، اور اپنی محنت پر نظر ہو، نتیجہ کی فکر نہ ہو، جب محنت و جفاکشی مسلسل اور پیہم ہو تو متوقع نتائج کا برآمد ہونا یقینی امر ہے، یہی قدرت کا اصول اور دنیا کا دستور ہے جیسا کہ ایک شاعر نے اس حقیقت کو الفاظ کے موتیوں میں کچھ اس انداز سے پرویا ہے :
بقدر الكد تكتسب المعالي
ومن طلب العلا سهر الليالي
ومن رام العلا من غير كد
أضاع العمر في طلب المحال
بستی بستے بستے بستی ہے:
ہمت کرے انسان تو کیا ہو نہیں سکتا، اگر آدمی میں پرجوش حوصلہ اور انتھک کوشش ہو تو وہ ناممکن کو ممکن اور مشکل کو سہل بنانے کی طاقت رکھتا ہے؛ یہی وجہ ہے کہ زبیدہ خاتون زوجہ خلیفہ ہارون رشید نے اہل مکہ اور حجاج کرام کو درپیش پانی کی مشکل کو ختم کرکے پانی کی فراہمی کے لئے ایک یادگار اور بےمثال نہر کھودوائی، اور ایک ناممکن منصوبہ کو حقیقت کی شکل دیکر یہ پیغام دیا کہ اگر عزم و ہمت کی پختگی اور کام کی منصوبہ بندی اور سلیقہ مندی ہو تو ہر کام بہتر طریقے پر انجام دیا جاسکتا ہے؛ لیکن اب ہمیں کیا کرنا ہے تو اس کے لئے سطورِ ذیل میں چند تدابیر اور امور ذکر کیے جائیں گے جو ان شاء اللہ میدانِ عمل کے فعال اور کام کرنے والے ساتھیوں کے لئے معاون ثابت ہوگی۔
۱۔ مقصد اور ہدف کی تعیین: سب سے یہ طئے کرنا کہ “کیا کرنا ہے” اور “کیوں کرنا ہے” ؟ کیوں کہ یہ طئے کیے بغیر کی جانے والی ساری کاوشیں رایگان جاسکتی ہے اس لئے پہلے تفکر اور تحری کرلیں کہ مجھے اس امر معہود میں دلچسپی اور شرح صدر بھی ہے کہ نہیں؛ اگر رحجان اثبات کی جانب ہو تو آگے قدم بڑھائے ورنہ توقف بہتر ہے۔
۲۔ منظم و مؤثر منصوبہ بندی: کسی بھی کام کے پائیداری اور حسنِ تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ ایک مکمل نظام العمل اور شیڈول تیار کیا جائے، یہی خدائی سنت اور حکمت و دانائی کی علامت ہے، کیوں کہ منصوبہ بندی سے ایک دن کیا جانے والا کام’ غیر سنجیدگی اور بد سلیقگی سے مہینہ بھر کی کوششوں سے بہتر ہے۔
۳۔ اصحابِ رائے سے مشاورت : اپنے معاملات میں ندامت سے بچاؤ اور ملامت سے امن دلانے والی چیز “باہمی مشورہ” ہے، اور اپنا ایک مشیر بھی طئی کرلیں وہ بر وقت آپ کی صحیح رہنمائی کرسکے؛ کیوں کہ مشورہ عین ہدایت ہے؛ اس لئے اپنے تمام امور و اعمال میں اسی میدان کے تجربہ کار لوگوں کے تجربات سے استفادہ کرنا ہی دانش مندی ہے، ٹھوکر کھاکر سیکھنے سے بہتر اپنے پیش رو لوگوں کی آراء و تجاویز سن لیں۔
۴۔ مستقل مزاجی اور کام کی پابندی: پابندی سے کیا جانے والا تھوڑا بھی اللہ کے یہاں مقبول و محبوب ہے؛ یہی وجہ ہے کہ پتھر کی چٹان پر چشمے کا پورا پانی ایک دم بہا دیا جائے تو اس پر کچھ اثر نہیں ہوگا؛ لیکن اگر اسی چٹان پر پانی کا ایک ایک قطرہ مسلسل ٹپکتا رہے تو وہ سوراخ کرجاتا ہے، یہ ہے پابندی کی طاقت! صرف جذبات میں اقدام کردینا پھر ٹھنڈے پڑ جانا کوئی عقل مندی؛ اس لئے ضروری ہے کہ اپنے سکت اور استطاعت کے مطابق کوشش جاری رکھے۔
۵۔ جائزہ و احتساب: درمیان میں وقفہ وقفہ سے جائزہ بھی لینا چاہیے تاکہ اندازہ ہو کہ کس قدر محنت ہورہی ہے اور مزید کتنی کرنی چاہیے؛ ورنہ چلتی گاڑی ہی سب کچھ سمجھ آئے گی۔
۶۔ غیر ضروری اور بےکار مصروفیتوں سے اجتناب: اپنے مقصد کی کامیابی اور اپنے خواب کو شرمندۂ تعبیر ہوتا دیکھنے کے لئے لازم ہے کہ غیر ضروری امور سے گریز کریں؛ اس لئے ایسا کرنے سے توجہ بٹ جاتی ہے اور اصل کام رہ جاتا ہے۔
۷۔ صبر و تحمل والا مزاج بنائیں: کامیابی کے باغ تک رسائی کے لیے بہت سی خاردار وادیوں اور کئی سنگلاخ بستیوں سے گذرنا پڑتا ہے اس لئے کتنا بڑا منصوبہ ہو اتنا ہی بڑا متحمل ہونا چاہیے، حضرت ابراہیم نے چھری چلائی تو آسمان سے دنبہ اترا، حضرت یوسف نے گھر چھوڑا تو شاہی تخت پر جلوہ گر ہوئے، اس لئے قربانی کا مزاج بنائیں۔
۸۔ صدقہ اور دعا کا اہتمام کریں: احادیث میں دعا اور صدقہ کو مزیلِ آلام و مصائب بتایا گیا ہے اس لئے اس کا بھی خاص اہتمام ہونا چاہیے ۔
خلاصہ تحریر:
دنیا کا یہ فلسفہ زندگی بھر یاد رہنا چاہیے کہ جو تم سے آگے ہیں وہ راستہ نہیں دیں گے اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو روایتوں کی صفوں توڑ کر آگے بڑھیں، یہی زمانہ کا تقاضا اور وقت کی پکار ہے، منزلیں منتظر ہیں، راستے کھلے ہیں ہم نے سوچنا بند کردیا ہے، سوچنا شروع کیجئے، آپ میں تو پہاڑوں کہ تراشنے اور چاند پر کمندیں ڈالنے کی طاقت ہے، ، اپنی شخصیت کو پہچانیں، اپنی الگ سے مستقل پہچان بنائیں، دوسروں کے نام کے سہارے جینا بھی کوئی جینا ہے، اور اپنے خطۂ آرام سے نکل کر اپنے خوابوں کی طرف جانے کے لیے خود کو تیار کریں۔
منزلیں قدم چومیں گی، راستہ خود بن جائے گا
حوصلہ کر تو بلند تو آسمان بھی جھک جائے گا
اور
یقین ہو تو کوئی راستہ نکلتا ہے
ہوا کی اوٹ بھی لے کر چراغ جلتا ہے